تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     18-04-2022

نصف آبادی کب تک اپاہج رہے گی ؟

چھ دن پہلے جو واقعہ وفاقی دارالحکومت کے ایک تھانے میں پیش آیا وہ بظاہر بہت معمولی ہے۔ یہ کوئی بریکنگ نیوز تھی نہ پرنٹ میڈیا کی سرخی۔ دو تین اخباروں نے چھوٹی سی خبر شائع کی لیکن اس کے باوجود اس واقعہ میں ہمارے لیے سبق ہے اور نشانیاں۔ اس کے ساتھ ہی ماضی کے دو واقعات یاد آرہے ہیں۔ ایک کا کالم نگار خود شاہد ہے۔دوسرا سنا ہے اور راوی ثقہ ہیں۔
اب صحیح یاد نہیں یہ سفر غرناطہ سے بارسلونا تک کا تھا یا بارسلونا سے روم تک کا۔ ٹرین کے ڈبے میں آمنے سامنے دو لمبی سیٹیں تھیں۔ ایک پر کالم نگار بیٹھا تھا۔ سامنے والی سیٹ پر تین لڑکے اور ایک لڑکی براجمان تھی۔ عمر اور وضع قطع سے یہ کسی کالج یا یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ لگ رہے تھے۔ گاڑی چلی۔ یہ آپس میں ہنسی مذاق، ٹھٹھا مخول کر رہے تھے۔ ایک لڑکا لڑکی کے ایک طرف بیٹھا ہوا تھا اور دو دوسری طرف۔ لڑکی کے پاس چاکلیٹ تھی یا کھانے کی کوئی اسی قبیل کی شے۔ اس نے نکالی اور کھانا شروع کردی۔ ایک لڑکے نے کہا کہ مجھے بھی دو۔ لڑکی نے انکار کر دیا۔ اب یہ لڑکی کی چھیڑ بن گئی اور لڑکوں کی ضد۔ لڑکوں نے اس سے چاکلیٹ چھیننا چاہی مگر اس نے نہ چھیننے دی۔ وہ کھاتی بھی رہی اور ایک ہاتھ سے ایک لڑکے کو اور دوسرے ہاتھ سے دوسرے دو لڑکوں کو روکے بھی رکھا۔ یہاں تک کہ اس نے چاکلیٹ ختم کر لی! آپ کا کیا خیال ہے کیا ہماری، یعنی ایک عام پاکستانی لڑکی، تین لڑکوں کا مقابلہ کر سکے گی ؟ دوسرا واقعہ ایک سرکاری دفتر کا ہے۔ایک بڑا افسر تھا۔ ایک خاتون افسر اس کی ماتحت تھی۔ یہ خاتون بہت کم آمیز اور کم گو تھی۔ کسی مرد کے ساتھ چائے پیتی نہ ضرورت کے بغیر بات کرتی۔ بڑا افسر اس دفتر میں نیا نیا وارد ہوا تھا اور وہ جو میر کا مشہور شعر ہے کہ
دل سے شوقِ رُخِ نکو نہ گیا
تاکنا جھانکنا کبھو نہ گیا
تو رُخِ نکو کا اسے بہت شوق تھا۔ خاتون افسر فائل لیے اس کے کمرے میں آئی۔ ضروری بات کی اور اٹھنے لگی تو صاحب نے کہا کہ بیٹھیں! چائے پیتے ہیں۔ خاتون نے شکریہ ادا کر کے معذرت کی۔ صاحب نے اصرار کیا۔ خاتون نے بتایا کہ خواتین کا چائے کا الگ بندو بست ہے اور یہ کہ وہ چائے وہیں پیتی ہے۔ خاتون اُٹھ کھڑی ہوئی۔ صاحب بٹھانے، گپ مارنے اور چائے پلانے پر تُلا ہوا تھا۔ اس نے بازو سے پکڑ کر بٹھانے کی کوشش کی۔ عینی شاہدبتاتا ہے کہ اس کے بعد نہ جانے کیا ہوا۔ جو کچھ بھی ہوا ، برق رفتاری سے ہوا اور صاحب فرش پر چت پڑا ہوا تھا۔ اس لیے کہ خاتون مارشل آرٹ کی ماہر تھی۔اس نے یونیورسٹی سے کراٹے کی بلیک بیلٹ حاصل کی ہوئی تھی۔
چھ دن پہلے ایک ہوٹل کی انتظامیہ نے پولیس کو اطلاع دی کہ ان کے پاس ایک غیر ملکی خاتون قیام پذیر ہے جس کے ویزے کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ پولیس اسے پکڑ کر اُس تھانے میں لے آئی جو خواتین کے لیے مخصوص تھا۔ عورت روسی تھی اور مارشل آرٹ کی ماہر۔ روزنامہ دنیا کی رپورٹ کے مطابق اس نے خاتون اے ایس آئی کی درگت بنا دی اور دوسرے اہلکاروں کو بھی مار مار کر ان کا برا حال کر دیا۔ جو کچھ بھی اس غیر ملکی خاتون نے کیا غلط تھا اور غیر قانونی‘ مگر نکتہ یہاں سمجھنے کا یہ ہے کہ ہماری تو پولیس کی اے ایس آئی بھی اس سے پِٹ گئی تو ایک عام لڑکی کسی مرد غنڈے کا کیا مقابلہ کرے گی ؟
ہماری لڑکیاں ، ہماری عورتیں، سخت غیر محفوظ ہیں۔ مرد انہیں چھیڑتے ہیں۔ آوازے کستے ہیں۔ سکول کالج سے نکلتی ہیں تو ان کا تعاقب کرتے ہیں۔ راہ چلتی لڑکیوں کو روک کر انہیں موٹر سائیکل پر بیٹھنے کی پیشکش کی جاتی ہے تو کبھی کار میں سوار ہونے کے لیے کہا جاتا ہے۔ شہروں کی خوشحال آبادیوں کے سوا پورے ملک میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ خاص طور پر پرانی وضع کے محلوں ، قصبوں اور شہروں کے قدیم، گنجان آباد حصوں میں۔ جو لڑکیاں بِن باپ کے ہیں یا جن کے سروں پر بھائی کا یا کسی مرد کا سایہ نہیں ، انہیں اکثرو بیشتر ہراساں کیا جاتا ہے۔اس مکروہ سرگرمی کے لیے باقاعدہ پلاننگ کی جاتی ہے۔ ایسی لڑکیوں کی مائیں بھی بے بس ہوتی ہیں اور صبر کرنے اور صبر کی تلقین کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتیں! ایک تو بے بسی اور بے کسی،اوپر سے بدنامی کا خوف! اس بدنامی کے خوف سے قانون کی مدد لینے سے ہچکچاتی ہیں! ہراساں کی جانے والی خواتین میں سے بہت کم ، انتہائی کم، خواتین پولیس میں رپورٹ درج کراتی ہیں۔
اس صورت حال کا سبب کیا ہے اور علاج کیا ہے ؟ المیہ یہ ہے کہ ہم نے لڑکیوں کو چھوئی موئی بنا کر رکھ دیا۔ ہم نے عورت کے لیے ''صنف نازک‘‘ کی اصطلاح وضع کی اور پھر اس عورت کو بے دست و پا کر دیا۔ بازار جائے تو بھائی ساتھ ہو۔ کالج جائے تو باپ چھوڑنے جائے۔ کوئی بد معاش آوازہ کسے یا تعاقب کرے تو واحد دفاع یہ ہے کہ وہ سر جھکا لے، چلنے کی رفتار تیز کر دے، گھر میں داخل ہو کر دروازہ بند کرے، پھر بند دروازے سے پیٹھ لگا کر، دل پر ہاتھ رکھ کر، ایک لمبا سانس لے ! اور اس کے بعد جب بھی باہر نکلنا ہو، خوف سے کانپنے لگ جائے ! ڈراموں میں بھی یہی دکھایا جا رہا ہے کہ بد قماش مرد بند کمرے میں عورت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ عورت خوف زدہ ہو کر، اپنے آپ کو پچھلی دیوار کی طرف گھسیٹتی ہے۔اس پر حملہ نہیں کرتی۔ پردہ، شرم و حیا، چادر، چار دیواری، حجاب، عفت و شرافت، سب بجا! سب لازم ! مگر ان میں سے کوئی چیز بھی لڑکی کو اپنا دفاع کرنے سے منع نہیں کرتی! قرنِ اول میں خواتین گھڑ سواری کرتی تھیں۔ تیر اندازی اور شمشیر زنی سیکھتی تھیں۔ضرورت پڑتی تو خیمے کی میخ سے دشمن مرد کو قتل بھی کر دیتیں۔عورت کو نزاکت اور خود ترحّمی کے اُس حصار سے نکالنا ہو گاجسے اس کے گرد قائم کر دیا گیا ہے۔ اسے اپنا دفاع کرنا سیکھنا ہو گا۔ ہر خاتون کو اس خاتون کی طرح ہونا چاہیے جس نے بزور بٹھانے والے کو چاروں شانے چت کر دیا تھا۔ کوئی اس کا راستہ روک کر کھڑا ہو جائے تو لڑکی کو اس کے دانت توڑ دینے چاہئیں۔ سبزی بیچنے والا بد معاشی کرے تو ایک کِک اس کے پیٹ میں پڑنی چاہیے۔ کوئی اوباش موٹر سائیکل روک کر بیٹھنے کے لیے کہے تو اسے موٹر سائیکل سمیت زمین پر گرا دینا چاہیے۔ یہاں قانون بے لاگ نہیں۔ یہاں پولیس قابل اعتبار نہیں۔ یہاں معاشرہ تماشا دیکھنے کا عادی ہے، آگے بڑھ کر ظالم کا ہاتھ نہیں روکتا۔ عورت کب تک آسرے ڈھونڈے گی؟ کب تک ذلیل ہو گی ؟ جن کے گھروں میں مرد نہیں وہ کب تک تکیوں میں سر دے کر آنسو بہائیں گی ؟
ہر سکول ، ہر کالج، ہر یونیورسٹی میں لڑکیوں کے لیے جوڈو کراٹے کی تربیت کا انتظام کرنا ہو گا۔ اسے سیلف ڈیفنس سکھانا ہو گا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس تربیت کو لازم کرے۔ ماں باپ عقل سے کام لیں اور اس تربیت کی مخالفت کرنے کے بجائے اس کا باقاعدہ مطالبہ کریں۔ سرکاری اداروں میں یہ بند و بست سرکار کرے اور نجی شعبے میں صرف اُس تعلیمی ادارے کو کام کرنے کی اجازت دی جائے جو اس تربیت کا کما حقہ انتظام کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved