آج کل جو ''سنتے کانوں اور دیکھتی آنکھوں‘‘ کے سامنے ہو رہا ہے‘ تماشے سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ اوجھل‘ سایوں میں حرکت کرتی‘ دھندلکوں میں منہ چھپائے‘ نا قابلِ شناخت پرچھائیوں کی دلچسپیوں کی طرف تھوڑا سا بھی دھیان دیں تو نصف صدی قبل کی سیاست کے خدوخال ایک ایک مرکزی کردار اور دلدل میں پھنسی پاکستانی سیاست کی فلم ذہن میں بار بار گردش کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اس سے قبل میں عرض کر چکا ہوں کہ ہمارے سیاست باز اپنے ذاتی مفادات میں گم بحران پیدا کرنے کی مہارت تو رکھتے ہیں‘ مگر کبھی نہیں دیکھا کہ وہ میز کے گرد بیٹھ کر کوئی حل نکال سکے ہوں۔ حل تو پھر تیسری قوت نے نکالا‘ مگر اکثر ان کے غیرسیاسی‘ سیاسی فارمولوں نے پہلے سے زیادہ پیچیدہ بحرانوں کو جنم دیا۔ میری جنریشن کے لوگ ابھی موجود ہیں‘ یہ درویش تو ان واقعات کا شاہد ہے۔ ایوب خان کے خلاف طلبا تحریک چلی تو ہم ہر جلوس میں شامل ہوتے اور سیاسی جلسے میں‘ چاہے وہ جس جماعت یا اتحاد کا ہو‘ شرکت لازمی نصاب کی مانند تھی۔ ایوب خان کے خلاف تحریک کے دوران کئی مواقع آئے جب مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل ممکن تھا‘ مگر جو تحریک طلبا سے شروع ہوئی‘ وہ دیکھتے ہی دیکھتے قومی تحریک کی صورت اختیار کر گئی۔ مزدور‘ دکاندار‘ وکیل اور ہر نوع کی انجمنوں نے بھی ہڑتالیں اور مظاہرے شروع کر دیئے تھے۔ مشرقی پاکستان کا سیاسی میدان زیادہ گرم تھا‘ لیکن مغربی پاکستان میں بھی حدت کچھ کم نہ تھی۔ حکومتِ وقت کے خلاف ناجائزیت کا ٹھپہ لگ چکا تھا‘ اور اس کی اخلاقی اور قانونی بنیادیں ہل چکی تھیں۔ صرف یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ اسمبلیاں بھی موجود تھیں‘ کابینہ بھی اور نوکرشاہی کے کل پُرزے بھی‘ مگر جلسوں اور جلوسوں کی بھرمار نے سب کچھ مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔
حکومت نام کی کوئی چیز نہ رہی تو گرائو‘ جلائو اور پہیہ جام کرو کی حکمرانی پیدا ہونا فطری بات تھی۔ انہیں حالات میں ہمارے وقت کے سپہ سالار یحییٰ خان میدان میں اترے۔ کئی ایسے غیرسیاسی‘ سیاسی فیصلے کئے کہ عقل دنگ رہ جانے کا بے کراں سمندر کی طرح کوئی کنارہ نہ رہا۔ سب کا ذکر کرنا اس وقت کے حالات کے تناظر میں ضروری نہیں‘ سوائے اس فیصلے کے کہ انتخابات نو یا دس ماہ بعد ہوں گے‘ اور اس کے لیے انہوں نے تضادات سے بھرپور ایک ''لیگل فریم ورک آرڈر‘‘ بھی جاری فرمایا تھا۔ ان کے تخت نشین ہونے تک ایک سال کے قریب عوامی تحریکیں میدان سنبھال چکی تھیں۔ خیر وہ تو ''غیر سیاسی‘‘ تھے‘ مگر ملک کے طول و عرض میں کوئی غیر سیاسی نہیں تھا۔ سب کی سیاسی وابستگیاں گہری ہو چکی تھیں۔ لسانی اور سیاسی‘ دونوں قسم کی تقسیم عروج پہ تھی‘ اور جلسوں میں وہی باتیں عام تھیں‘ جو آج ہو رہی ہیں۔ کوئی مبالغہ نہیں‘ تاریخ کی کوئی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں۔ غدار‘ سازش‘ غلامی اور آزادی کے نعروں کی تب بھی گونج تھی‘ مگر جو آج کل دیکھ رہے ہیں‘ شاید اس میں کاٹ کہیں زیادہ ہے۔ نو‘ دس ماہ انتخابی مہم چلی تو سارا ملک نعروں اور جلوسوں کی زد میں رہا اور ہم بھانت بھانت کی سیاسی بولیاں بولتے‘ سنتے‘ لڑائیاں لڑتے‘ زخمی گھروں کو لوٹتے اور اپنی اپنی پارٹی کے جھنڈوں کو سلام کرکے سو رہتے۔ اگلا دن پھر جلسوں سے شروع ہوتا۔ اتنی لمبی انتخابی مہم اور کئی متضاد عوامی تحریکوں کی تاریخ بھی ہم نے وطنِ عزیز میں ہی دیکھی۔ خدا خدا کرکے انتخابات ہوئے تو نتائج سب کے لیے حیران کن تھے۔ جیتنے والوں کے لیے بھی اور ہارنے والوں کے لیے بھی۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کی ابھی باتیں ہو رہی تھیں تو انہی صفحات پر ایک کالم بعنوان ''اب انتخابات ناگزیر ہیں!‘‘ آپ کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ یہ تاریخی پس منظر آپ کے سامنے اس لیے رکھا ہے کہ شاید کوئی کہیں اس بات کا ادراک کر سکے کہ اگر انتخابات فوری طور پر نہ کرائے گئے تو سیاسی بحران کئی بحرانوں کو جنم دے سکتا ہے۔ کئی باتیں پُرانے بحرانوں کا مکمل عکس ہیں۔ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کی مہم چلی اور اس سے قبل عمران خان کا دھرنا‘ دو ہزار تیرہ کے انتخابات کی شفافیت کے بارے میں سوالات جن کا جواب آج تک نہیں ملا‘ اور پھر گزشتہ انتخابات کے فوراً بعد منتخب اسمبلی کے بارے میں دھاندلی کا بیانیہ‘ آئینی جائزیت کے سوالات‘ کئی لانگ مارچوں کا ناکام سلسلہ اور پھر ضمیر جگانے کا عمل اور حکومت کی تبدیلی کا ''آئینی‘‘ راستہ‘ یہ سب واقعات ایک ہی جاری بحران کے مراحل ہیں۔ نہ عمران خان صاحب نے شریفوں اور زرداریوں کو دم سادھنے دیا‘ اور نہ وہ چین سے بیٹھے۔ ہمارے قبلہ محترم تو حکومت کسی کی بھی ہو‘ اگر کسی وجہ سے باہر ہوں تو لانگ مارچ اور حکومت گرائو کی مہموں میں حصہ ڈالنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
جو سیاسی تبدیلیاں مرکز اور پنجاب میں لائی گئی ہیں‘ مجھے کوئی فطری عمل معلوم نہیں ہوتا۔ سب کچھ فنی مہارت اور کاری گری سے کیا گیا لگتا ہے۔کیا بات کریں‘ اندھے بھی اسے دیکھ اور محسوس کر سکتے ہیں۔ آئینی جائزیت کا پردہ اتنا نرم‘ نازک اور باریک ہے کہ اس کے پیچھے ناچتی دھاندلی کی تصویر صاف نظر آتی ہے۔ یہ کیسا نظام اور جمہوریت ہے کہ آپ حکمران جماعت کے لوگوں کو ساتھ ملائیں اور حکومت کا تختہ الٹ دیں۔ یہ فنکاری ان جماعتوں نے کی جو دو دہائیوں تک ایک دوسرے کے خلاف یہ کھیل کھیلتی رہیں اور آخر آئین میں متفقہ طورپر شق ڈالی کہ آئندہ ایسی حرکت ایک دوسرے کے خلاف نہ کر سکیں۔ اب بھی وہ سچے ہیں کہ وہی حربہ انہوں نے تحریک انصاف کے خلاف استعمال کیا ہے۔ وہ خود اور ان کے ہرکارے جو بھی سیاسی بولیاں بولیں‘ ناجائزیت کا آسیب ان کے سروں کو ایک ناقابلِ علاج بیماری کی طرح اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔ اگر اسمبلیاں‘ ان کے سابقہ بیانیے کے مطابق دھاندلی زدہ تھیں اور وہ اس تناظرمیں نئے انتخابات کا ہر روز مطالبہ کرتے تھے‘ تو اب وہ کس منہ سے انہیں جائز قرار دے کر اقتدار کی کرسی سنبھال بیٹھے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ اب تو انتخابات وقت پر ہوں گے اور اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی۔ جناب حالات کا رخ بدل چکا ہے۔ کپتان نے تو انتخابی مہم شروع کردی ہے۔ ابھی تک ان کے جو جلسے ہوئے ہیں یعنی پشاور اور کراچی میں‘ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسے رضاکارانہ اکٹھ نہیں ہوئے‘ اور پھر ایک ہی ٹویٹ پر ہر شہر میں لوگ ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں اور چوکوں میں امڈ پڑتے ہیں۔ ابھی تک تاکید کر رہے ہیں کہ پُرامن رہیں‘ ریاستی اداروں کے بارے میں منفی بات نہ کریں‘ اور نظام عدل کے بارے میں صرف ایک معمولی سا سوال چھوڑ دیتے ہیں کہ رات کے بارہ بجے عدالت کھولنا کیوں ضروری تھا؟ حالات بگڑ سکتے ہیں‘ شاید کسی کے قابو میں نہ رہیں کہ حمام والی بات یاد آجاتی ہے۔ اب تو بچے بھی غیرسیاسی نہیں رہے۔
بحران سے بچنے کا اب بھی وقت ہے کہ سب سیاسی جماعتوں کے درمیان کوئی پُل کا کردار ادا کر سکے۔ عدلیہ کر سکتی تھی‘ اگر نئے انتخابات اپنے فیصلے میں شامل کر لیتی۔ تنائو بڑھتا گیا اور عوام کپتان کے جلسوں میں اسی طرح امڈتے چلے آئے تو شاید اس کی تحریک کوئی اور رخ اختیار کرلے۔ شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ انہیں جیل میں ڈال کر آپ تحریک ختم کر دیں گے‘ ایسا نہیں ہوگا۔ شیخ مجیب الرحمن جیل ہی میں تھے اور مشرقی پاکستان میں دیگر جماعتیں صرف ایک سیٹ جیت سکی تھیں۔ اصلاحات کی باتیں ہم سمجھ گئے ہیں کہ فائلوں کی صفائی ایسی کریں کہ بعد میں کہہ سکیں کہ ''کوئی الزام ہمارے خلاف ثابت نہیں ہو سکا‘‘۔ وقت اور تاریخ کا بھی اپنا ایک جبر ہے۔ وہ ہم دیکھیں گے۔