10 اپریل کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے وفاقی سطح پر پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ دو خاندانوں کے زیر تسلط دو بڑی سیاسی جماعتوں کی پاکستانی سیاست پر سیاسی اجارہ داری کو توڑنے کی کوشش کے خاتمے کی علامت ہے۔ یہ ناکامی جزوی طور پر عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی گورننس اور سیاسی نظم و نسق کے لیے ایک بہتر متبادل وضع کرنے میں ناکامی اور ایک حد تک پی ایم ایل (این) اور پی پی پی کی سیاست کی گہرائی تک پیوست جڑوں کی وجہ سے ہوئی۔ ''پرانے محافظوں‘‘ کی واپسی سے سیاست اور تجارتی اخلاقیات کے امتزاج کو دوبارہ زندہ کرنے کی امید اجاگر ہوئی ہے۔ اس طرح ممکنہ طور پر سیاست کو منافع پر مبنی تجارتی سرگرمی میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ ماضی کی طرح، پالیسی سازی اور پالیسی کے نفاذ کے لیے وفادار بیوروکریٹس، پراپرٹی سے وابستہ لوگوں، سرکاری ٹھیکیداروں اور سامان و خدمات کے سپلائرز اور درمیانی سے اعلیٰ درجے تک کی کاروباری اور تجارتی اشرافیہ کے ذریعے غیر متناسب اثر و رسوخ استعمال کیا جائے گا۔ ریاستی سرپرستی اور وسائل کو فائدہ اٹھانے والوں کا ایک طبقہ تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا جو عام لوگوں کو عوامی جلسوں اور انتخابات کے لیے متحرک کرے گا۔
سیاسی تبدیلی کا اطمینان بخش عنصر آئین میں بتائے گئے طریقہ کار کے ذریعے اقتدار کی منتقلی تھا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے قومی اسمبلی میں غیر متعلقہ تقاریر کے ذریعے تحریک عدم اعتماد کو چند روز تک التوا میں رکھنے کی کوششوں کے باوجود آئینی رسم نبھائی گئی۔ پی ٹی آئی نے تحریک عدم اعتماد کو سفارتی کیبل سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ عمران خان کی حکومت امریکہ کے کہنے پر اپوزیشن کے ہاتھوں ناک آؤٹ ہو رہی ہے۔ 9 اپریل کی آدھی رات سے چند منٹ قبل سپیکر کے مستعفی ہونے کے فیصلے نے قومی اسمبلی کو نصف شب کے بعد کارروائی مکمل کرنے کے قابل بنا دیا؛ تاہم تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کی تکمیل اس رات سیاسی عمل کی بد صورت جہت کو چھپا نہیں سکی۔ اس عمل نے آپریشنل سطح پر جمہوریت کے معیار میں شاید ہی کسی بہتری کی نمائندگی کی ہو گی۔ پی ڈی ایم اور پی پی پی والے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے پر اصرار کر رہے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ نمبر گیم ان کے حق میں ہے۔ انہوں نے جمہوری عمل کی حمایت کی کیونکہ انہیں ایک سازگار نتیجے کا یقین تھا۔ پی ٹی آئی کی قیادت بالخصوص عمران خان ووٹنگ میں ہر ممکن تاخیر چاہتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ عمل ان کے خلاف جائے گا۔ پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے ان کے اس رویے کے کیا نقصان دہ مضمرات ہیں‘ اس کی انہیں کوئی پروا نہیں تھی۔
دو عوامل تھے جنہوں نے اس رات ووٹنگ میں سہولت فراہم کی۔ پہلا عنصر 9 اپریل کی نصف شب کے قریب عدالت کے دروازے کھلنا تھا۔ یہ بات درست ہے کہ معزز جج کہیں بھی اور کسی بھی وقت کسی بھی درخواست پر غور کر سکتے ہیں‘ تاہم یہ امر اس واقعہ کی غیر معمولی نوعیت کو کم نہیں کرتا جس نے حکمران پی ٹی آئی کو تاخیری حربوں سے روکنے میں مدد کی۔ دوسرا عنصر اسٹیبلشمنٹ کا غیر متعصبانہ رویہ تھا جس نے پی ڈی ایم کو پی ٹی آئی حکومت کے خلاف اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی ہمت دی۔
پی ٹی آئی کے پاس قومی اسمبلی کے ذریعے اقتدار سے بے دخلی کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا تھا؛ تاہم اس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اپنے اراکین قومی اسمبلی کے استعفے جمع کرا دیئے۔ پی ٹی آئی کے 120 سے زائد ارکان کے استعفوں نے قومی اسمبلی میں واحد سب سے بڑی جماعت کی عدم موجودگی میں قومی اسمبلی کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ یہ قبل از وقت عام انتخابات پر مجبور کرنے کی کوشش ہے کیونکہ اتنی زیادہ نشستوں پر ضمنی انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کے لیے ایک مشکل کام ہو گا، خاص طور پر اس وقت جب وہ عام انتخابات کے لیے حلقوں کی حد بندیوں میں مصروف ہے۔ پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں نے قومی اسمبلی کے لیے سیاسی جواز کے مسائل پیدا کر دیئے ہیں۔
عمران خان سڑکوں پر احتجاج‘ عوامی ریلیوں اور جارحانہ تقاریر کے ذریعے 11 اپریل کو قائم ہونے والی پاکستان مسلم لیگ (ن)/ پی ڈی ایم کی حکومت پر سیاسی دباؤ بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 13 اپریل کو پشاور میں اور 16 تاریخ کو کراچی میں ہونے والے جلسے بہت منظم اور متاثر کن تھے۔ اگر عمران خان اگلے تین چار عوامی جلسوں میں اپنی عوامی اپیل کو جاری رکھتے ہیں تو ان کا قبل از وقت عام انتخابات کا مطالبہ قابل توجہ ہو جائے گا۔ یہ سب کچھ قومی اسمبلی میں تبدیلیاں لانے کے لیے ماورائے پارلیمان طریقے استعمال کرنے کے مترادف ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی نئی حکومت کو سخت سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے۔ جس طرح پی ایم ایل (این) اور پی پی پی نے پی ٹی آئی حکومت کے لیے مؤثر طریقے سے کام کرنا مشکل بنا دیا تھا، اب پی ٹی آئی بھی اسی طرح نئی حکومت کے ہموار انداز میں کام کرنے کے عمل میں رکاوٹ ڈالے گی۔ پاکستان میں حکومت تو بدل گئی لیکن سیاست اسی پرانی طرز پر چلتی رہے گی۔ ایک دوسرے کی توہین اور باہمی چپقلش۔
پی ایم ایل (این) اور پی پی پی کی بڑی دلیل یہ تھی کہ پاکستان کے معاشی مسائل اور اشیائے خور و نوش اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ پی ٹی آئی حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں اور ناقص طرز حکمرانی کی وجہ سے ہے۔ ان کا موقف تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے سے یہ معاملات قابو میں آ جائیں گے۔ نئی حکومت کو جلد ہی احساس ہو جائے گا کہ پاکستان کی معیشت میں کچھ ساختی مسائل ہیں اور قیمتوں میں اضافہ عالمی اور مقامی عوامل کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پاکستان کی معیشت میں مطلوبہ بنیادی تبدیلیاں اس وقت تک نہیں ہو سکتیں جب تک حکومت اور اپوزیشن معاشی معاملات پر کچھ سمجھ بوجھ پیدا نہ کریں۔ اگر نئی حکومت عام لوگوں کے سماجی و اقتصادی مسائل کو فوری طور پر حل نہ کر سکی اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی تو پی ٹی آئی کو سیاسی تبدیلی کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگانے کا ایک اضافی جواز مل جائے گا۔ دو دیگر عوامل بھی نئی حکومت کی تقدیر پر اثرانداز ہوں گے: پہلا‘ شریف خاندان اور زرداری خاندان عدالتوں میں زیر التوا اپنے بدعنوانی کے مقدمات کو کیسے نمٹائیں گے۔ دوسرا، پنجاب حکومت حمزہ شہباز کی سربراہی میں ہے، اس طرح یہ خاندانی حکمرانی کے مشرق وسطیٰ کے ماڈل سے مشابہت رکھتی ہے۔ آپ اسے جمہوریت کی روح سے کیسے ہم آہنگ کر سکتے ہیں؟
حکومت کی تبدیلی کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستانی سیاست بدل جائے گی۔ توقع ہے کہ یہ اسی پرانے انداز میں جاری رہے گی۔ پاکستان کے معاشی اور سماجی مسائل کی جڑیں اس قدر گہری ہیں کہ ان کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے مابین تعاون، باہمی احترام اور دونوں (حکومت اور اپوزیشن) کی جانب سے تحمل پر مبنی ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ حکومت اگر سیاسی حریف کو ختم کرنے کے مقصد کے ساتھ کی جائے گی تو سیاست تصادم اور انتشار کا شکار رہے گی۔ ایسی سیاست پاکستان کے معاشی مسائل کو حل کرنے میں مددگار نہیں ہو سکتی۔ پاکستانی سیاست معاشی ترقی اور انسانی بہبود کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔