عمران خان کو وزیراعظم ہائوس سے نکالے ابھی دو دن بھی نہیں گزرے کہ امریکا اور بھارت نے ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر ''ڈو مور‘‘ کے مطالبات شروع کر دیے۔ دونوں ممالک نے مشترکہ بیان میں کہا کہ پٹھان کوٹ اور چھبیس گیارہ کے ممبئی حملے کے تمام ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ حالانکہ اس سے قبل ایک مقدمے میں حافظ محمد سعید کو 31 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی مگر اس سے بھی امریکا اور بھارت کا دل نہیں بھرا تو انہوں نے بین الاقوامی میڈیا پر ایک ساتھ سخت وارننگ جاری کرتے ہوئے کہنا شروع کر دیا کہ پٹھانکوٹ اور چھبیس گیارہ حملوں میں 'ان کے بتائے گئے‘ تمام ذمہ داروں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔
عمران حکومت میں پلوامہ میں مودی سرکار کا کھیلا گیا ڈرامہ ابھینندن کی صورت میں بھارت کو ایسی دھول چٹا گیا کہ اس کے بعد اس کی جرأت نہ ہو سکی کہ وہ عمران خان حکومت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے۔ اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ‘ جو عمران خان کی صورت میں آخری چٹان کی طرح اس کے ناپاک ارادوں اور خواہشات کو خاک میں ملانے کیلئے بیچ میں حائل تھی‘ کو عبور کرتے ہی مودی سرکار اب دوبارہ دھمکیاں دینا شروع ہو گئی ہے۔ مودی سرکار کا یہ رویہ اس قوم کو کبھی بھی قبول نہیں ہو گا اور نہ ہی ایک عزت دار ملک کی حیثیت سے اسے برداشت کیا جائے گا۔
پٹھان کوٹ کی بات کرنے سے پہلے امریکا اور بھارت کو آئینہ دکھائے دیتے ہیں اور اگر وہ اس میں اپنے چہرے غور سے دیکھیں تو انہیں اس حملے کے دہشت گردوں کی شکلیں اپنے اندر ہی دکھائی دے جائیں گی۔ 26/11 حملے کے مبینہ دس دہشت گردوں میں سے بھارت کے ہاتھ اجمل قصاب لگا، جس کوزخمی حالت میں گرفتار کرنے کا ڈرامہ رچایا گیا تھا لیکن کیا وجہ ہے کہ پٹھان کوٹ کے چھ حملہ آوروں میں سے کسی ایک کو بھی دنیا کو دکھانے کیلئے زندہ نہ بچایا جا سکا؟ ان میں سے بھی کسی ایک کو اجمل قصاب کی طرح ہلکا سا زخمی کرنے کے بعد گرفتار کر لیا جاتا تو پھر بھارت کیلئے آسانی ہو جاتی اور وہ اس کے تانے بانے بھی اجمل قصاب کی طرح‘ پاکستان کے کسی علا قے سے ثابت کر دیتا۔ آج کی دنیا میں جس طرح دہشت گردوں کے پاس جدید ترین ہتھیار اور آلات ہوتے ہیں‘ اسی طرح حکومتوں اور سکیورٹی اداروں کے پاس بھی مقابل کو بے ہوش اور بے سدھ کرنے کے جدید طریقے ہوتے ہیں۔ کیا دنیا کی تیسری بڑی فوج کیلئے یہ کوئی مشکل کام تھا کہ وہ ان دہشت گردوں میں سے کسی ایک کو زندہ گرفتار کر لیتی؟ پٹھان کوٹ حملے کو کئی برس بیت چکے ہیں لیکن ابھی تک ان چھ حملہ آوروں کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتایا گیاکہ وہ کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے؟ کیسے پہنچے تھے۔ البتہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ بھارت میں کوئی چھوٹا؍ بڑا واقعہ ہو اور الزام پاکستان پر نہ آئے؛ تاہم بھارت کے الزام لگانے کے طریقے خاصے مضحکہ خیز ہوتے ہیں۔ پٹھان کوٹ حملے کے بارے میں کہا گیا کہ اس حملے میں ملوث افراد سرحد پار سے آئے اور وہ جیشِ محمد سے تعلق رکھتے تھے جبکہ حملے کی پلاننگ مولانا مسعود اظہر نے کی۔ اس ساری کہانی میں غلطی یہ ہوئی کہ پاک بھارت سرحد سے متصل بامیال نامی جس گائوں کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ حملہ آور وہاں سے آئے تھے‘ حیران کن طور پر وہاں کسی بھی جگہ پر بارڈر پر نصب آہنی باڑ میں کوئی شگاف نہیں ملا، پھر بھارت کی اتنی بڑی بارڈر فورس کا کیا کام اگر وہ چند حملہ آوروں کو بھی نہیں روک سکتی۔
پٹھانکوٹ میں موجود بھارتی ایئر فورس کا بیس کیمپ 1900 ایکڑ پر محیط ہے۔ جن بھی لوگوں نے اسے ٹارگٹ کیا‘ انہوں نے اس ہوائی اڈے کے نقشے کو سامنے رکھنا ہو گا کیونکہ اگر اس کی تمام جزئیات سے آگاہی ہو تو ہی کوئی سرحد پار سے آ کر اس حملے کو کامیابی سے انجام دے سکتا ہے۔ پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے میں داخلے کے بارہ دروازے ہیں لیکن وہ جگہ جہاں سے حملہ آور اندر داخل ہوئے‘ وہاں ہوائی اڈے کی گیارہ فٹ اونچی دیوار ہے۔ بھارتی دعوے کے مطابق دہشتگرد یوکلپٹس کے درخت کے ذریعے دیوار پر چڑھے اور پھر اس گیارہ فٹ اونچی دیوارکے اوپر لپٹی ہوئی خاردار تاروں کو کاٹ کر‘ نائلون کی مضبوط ڈوری کے ذریعے ایک ایک کر کے بیس کے اندر داخل ہو گئے۔ اگرچہ اس جگہ پر سکیورٹی کیمرے بھی نصب ہیں مگر بھارتی حکام کے مطابق اس رات اس جگہ کی بجلی بند تھی۔ یہ بھارتی کہانی کا سب سے بڑا جھول ہے۔ اگر بجلی کسی فنی خرابی کی وجہ سے بند تھی تو کیا اس فالٹ کو رجسٹرڈ کرایا گیا تھا‘ کیا اس حوالے سے کوئی فون کال ریکارڈ موجود ہے؟ جس جگہ سے یہ مبینہ حملہ آور ہوائی اڈے کے اندر داخل ہوئے تھے‘اس جگہ کے دائیں جانب کیشو نگر اور بائیں جانب بیلی مہانتا اور مائرہ مہانتا کے دیہات واقع ہیں جبکہ جہاں سے وہ اندر داخل ہوئے‘ اس کے بالکل دائیں جانب بھارت کا 'میزائل ڈیفنس سسٹم‘ نصب ہے۔ ایسی حساس جگہ پر حملہ ہونا یا تو بھارت کی سکیورٹی ایجنسیوں کی صاف ناکامی ہے یا پھر یہ کوئی 'انسائیڈ جاب‘ ہے کیونکہ اس کے بغیر یہ حملہ ممکن ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ حملہ آوروں نے میزائل ڈیفنس سسٹم کو چھوڑ کر ایئر بیس کو حملے کے لیے چنا، حالانکہ میزائل سسٹم کی نسبت ایئر بیس ایک آسان ٹارگٹ تھی۔
کسی بھی جگہ حملے یا مشقوں کیلئے جب کوئی خفیہ پلان ترتیب دیا جاتا ہے تو نہ صرف اس مقام کی ایک ایک تفصیل سامنے رکھی جاتی ہے بلکہ مشن پر بھیجے جانے والے افراد کو نقشوں اور اس جگہ کی ایک ایک اونچ نیچ سے باقاعدہ آگاہ کیا جاتا ہے بلکہ راستے میں آنے والے کسی بھی نالے‘ کھیت اور درخت تک سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں مہران بیس، کامرہ جی ایچ کیو، بڈھ بیر اور مناواں پولیس سنٹر سمیت جتنی بھی ایسی کارروائیاں کی گئیں‘ ان سب میں دہشت گردوں کے پاس سے جگہ کا نقشہ برآمد ہوا تھا۔ بعد ازاں تحقیقات میں یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ دہشت گردوں کے پاس حملے کے مقام کی ایک ایک تفصیل پہلے سے موجود تھی اور اس کی روشنی میں انہیں باقاعدہ مشقیں کرائی گئی تھیں۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بارڈر پار سے آئے حملہ آور بھارت کے ایک اہم ترین ہوائی اڈے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جائیں‘ جہاں کی بجلی بند ہو اور کیمرے خراب حالت میں ملیں‘ وہ یہ بھی جانتے ہوں کہ میزائل سسٹم جیسا سب سے بڑا ٹارگٹ ان کے بالکل دائیں طرف واقع ہے مگر وہ ادھر کا رخ ہی نہ کریں جبکہ بقول بھارتی حکام‘ ان کے پاس AK47 مع انڈر بیرل گرنیڈز، اضافی میگزینز، چالیس کلو بلٹس، 50 کلوگرام بارود، 30 کلوگرام گرنیڈ تھے۔ کمال ہے کہ اس قدر بھاری ہتھیاروں سے لیس حملہ آور کچھ کر ہی نہ سکے۔ قصہ مختصر پٹھانکوٹ حملہ یا تو بھارت کے ریاستی اداروں نے خود کروایا یا اس میں ان کی معاونت شامل تھی کیونکہ اس کے بغیر یہ حملہ سرانجام ہی نہیں دیا جا سکتا تھا‘ لہٰذا اس حملے کی تحقیقات بھارت کو اپنے ہاں کرانی چاہئیں۔
اب عمران سرکار کو ہٹانے کے بعد شادیانے بجائے جا رہے ہیں مگر امریکا اور بھارت جان لیں کہ عمران خان بھلے اب وزیراعظم پاکستان نہیں رہا لیکن وہ اس ملک کی طرف بڑھتے تمہارے قدموں کی راہ میں حائل آخری چٹان بن کر کھڑا ہے۔