روس پر عالمی پابندیوں میں اضافے کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہو شربا اضافہ دیکھا جا رہا ہے جس نے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کو بھی متاثر کیا ہے۔ امریکا اور یورپ روسی گیس اور پٹرول کا متبادل ڈھونڈنے میں مصروف ہیں‘ شاید اسی لیے ایران پر عائد پابندیاں نرم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ امریکا نے عراق کو اجازت دی ہے کہ وہ 120 دن تک ایران سے تیل اور گیس کی تجارت کر سکتا ہے۔ ممکنہ طور پر امریکہ عراق کے ذریعے ایرانی تیل اور گیس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے گا لیکن ان متبادل ذرائع پر زیادہ دیر تک انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ ایران پر پابندیاں امریکا میں انتخابات کے ساتھ منسلک ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ ڈیموکریٹس ایران پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے حامی رہے ہیں۔ صدر بارک اوباما کے آٹھ سالہ دورِ حکومت میں نہ صرف ایران پر عائد پابندیوں میں خاصی نرمی کی گئی بلکہ ایرانی تیل یورپی مارکیٹ کی ہاٹ پراڈکٹ رہا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ایران کے ساتھ نیوکلیئر پروگرام کا معاہدہ ختم کر دیا گیا اور دوبارہ پابندیاں لگا دی گئیں جس سے تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔ غیر یقینی سیاسی صورتحال کے باعث ایران کو انرجی کے مستقل ذرائع کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔
دنیا کا معاشی توازن برقرار رکھنے کے لیے روس پر عائد معاشی پابندیاں ہٹا کر اس کے وسائل کو دنیا کی بہتری کے لیے استعمال کرنا ناگزیر دکھائی دے رہا ہے۔ روس پر پابندیوں نے روس کی معیشت کو ابھی تک مطلوبہ نقصان نہیں پہنچایا بلکہ اس کے تیل اور گیس کی فروخت جنگ شروع ہونے سے پہلے کی نسبت بڑھ گئی ہے۔ 2022ء میں تیل اور گیس کی فروخت سے روسی آمدن 320 ملین ڈالرز ہے جو 2021ء کی نسبت ایک تہائی زیادہ ہے۔ ایک طرف بھارت اور چین کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا ہے اور دوسری طرف اوپیک ممالک کی جانب سے تیل کے ریٹ بڑھانے کا فائدہ بھی روسی معیشت کو ہو رہا ہے۔ فروری کے آخر میں جنگ کی شروعات سے لے کر اب تک‘ بھارت روس سے تقریباً 13 ملین بیرل تیل درآمد کر چکا ہے جبکہ 2021ء میں بھارت نے روس سے 16 ملین بیرل تیل خریدا تھا۔
چین بھی روسی تیل کا بڑا خریدار ہے۔ گو کہ چین کی سرکاری کمپنیاں روس سے تیل کے نئے معاہدے نہیں کر رہیں لیکن جنگ شروع ہونے سے پہلے کے معاہدوں پر من و عن عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ البتہ چین کے نجی ادارے روس سے تیل کے نئے معاہدے کر رہے ہیں جو نئے ریٹ کے مطابق ہیں۔ ان معاہدوں نے بھی روس کی آمدن بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ایشیا کے علاوہ یورپ بھی روس سے تیل اور گیس خرید رہا ہے۔ عالمی پابندیوں کے باوجود یورپ ابھی تک روسی تیل اور گیس کا سب سے بڑا خریدا رہے۔ روسی صدر کے معاشی مشیر کے ایک حالیہ انٹرویو کے مطابق روس یورپ سے صرف تیل کی فروخت کی مد میں روزانہ ایک بلین ڈالر کما رہا ہے۔ اس کے علاوہ روس کے وزیر توانائی نے اعلان کیا ہے کہ روس اپنے دوست اور ہمسایہ ممالک کو ان کی ڈیمانڈ اور ریٹ کے مطابق تیل اور گیس فراہم کرنے کو تیار ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے لوٹ سیل لگی ہو۔ بھارت تو اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے لیکن پاکستان اس سے فائدہ اٹھا پائے گا یا نہیں‘ اس بارے کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔
پاکستان پٹرولیم مصنوعات کی اپنی بیشتر ضروریات سعودی عرب سے پوری کرتا ہے۔ سعودی عرب کو چھوڑ کر روس سے تیل خریدنا مشکل دکھائی دیتا ہے کیونکہ مارچ 2022ء سے پاکستان سعودی عرب سے ادھار تیل خرید رہا ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کو تین بلین ڈالرز بطور قرض دے رکھے ہیں اور آنے والے دنوں میں وزیراعظم پاکستان مزید امداد کے لیے سعودی عرب کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں بننے والے نئی حکومت کا جھکاؤ بھی روس کے بجائے امریکہ کی طرف دکھائی دیتا ہے۔ امریکی حکومت بھی پچھلی حکومت کی نسبت نئی قیادت کے ساتھ مل کر کام کرنے میں دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے۔ موجودہ صورتحال میں بہتر فارن پالیسی کے تحت روس‘ امریکا اور سعودی عرب سے بیک وقت بہتر تعلقات قائم کرنا پاکستان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ روس سے سستے تیل کے معاہدے پاکستانی معیشت کے لیے ناگزیر دکھائی دے رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر بھاری سبسڈی دی جا رہی ہے تا کہ عوام کو ریلیف دیا جا سکے۔ یہ ریلیف خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ اس وقت
فی لیٹر پٹرول کی قیمت تقریباً 150روپے ہے‘ اس میں ٹیکسز شامل نہیں ہیں بلکہ قیمتِ خرید سے کم پر عوام کو پٹرول فراہم کیا جا رہا ہے۔ اوگرا نے پٹرول کی قیمت 171 روپے فی لیٹر مقرر کرنے کی سفارش کی تھی جسے وزیراعظم صاحب کی جانب سے مسترد کر دیا گیا۔ یاد رکھیں کہ یہ قیمت ٹیکسز کے علاوہ ہے۔ اگر ٹیکسز شامل کر لیے جائیں تو فی لیٹر پٹرول 235 روپے فی لیٹر تک بڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح اس وقت ڈیزل کی قیمت 144 روپے ہے۔ اوگرا نے قیمت 195 روپے فی لیٹر تک کرنے کی تجویز دی تھا جسے مسترد کر دیا گیا۔ اس میں ٹیکسز کی قیمت شامل نہیں۔ ٹیکسز ملا کر یہ قیمت 264 روپے فی لیٹر تک جا سکتی ہے۔ یہ سب بھی اس صورت میں‘ اگر ڈالر موجودہ قیمت پر برقرار رہے۔ اگر ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا تو پٹرول اور ڈیزل کی قیمت 300 روپے فی لیٹر تک بھی پہنچ سکتی ہے۔
اگرچہ اس وقت عوام کو سبسڈی دی جا رہی ہے مگر پاکستان زیادہ دیر تک یہ بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ آج نہیں تو کل‘ اضافی قیمتیں عوام کو منتقل کرنا پڑ سکتی ہیں۔ آئی ایم ایف پہلے دن سے پٹرولیم اور بجلی پر سبسڈی کے خلاف ہے۔ اب ورلڈ بینک نے بھی پٹرولیم مصنوعات پر سے سبسڈی ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کرنسی ایکسچینج کمیشن کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ صاحب نے کہا ہے کہ ان حالات میں تقریباً 2ارب ڈالرز یا 373 ارب روپوں کی پٹرولیم سبسڈی کس طرح افورڈ کی جا سکتی ہے؟ پوری دنیا میں اتنی سبسڈی کون سا ملک دے رہا ہے؟ ایسا ملک جو آئی ایم ایف کے پلان کے اندر ہو‘ اسے اس طرح کے فیصلے زیب نہیں دیتے۔ اگر حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم نہ کی تو پاکستان میں معاشی حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ حکومت 373 ارب روپے کی سبسڈی کس طرح دے رہی ہے؟ تقریباً ہر ہفتے 15 ارب روپے کی سبسڈی دی جا رہی ہے۔ یہ رقم کہاں سے نکالی جا رہی ہے؟ کیا کسی ملک نے مدد کی ہے یا ایک مرتبہ پھر مہنگا قرضہ لیا گیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ صحت، تعلیم اور خوراک کے بجٹ میں سے رقم نکال کر پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دی جا رہی ہے کیونکہ ماضی میں حکومتیں ایسا کرتی آئی ہیں۔ بطور وزیراعظم عمران خان نے تو یہ وجہ بتائی تھی کہ ایف بی آر کی ٹیکس آمدن زیادہ ہوئی تھی اور یہ سبسڈی لوگوں کے ادا کردہ ٹیکس میں سے نکالی گئی لیکن شوکت ترین صاحب اس سے مختلف دعویٰ کرتے دکھائی دیے۔ ان کے مطابق پٹرولیم لیوی کی مد میں فنڈز موجود تھے جن میں سے یہ سبسڈی کی رقم پوری کی جا رہی تھی۔ سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خزانہ کے بیانات میں تضاد یہ ظاہر کرتا ہے کہ کچھ ایسا ہے جسے چھپایا جا رہا ہے۔ پراچہ صاحب کی رائے محترم ہے اور معاملے کو اس پہلو سے بھی دیکھے جانے کی ضرورت ہے لیکن اس معاملے پر موجودہ حکومت کا ماضی کا ٹریک ریکارڈ زیادہ اچھا نہیں۔ میٹرو بس اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے صحت، تعلیم، انسانی حقوق سمیت کئی چھوٹے منصوبوں کا بجٹ استعمال کیا جاتا رہا۔ اگر آج بھی ایسا ہو رہا ہے تو یہ تشویش ناک امر ہے۔ سرکار سے گزارش ہے کہ وہ عوام کے سامنے مکمل حقائق رکھے تا کہ وہ جان سکیں کہ پٹرولیم مصنوعات پر ملنے والی سبسڈی کی وہ کیا قیمت ادا کر رہے ہیں۔