غزوۂ بدر17رمضان المبارک 2ھ کو ہوئی۔ لڑائی سے پہلے پوری رات جبکہ آسمان پر سترہویں کا چاند چمک رہا تھا، حضور کریمﷺ نے جاگ کر گزاری۔ آپﷺ نے اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں کیں۔ نمازِ تہجد سے فارغ ہوکر آپﷺ اپنے عریش میں دوزانو بیٹھ گئے اور اللہ کی موعودہ نصرت کو آواز دی۔ وہ رات بھی تاریخ کی عجیب ترین رات تھی! اہلِ ایمان عشاء کی نماز کے بعد نوافل، تلاوت، ذکرالٰہی اور دعاومناجات میں مشغول تھے۔ کسی کی آواز میں لحنِ داؤدی کا جادو تھا، تو کسی کی آواز ہچکی بندھ جانے سے لرزاں وترساں تھی، کوئی سربسجود تھا تو کوئی قیام میں کھڑا تھا۔ ہچکیاں بھی تھیں اور سسکیاں بھی، امید بھی تھی اور ایقان بھی۔
دوسری جانب اہلِ کفر کے خیموں میں اور ہی عالم تھا۔ ضیافتیں، بھُنا ہوا گوشت، بادہ وجام، رقص وسرود، قہقہے، اشعار، مزاح، کبروغرور، خاندانی تفاخر، بہادری کے قصے اور نہ معلوم کیا کیا خرافات۔ پیٹ بھر کر کھاچکے تو صراحیوں کے منہ کھل گئے۔ نرم ونازک تھرکتے ہوئے جسموں او ر پائل کی جھنکار نے سب کو مسحور کردیا۔ رقص وموسیقی اور قریش کی بہادری پر مشتمل رزمیہ ترانے اور گانے بجانے والیوں کے ہاتھوں اور آنکھوں کی حرکات وسکنات! اور اس کلچر شو کے درمیان بہکے ہوئے نوجوانوں کا غل غپاڑہ اور شورہنگامہ! دونوں جانب کے جنگجو ایک دوسرے سے کتنے مختلف تھے! چشم فلک یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی اور گوشِ ارض سب کچھ سن رہا تھا۔
آسمان کی بلدیوں پر چاند مشرق سے مغرب کی جانب رواں دواں تھا۔ صحرا میں چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ منظر بے حد دلربا تھا۔ چاند سرپر آیا۔ رات کا آدھا حصہ بیت چکا تھا۔ اب ہرجانب ہو کا عالم تھا۔ جنوب میں قریش کے خیموں میں تھرکتے ہوئے جسم تھک ہار کر بے حس پڑے تھے۔ جام کو گردش دینے والے بے سدھ خراٹے لے رہے تھے۔ قالینوں پر جگہ جگہ بادہ ساغر اوندھے پڑے تھے۔ اونٹ کا بھنا ہوا گوشت اور انگور کی نفیس شراب، اپنی طاقت کا زعم وپندار اور قریش کی عظمت ونخوت کا نشہ! ان سب چیزوں نے اہلِ خیمہ کو مدہوش کررکھاتھا۔
دوسری جانب ذرا فاصلے پر شمال میں فاقہ مستوں کے خیموں میں بھی خوش الحان قرّأ اور شب زندہ دار عابدین تھک ہار کر سوگئے تھے۔ دعائیں مانگی گئیں، آنسو بہائے گئے اور اللہ کی رحمت ونصرت کی امید پر پہلو فرش خاک پر ٹکا دیے گئے۔ اب ہوکا عالم تھا۔ نہ کسی پرندے کے پر مارنے کی آواز، نہ درندے کے دہاڑنے کی صدا، نہ کوئی چرندہ اس سکوت کو توڑنے کے لیے متحرک تھا۔ عریش کے دروازے پر جاں نثار رسول افضل البشر بعدالانبیاء سیدنا صدیق اکبرؓ کھڑے ہیں۔ عریش کے اندر آفتابِ رسالتﷺ جلوہ فرما ہیں۔ اس سکوت میں بس ایک ہی آواز ہے جو سنائی دے رہی ہے۔ یہ اس کائنات کے سب سے بڑے اور سب سے سچے انسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صدائے التجا ہے۔ عریش کے مدخل سے آسمانی چاندکی کرنیں اندر داخل ہورہی ہیں اور زمینی چاند، ماہتابِ نبوت کا منور چہرہ صاف نظر آرہا ہے۔ آنسوؤں کی لڑیاں موتیوں کی صورت ریش مبارک میں جذب ہورہی ہیں۔ کندھے سے چادر بار بار گرپڑتی ہے۔ ہچکی بندھ گئی ہے۔ ایسے میں سب سوجائیں تو سوجائیں، مگر ابوبکر صدیقؓ کو نیند کیسے آسکتی ہے؟ وہ رات بھر سے کھڑے ہیں۔ چادر بار بار اٹھا کر شانۂ مبارک پر رکھتے ہیں۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کیفیت کو دیکھ کر ابوبکر کا کلیجہ منہ کو آنے لگا اور عرض کیاحسبک یا نبی اللہ۔ عین اس لمحے سروردوعالمﷺ خاموش ہوگئے اور آپﷺ نے سرمبارک اٹھایا اور فرمایا: ابشریاابا بکر، اے ابوبکر خوش خبری سن لو! جبریل آئے کھڑے تھے‘ فرشتوں کی جماعت صف بستہ حاضر تھی‘ وعدۂ ربانی پورا ہوگیا تھا‘ دعائیں مستجاب ہوچکی تھیں۔کفر کی جڑ کاٹنے کا فیصلہ صادر ہوچکا تھا اور اسلام کا بول بالا یقینی نظر آرہا تھا۔
حضوراکرمﷺ کی دعاؤں کا تفصیلی ذکر حدیث کی کتابوں میں ملتا ہے۔ جب آپﷺ دعا کررہے تھے تو آنکھوں سے آنسو مسلسل بہے جارہے تھے۔ چادر کندھے سے باربار نیچے گرجاتی تھی۔ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ سے یوں دعا مانگی: ''اے اللہ! یہ قریش کے لوگ ہیں اپنے تکبر اور غرور کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔ خداوند! جس مدد کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اب وہ آجائے۔ اے اللہ اگر یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو روئے زمین پر کہیں تیری عبادت نہ ہوگی۔ اے اللہ! کل ان کفار کا کام تمام کر دے‘‘۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی مانگی: ''اے اللہ اس امت کا فرعون ابوجہل بچ کر نہ جائے‘‘۔ کچھ دوسرے سرداروں کے نام بھی ملتے ہیں جن کے قتل کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا مانگی تھی۔ ان میں سے ایک بھی نہ بچ کر نکل سکا۔ سبھی جہنم رسید ہوگئے۔
حضور اکرمﷺ کی دعاؤں کے مجموعے حدیث کی مستند کتابوں میں مدون کیے گئے ہیں۔ حضورﷺ کی جملہ دعائیں نہایت جامع، پُرتاثیر اور اللہ کی رحمت کو جوش دلانے والی ہیں، مگر غزوۂ بدر کی دعا کا رنگ ہی دوسرا ہے۔ اس موقع پر عجز وانکسار اور لجاجت والحاح کا جو نمونہ نظر آتا ہے، وہ بھی اپنی مثال آپ ہے، مگر اس کے ساتھ ایک عجیب قسم کا احساس ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے اللہ پر کس قدر مان ہے اور کیوں نہ ہو اپنا سب کچھ اس کے سامنے ڈھیر کردیا تھا، اسی کی رضا مطلوب تھی، اسی کے کلمے کو سربلند کرنا پیش نظر ٹھا۔ اس کے دین کو تمام ادیان پر غلبہ عطا کرنا منزلِ مقصود ٹھہرا تھا۔
''ھذہ العصابہ‘‘ (یہ مٹھی بھر جماعت) کے الفاظ خاص طور پر قابل غور ہیں۔ قریش کی نخوت وطاقت کا تذکرہ بھی دعا میں ملتا ہے اور اپنے ساتھیوں کی بے چارگی وبے سروسامانی اور قلتِ تعداد کے اشارات بھی ملتے ہیں۔ حضورﷺ کا کل سرمایہ وہی تھا جو آپ نے میدان میں لاکر پیش کردیا تھا۔ یہ 313نفوس حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پونجی تھی۔ آپﷺ نے اپنے دامن میں جو ہیرے اور موتی جمع کیے تھے‘ وہ یہی تھے۔ یہ تو جذبۂ شہادت سے سرشار تھے، جان قربان کردیتے، مگر ان کی شکست کا مطلب یہ تھا کہ اللہ کی عبادت کرنے والا زمین پر کوئی نہ رہتا۔
سوچیے دعا تو مدینہ منورہ میں بھی کی جاسکتی تھی۔ مسجدنبوی بدر کے میدان سے کہیں زیادہ بابرکت اور اللہ کو پسند ہے۔ یہ دعا عین میدانِ بدر میں کی گئی۔ رحمان کے بندے اور شیطان کے ساتھی ایک دوسرے کے مدمقابل آگے تھے، موت آنکھوں کے سامنے تھی، یہاں دعا کا فلسفہ بھی سمجھ میں آگیا کہ پہلے اپنا سب کچھ نذر کے لیے پیش کرو پھر قبولیت کے لیے دست دعا پھیلاؤ۔ اس شان سے جب دعا مانگی گئی تو درِ قبولیت کھلا اور بظاہر ناممکن ممکن بن گیا۔
جنگ کے دن حضور اکرمﷺ نے صحابہ کرام سے خطاب فرمایا۔ نہایت پُر اثر اور جامع‘ مختصر اور دلنشین خطاب، جنت کی وسعتوں کا تذکرہ اور اس کی غیر فانی نعمتوں کا بیان۔ صف بندی بھی کی اور جنگ کے دوران حکمت عملی اختیار کرنے کے لیے ہدایات بھی دیں۔ صف بندی کا طریقہ پہلی مرتبہ حضور نبی پاکﷺ ہی نے دنیا کی حربی تاریخ میں متعارف کرایا۔ اس کے بعد سے آج تک یہ مختلف انداز کے ساتھ جنگی حکمت عملی میں جنگوں میں رائج چلا آرہا ہے۔ آپﷺ نے جنگی حکمت عملی کے لیے جو ہدایات دی تھیں ان میں اہم باتیں یہ تھیں۔ نظم و ضبط اور جرأت کا مظاہرہ کیا جائے۔ جنت کا حصول اور رضائے الٰہی مقصود ہو۔ تیر اس وقت چلایا جائے جب دشمن اس کی مار میں ہو۔ کوئی ایک تیر بھی اس طرح نہ چلایا جائے کہ وہ ضائع ہو جائے۔ دشمن کے قریب آنے پر پہلے نیزے کا استعمال کرنا اور پھر جب دشمن بالکل روبرو آجائے تو تلوار سے کام لینا اور جان رکھنا کہ جو بندہ گھمسان میں صبر و ہمت اور ثابت قدمی و استقامت دکھاتا ہے‘ اﷲ تعالیٰ اس کے لیے آسانی پیدا کر دیتا ہے اور غم سے نجات عطا فرماتا ہے۔
اسلحے اور تعداد کی کمی کے پیش نظر حضور اکرمﷺ کی یہ ہدایات نہایت مفید‘ جامع اور بہترین حکمت عملی کا حسین مرقع ہیں۔ یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ حضور اکرمﷺ نے اپنے عریش کو بطور آپریشن روم یا کمان پوسٹ کے استعمال کیا‘ مگر مستشرقین کا یہ خیال کہ آپﷺ عملاً میدان جنگ سے مجتنب رہے‘ درست نہیں ہے۔ حضور دشمن سے لڑائی کے وقت میدانِ جنگ میں موجود تھے۔ علامہ ابن کثیر رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی معروف تاریخ ''البدایہ و النہایہ‘‘ میں سیدنا علیؓ بن ابی طالب کا یہ قول نقل کیا ہے: ''یوم بدر میں ہم نے دیکھا کہ سخت لڑائی کے وقت حضور اکرمﷺ ہم میں سے سب سے آگے تھے اور دشمن پر حملہ کر رہے تھے۔ ہم جب بھی اپنے آپ کو مشکل میں پاتے حضور کریمﷺ کے سایے میں پناہ لیتے تھے‘‘۔ (بحوالہ: البدایہ و النہایہ، الجز الاول)
اس فیصلہ کن جنگ میں ستر کفار قتل ہوئے اور ستر ہی جنگی قیدی بنالیے گئے۔ مجاہدین میں سے چودہ صحابہ ؓ نے جام شہادت نوش کیا۔ جنگ بدر کو قرآنِ مجید میں یوم الفرقان یعنی حق وباطل کے درمیان فیصلہ کرنے والی جنگ قرار دیا ہے۔