تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     19-04-2022

سیاسی بحران کا اختتام؟

پانچ سالوں پہ محیط طویل کشمکش کے بعد بالآخر سیاسی قوتیں اس بحران پہ قابو پانے میں کامیاب ہو گئیں جس کی ابتدا پاناما کیس کے ذریعے میاں نوازشریف کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے اور بعدازاں منی لانڈرنگ کے الزام میں انہیں بیٹی سمیت جیل بھیجنے کے علاوہ 2018کے متنازع انتخابات سے ہوئی تھی، جس کے بعد پہلے جے یو آئی (ایف)نے لانگ مارچ اور دھرنا دے کر اسلام آباد کا گھیرائوکیا، اس کوشش کومناسب طریقوں سے نمٹا کے مملکت کو براہِ راست تصادم سے تو بچا لیا گیا لیکن سیاسی تناؤ بتدریج بڑھتا رہا۔ یہ سب کچھ عین اس وقت پیش آیا، جب امریکی فورسز افغانستان سے انخلا کے مراحل عبور کر رہی تھیں؛ چنانچہ اگر پیپلزپارٹی کی قیادت پی ڈی ایم چھوڑ کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کو بریک نہ لگاتی تو اداروں اور عوام میں تصادم کے خطرات دوچند ہوجاتے۔ دوسری جانب اس وقت کے وزیراعظم عمران خان اگر اپوزیشن کو انگیج کرکے مفاہمت کی راہیں نکالتے تو شاید قومی سیاست کی پولرائزیشن اس قدر انتہائی حد تک پہنچتی مگر افسوس کہ عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب پا لینے کے باوجود قومی سیاست میں استحکام لانے کے بجائے ٹکرائوکی پالیسی جاری رکھ کر قوم کو منقسم رکھنے میں مفاد تلاش کیا اور بالآخر خود بھی نفرتوں کی اس آگ کی لپیٹ میں آ گئے۔ عمران خان ہماری قومی تاریخ میں اگرچہ عدم اعتماد کے ذریعے معزول ہونے والے پہلے وزیر اعظم بن کر سامنے آئے ہیں لیکن اس کشمکش کا ایک مثبت پہلو یہ بھی تھا کہ اپوزیشن نے مسلط کردہ حکومت کو آئینی طریقے سے نکال کر سیاسی استحکام کا حصول یقینی بنا لیا۔ اگر اپوزیشن بھی عمران خان کو ہٹانے کے لئے غیرآئینی اور فسطائی ہتھکنڈے استعمال کرتی تو فساد مزید بڑھ جاتا۔ امید ہے کہ آئینی عمل کے ذریعے متحرک ہونے والی یہ پیش رفت بہت جلد ہمارے اجتماعی دکھوں کا مدوا کر لے گی۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عمران خان اپنی افتادِ طبع کی بدولت اپنے اتحادیوںکی حمایت کھو بیٹھے تھے لیکن حکومت کے زوال کی بنیادی وجہ اقتصادی پالیسیوں کی ناکامی تھی؛ تاہم ایک آئینی عمل کے ذریعے معزولی کے باوجود وہ اسے اپنے خلاف امریکی مقتدرہ کی سازش کا شاخسانہ قرار دے کر عدم اعتماد کا حصہ بننے والے ممبران پارلیمنٹ کو غدار کہنے پہ مُصر ہیں؛ چنانچہ بعض تجزیہ کار نہایت باریک بینی کے ساتھ ان کے اس بیانیے کے امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور مجموعی طور پر ملک کے مستقبل پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے میں مشغول ہیں۔ عمران خان نے سامراج اور امریکا مخالف جذبات کو جس انداز میں گھسیٹ کر قومی سلامتی کا مسئلہ بنا کے اپنے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کو روکنے کی کوشش کی‘ اس نے انہیں ذہنی انتشار کی ایسی حد تک پہنچا دیا جو ذمہ دارانہ مناصب تک پہنچنے کی ان کی راہیں مسدود کرتی رہے گی۔ دائیں بازو کی فرسودہ قوم پرستی کا جو برانڈ وہ تشہیر کر رہے ہیں‘ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو سمیت تیسری دنیا کے کئی زعما ایسے نعروںکو آزما چکے ہیں اور ان کے نتائج ملک و قوم اور جمہوریت کے لیے کبھی خوشگوارنہیں نکلے۔
البتہ خان صاحب کی اس جسارت نے ہماری ریاست کو مشکل میں ضرور ڈال دیا ہے جو امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات میں توازن کی خواہاں ہے۔ ممکن ہے کہ غیر ملکی پالیسی ساز بھی ان الزامات کو مایوس کن سیاسی چالوں کے طور پر دیکھتے ہوں لیکن وہاں ان تضادات کو ہماری مملکت کے خلاف استعمال کرنے کی حکمت عملی بھی تیار ہو رہی ہو گی جس کے آثار ہمیں مغربی میڈیا میں پاکستان کے سیاسی بحران کو خاص رنگ دے کر پیش کرنے میں دکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان نے فروری کے آخر میں ماسکو کا اعلیٰ سطحی دورہ کیا تھا تاکہ روسی توانائی کے ذخائر سے استفادہ کیا جا سکے اور اس کی منصوبہ بندی روس کے یوکرین پر حملے سے قبل کی گئی تھی لیکن اپنے خلاف اعتماد کی تحریک کی تیاریاں دیکھ کے انہیں اسی حساس دورے کے استحصال کی سوجھی۔ خان صاحب نے بظاہر واشنگٹن کی مخالفت میں اس سفر پہ اصرار کرکے ملک کومشکل میں ڈالنا ضروری سمجھا۔ اسلام آباد ڈائیلاگ میں یوکرین کے بارے میں عسکری قیادت کے بیانات کا مقصد واضح طور پر روس کے لیے دروازے کھلے رکھنے کے باوجود امریکا کو انگیج رکھنا تھا لیکن خان صاحب اس معاملے کو کوئی اور رنگ دینے کی لائن پہ چل نکلے۔ ہمیں امید ہے کہ نئے وزیر اعظم شہباز شریف ممکنہ طور پر روس سے رابطوں جیسے پیچیدہ معاملات میں الجھنے کے بجائے ان کانٹے دار مسائل کو متعلقہ فورمز کے سپرد رکھیں گے۔
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد، امریکا اور پاکستان کے تعلقات ناگزیر سطح پہ توجاری رہے لیکن پچھلے دو سالوں سے اس میں اعلیٰ سطحی انگیج منٹ معدوم رہی۔ خان صاحب کے مسلسل الزامات اورپی ٹی آئی کے جاری احتجاج سے پاک امریکا تعلقات مزید متاثر ہوں گے؛ تاہم اب امریکا اور پاکستان کے پاس تعلقات کی بحالی کا موقع موجود ہے، خاص طور پر وزیر اعظم شہباز شریف کی امریکا اور چین‘ دونوں کے ساتھ حقیقت پسندانہ اقتصادی لین دین پہ مبنی تعلقات کو برقرار رکھنے میں دلچسپی اچھی پیشرفت ثابت ہو گی۔
عام خیال یہی ہے کہ تحریک عدم اعتماد میں اداروں کی جانب سے ہر ممکن غیرجانبداری برتی گئی مگر تحریک انصاف کی طرف سے اس پالیسی پہ سخت تنقید کی گئی جسے اس کے سیاسی مخالفین نے اداروں کو سیاسی امور میں گھسیٹنے کی بھونڈی کوشش سے تعبیر کیا ہے۔ ادھر ادھر سے مدد نہ ملنے کے بعد مایوسی کے عالم میں خان صاحب نے اپنی حکومت کی تبدیلی کے سازشی بیانیے کا سہارا لے کر عدم اعتماد کے ووٹ کو روکنے کی کوشش میں اداروں سے مزید دوری اختیار کر لی۔ گو کہ خان صاحب کی حمایت سے پیچھے ہٹنے کی کئی دیگر وجوہات بھی ہوں گی جن میں پہلی پی ٹی آئی کے طرزِ حکمرانی بارے فکر مندی تھی، پھر خارجہ پالیسی پر اختلافات کا تاثر بھی ابھر کر سامنے آتا رہا۔ مقتدرہ امریکا اور روایتی حریف بھارت کے ساتھ تعلقات میں توازن چاہتی ہے تاکہ سٹریٹیجک چیلنجز اور معاشی پریشانیوں سے بچا جا سکے۔
اب یہ شہباز شریف حکومت کا امتحان ہے کہ وہ معاملات کو کس طور آگے بڑھاتی ہے۔ میرے خیال میں ہماری حقیقی قومی آزادی افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کے بعد ممکن ہوئی۔ اگست 1947ء میں ہمیں ایک مملکت تو مل گئی لیکن دوسری جنگ عظیم کے دوران ہی برصغیر پہ امریکی غلبے نے نوزائیدہ مملکت کو ہر وقت پابہ جولاں رکھا۔ ستر کی دہائی میں سقوطِ ڈھاکہ سمیت ابھرنے والے کئی واقعات کی بدولت ہماری لیڈر شپ نے بتدریج امریکی تسلط کے خلاف خاموش مزاحمت کی ابتدا کی جس کی قیمت ہم نے بھٹو کی پھانسی اور جنرل ضیاء الحق کی موت کی صورت میں ادا کی تھی لیکن ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بے نظیر بھٹو اورنوازشریف تک ہماری قومی قیادت نے بالآخر مغربی استعمار کے خونیں پنجوں سے مملکت کو نجات دلانے میں کامیابی پا لی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا پہلا موقع تھا کہ کسی وزیر اعظم کو خارجی عوامل کے بجائے عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ہٹایا گیا۔ سیاسی بحران کا آئینی حل اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی ساختہ ''نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت بغاوتوں کا زمانہ ہمیشہ کے لیے لد چکا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved