راولپنڈی کی قدیم اور تاریخی بستیوں میں ایک ڈھیری حسن آباد ہے جس سے میری شناسائی بچپن کے دنوں سے ہوئی۔ یہ سکول تک پہنچنے کے لیے میری گزرگارہ تھی۔ ٹاہلی موہری سے ڈھیری حسن آباد کی طرف جائیں تو ایک چوک آتا ہے‘ یہیں سے ڈھیری حسن آباد کی حدود کا آغاز ہوتا ہے۔ سڑک کے دائیں بائیں دکانیں تھیں اور یہی ڈھیری حسن آباد کا مرکزی بازار تھا۔ سڑک کے آغاز میں ہی دائیں ہاتھ ایک وسیع کوٹھی تھی جس کے گیٹ پر خورشید عالم ایڈووکیٹ کا بورڈ لگا تھا۔ یہاں سے گزرتے ہوئے اکثر میں اس بوسیدہ کوٹھی کے درو دیوار کو دیکھتا۔ اس سڑک کے بائیں طرف شیخوں کا احاطہ تھا۔ یہ وہ معروف احاطہ تھا جہاںقائد اعظم محمد علی جناح بھی تشریف لائے تھے اور ان کے ہمراہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور محترمہ فاطمہ جناح بھی تھیں۔ یہ سیاسی حوالے سے ایک بااثر برادری تھی جس نے مسلم لیگ کی بھرپور امداد کی تھی۔ بعد میں ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو بھی یہاں تشریف لائی تھیں۔ سڑک پر ذرا آگے دائیں ہاتھ ایک بیکری تھی‘وہ یاسین کے والد صاحب کی تھی‘ یاسین ہمارے ساتھ سی بی ٹیکنیکل سکول میں پڑھتا تھا۔ سڑک کے بائیں ہاتھ راحت بیکری تھی اور اس کے قریب شاہد بُک ڈپو تھا۔ سکول کے دنوں میں جب سالانہ امتحان کا نتیجہ آتا تو مجھے نیا جیومیٹری باکس اور نئی کتابیں اور کاپیاں لینے کا انتظار ہوتا۔ سٹیشنری کی اس دکان کو دو بھائی چلاتے تھے ایک کا نام شاہد اور دوسرے کا بشارت تھا۔ یاسین بیکری سے ذرا آگے احاطہ قریشیاں تھا۔انہی گلی کوچوں میں ہمارا دوست اسماعیل قریشی بھی رہتا تھا جسے ہم متوالا کے نام سے پکارتے تھے۔ اس سے ذرا آگے شاہ محمد کا راشن ڈپو تھا جہاں آٹا اور چینی راشن کارڈ پر ملتے تھے۔ اس سے آگے یہاں کی معروف رفیق لائبریری تھی جہاں سٹیشنری کی چیزیں بھی ملتی تھیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہر محلے میں آنہ لائبریریاں ہوا کرتی تھیں جہاں سے کتابیں کرایہ پر ملتی تھیں۔ ذرا آگے ملک یوسف کریانہ سٹور اور اس کے ساتھ ڈاکٹر زیدی کا کلینک تھا۔ سڑک کے دوسری جانب شاہد بُک ڈپو سے آگے شکیل کی گوشت کی دکان تھی اور پھر ڈھیری حسن آباد کا مشہور ریستوران صوفی ہوٹل تھا جہاں کھانے‘ چائے اور دہی ملتا تھا۔ صوفی ہوٹل سے آگے جائیں تو وہ گلی آتی ہے جہاں قومی ہاکی ٹیم کے معروف کھلاڑی نورعالم کا گھر تھا۔ یہ وہی نور عالم ہیں جن کے پاس پر1960ء کے اولمپکس میں نصیر بندہ نے گول کیا تھا اور یوں پاکستان نے اپنے روایتی حریف بھارت کو فائنل میں شکست دے کر گولڈ میڈل جیت لیا تھا۔ ہاکی کے یہ دونوں مایہ ناز کھلاڑی راولپنڈی سے تعلق رکھتے تھے۔ نور عالم صاحب کے بیٹے عظمت اور خالد ہمارے ساتھ سی بی ٹیکنیکل سکول میں پڑھتے تھے اور ہاکی کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ ہاکی کا ذکر ہے تو مجھے یہاں رہنے والے ایک اور ہاکی کے کھلاڑی کا خیال آ رہا ہے‘یہ قومی ہاکی ٹیم میں رائٹ اِن کی پوزیشن پر کھیلنے والا اشفاق تھا جسے سب پیار سے فقو کے نام سے پکارتے تھے۔ اشفاق فقو کا شمار دنیا کے ان بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا تھا جو اپنی Dribblingکی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ اب ہم سڑک کے دوسری جانب آجاتے ہیں جہاں ایک ریستوران اور تندور تھا جہاں اکثر ریڈیو سیلون پر چلنے والے پرانے فلمی گیت سنائی دیتے۔
اس کے ساتھ ایک تنگ گلی تھی جسے سوڑی گلی کہا جاتا تھا۔ گلی سے آگے فرمان نائی کی دکان اور سگریٹ‘پان کا کھوکھا تھا۔ اس کے بعد ایک گلی تھی جس کے آخر میں ایک احاطہ تھا۔ گلی سے آگے ڈاکٹر مجید کا کلینک تھا اور ساتھ ہی ''سائیں دا ڈپو‘‘ تھا جہاں آٹا اور چینی راشن کارڈ پر ملتے تھے۔ اس کے ساتھ ڈاکٹر محبوب عالم کا کلینک تھا ااور پھر گلی نمبر 4 تھی۔ اب ہم سڑک کے دوسری طرف چلتے ہیںجہاں نور عالم صاحب کے گھر والی گلی سے آگے ملک غلام رسول کی کریانے کی دکان تھی۔ اس کے برابر میں ایک حکیم صاحب کا مطب تھا اس سے آگے کپڑوں کی ایک دکان تھی جو سکول میں مجھ سے ایک سال سینئر محمود کے چچا کی تھی‘ اس کے ہمسایے میں حمید وارثی کی محمدی فروٹ شاپ تھی اور پھر کپڑوں کی دکان جس کے مالک خورشید احمد صاحب تھے جو محمود کے والد صاحب تھے۔سی بی ٹیکنیکل سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے میں زندگی کی آڑی ترچھی گلیوں میں کھو گیا تھا اور راولپنڈی سے رخصت ہو کر تلاشِ معاش میں دور نکل گیا تھا پھرایک روز اچانک لاہور میں میری ملاقات محمود سے ہوئی جو سکول میں مجھ سے ایک سال سینئرتھا۔ وہ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد لاہور کے ایک بڑے ہسپتال سے وابستہ تھا اور حال ہی میں ریٹائر ہو ا تھا۔ اس دن ہم دونوں ڈھیری حسن آباد کے گلی کوچوں کو دیر تک یاد کرتے رہے۔ خورشید صاحب کی کپڑوں کی دکان سے آگے ایک احاطہ تھا اور کنٹونمنٹ بورڈکی ڈسپنسری تھی جس کا وسیع احاطہ تھا۔ یہاں کبھی کبھار مختلف اجتماعات بھی ہوتے تھے۔ سڑک کے دوسری جانب یاسین چاٹ والے‘ سلیموں سبزی والے اور کراموں پکوڑے والے کی دکانیں تھیں۔ یہ تینوں بھائی تھے۔ آگے دائیں طرف چک دھرم سنگھ تھا جہاں قیامِ پاکستان سے پہلے سکھوں کی اکثریت تھی۔ سڑک کے بائیں طرف ڈسپنسری سے آگے ایک سڑک بائیں ہاتھ جاتی تھی جو قاضی روڈ کہلاتی تھی۔ اس سڑک پر امین گرلز سکول تھا۔ اسی سڑک پر ڈاکٹر رتو کا ہومیو پیتھک کلینک تھا ان کابیٹازاہد رتو سرسید کالج میں مجھ سے جونیئر تھا بعد میں زاہد نے ایم بی بی ایس کیا اور یہ کلینک سنبھال لیا۔ زاہد بنیادی طور پر ایک آرٹسٹ تھا اور پنسل سے ڈرائنگ کرتا تو ہم دنگ رہ جاتے۔ افسوس زاہد نوعمری میں ہی موت کی وادی میں اُتر گیا۔
اسی سڑک پر ذرا آگے نشیب میں فواد حسن فواد کا گھر تھا جہاں ہم اکثر جایا کرتے تھے بعد میں فواد نے وزیراعظم کے ساتھ بطور پرنسپل سیکرٹری کام کیا۔ یہ سڑک آگے بھٹہ گراؤنڈ تک جاتی تھی۔ اب ہم واپس ڈھیری حسن آباد کی مرکزی سڑک پر آجاتے ہیں جہاں قاضی روڈ سے آگے سائیکل مرمت کرنے والی ایک دکان تھی جس کا مالک اقبال تھا جسے سب ننوا کہتے تھے۔ یہیں پر سب دوست اکٹھے ہوتے اور چھوٹی پیالیوں میں چائے پی جاتی۔ اقبال کی دکان سے آگے جائیں تو بائیں ہاتھ کچھ دکانیں اور دائیں ہاتھ داتا ٹینٹ سروس اور ایک ورکشاپ تھی جس کے آگے چوک تھا جہاں سے بائیں ہاتھ سڑک سبزہ زار سے ہوتی ہوئی ہارے سٹریٹ کی طرف جاتی تھی۔ اب ہم واپس قاضی روڈ آتے ہیں جس کے بائیں ہاتھ ایک اونچی سرسبز پہاڑی تھی جہاں ایک غیر ملکی عورت رہتی تھی‘ وہ عجیب پُر اسرار کردار تھا۔ وہ سردیوں میں لمبا اوور کوٹ پہنے ہوتی اور اس کے ساتھ بہت سے کتے چل رہے ہوتے۔ہم سب لڑکے اسے کتوں والی میم کہتے تھے۔ یہ میرے سکول کے دنوں کی بات ہے‘میں اکثر سوچتا کہ وہ اپنے ملک سے دور اس پہاڑی پر اکیلے کیسے رہتی ہے۔ سردیوں کی ٹھٹھرتی ہوئی شاموں اور گرمیوں کی تپتی ہوئی دوپہر میں وہ یوں ہی چپ چاپ گم سم سڑک پر چلتی نظر آتی اور پھر آہستہ آہستہ پہاڑی پر چلتے ہوئے ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتی۔ اب تو ڈھیری حسن آباد گئے ہوئے ایک عرصہ ہو گیا ہے۔وہ زمانہ ایک خواب ہو گیا۔ ہاں کبھی کبھار جب زوروں کی بارش ہوتی ہے اور ہوا ئیںسیٹیاں بجاتے گزرتی ہیں تو میرے تصور میں ڈھیری حسن آباد کی سرسبز پہاڑی جاگ اٹھتی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ تیز ہواؤں میں اپنے لمبے اوور کوٹ کو مضبوطی سے پکڑے ایک عورت سہج سہج پاؤں رکھتے اس سر سبز پہاڑی پر جارہی ہے جس کے آخر میں اس کا بارش میں بھیگتا ہوا گھر ہے۔