''گو گوٹا گو‘‘ کی آوازیں اس مہینے کے شروع میں سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں لگنا شروع ہوئیں جو اَب تک جاری ہیں۔ گوٹا دراصل وہاں کے بہتر سالہ صدر لیفٹیننٹ کرنل ننداسینا گوٹابیا راجاپاکسے کا مختصر نام ہے اور گو گوٹا گو کے نعرے لگانے والے ان کا استعفیٰ مانگ رہے ہیں۔ان کا تعلق سری لنکا کے معروف سیاسی خاندان راجا پاکسے سے ہے۔ دوہزار پانچ میں ان کے بڑے بھائی مہندا راجا پاکسے صدر بن گئے تو گوٹابیا کو سیکرٹری دفاع لگا دیا گیا۔ اس کے بعد راجا پاکسے خاندان کا طلسماتی عروج شروع ہوگیا۔ چھہتر سالہ مہندا راجا پاکسے دراصل اس سیاسی خاندان کے سربراہ ہیں۔ سری لنکا کے دستور کے مطابق صدر طاقتور ترین عہدہ ہے مگر دو بار صدر بننے کے بعد کوئی تیسری بار صدر نہیں بن سکتا اس لیے مہندا راجا پاکسے نے وزرات عظمیٰ پر قناعت کرلی۔ انہوں نے سری لنکا میں اپنے خاندان کو اس طرح ترقی دی کہ اگر اسے شاہی خاندان کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس وقت ان کے بھائی گوٹابیا راجا پاکسے سری لنکا کے صدر ہیں‘ ایک بیٹے نمل نوجوانوں کے وزیر ہیں‘ دوسرے صاحبزادے ان کے چیف آف سٹاف ہیں‘ چند دن پہلے تک ایک بھائی باسل راجا پاکسے وزیر خزانہ تھے‘ سب سے بڑے بھائی چمل راجا پاکسے پہلے پارلیمنٹ کے سپیکر رہے اس کے بعد کئی وزارتیں ان کے پاس رہیں‘ چمل کے بیٹے سشیندرا نو میں سے ایک صوبے کے وزیراعلیٰ ہوگئے۔ ان کے علاوہ ان گنت کزن مختلف ملکوں میں سفیر ہیں اور سری لنکا کی تقریبا ًسبھی کارپوریشنوں‘ بینکوں اور ہوائی کمپنیوں کے سربراہان بھی راجا پاکسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس خاندان کے سترہ سالہ اقتدار میں سری لنکا کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ دن کا بیشتر حصہ بجلی نہیں ملتی‘ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کم رہ جانے کی وجہ سے اس نے بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی روک دی ہے‘ دوسرے ملکوں سے خوراک خریدنے کے لیے پیسے تقریباً ختم ہوچکے ہیں‘ معاشی حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہسپتالوں میں دوائیاں ختم ہوچکی ہیں‘ پٹرول نہ ہونے کی وجہ سے ملک جامد ہوتا چلا جارہا ہے مگر حکومت کچھ نہیں کرسکتی۔ لوگوں نے ان حالات سے تنگ آکرغور کرنا شروع کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کے مصائب کا اصل سبب مہندا راجا پاکسے کا خاندان ہے جس نے سب کچھ تباہ کردیا۔ اسی لیے پچھلے کئی ہفتوں سے کولمبو کا نعرہ تو ''گو گوٹا گو‘‘ہے اور مطالبہ یہ کہ راجا پاکسے خاندان سیاست چھوڑ دے۔
راجا پاکسے کا حریف سابق وزیر اعظم ایس ڈبلیوآر ڈی بندرانائیکے کا خاندان ہے۔1960 ء میں ان کے قتل کے بعد ان کی بیوی شریما بندرا نائیکے دنیا میں پہلی خاتون وزیراعظم بنیں اور مسلسل چالیس برس تک اقتدار میں رہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ 1994 ء میں انہوں نے بھی اپنی بیٹی چندریکا کمارا ٹنگا کو صدر بنوا دیا اورجب لیڈی بندرانائیکے آنجہانی ہوئیں تو چندریکا کا اقتدار بھی ڈھل گیا۔ اب وہ عام طور پر امریکا میں رہتی ہیں اورجب بھی الیکشن ہوتے ہیں وطن آکراپنے امیدوار نامزد کرتی ہیں جس کے ذریعے وہ ایک بار راجاپاکسے خاندان کو شکست بھی دے چکی ہیں۔
سری لنکا کے بندرا نائیکے اور راجا پاکسے دراصل سیاسی خاندانوں کے ایک چھوٹے سے نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ ان خاندانوں کے نوجوان اب دنیا بھر کے تعلیمی اداروں سے فارغ ہوکر ملک میں فوج سے لے کر سیاست تک ہر شعبے میں نام پیدا کررہے ہیں لیکن حیرت انگیزطور پر سری لنکا مسلسل نیچے کی طرف لڑھک رہا ہے۔ سری لنکا کے لوگوں کو بھی ہماری طرح یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ ملک تباہ ہونے کے باوجود ان سب خاندانوں کے کاروبار دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں پھیل رہے ہیں اور وہاں سے آنے والے پیسے کے ذریعے یہ سری لنکا میں سیاست کررہے ہیں۔ ایشیا کاآنسو کہلائے جانے والے اس ملک میں اب کچھ لوگ ایسے بھی پیدا ہوچکے ہیں جوکہنے لگے ہیں کہ دراصل پیسہ باہر سے آنہیں رہا بلکہ سری لنکا سے باہر جارہا ہے۔ سیاست میں کوئی بات جب کھلتی ہے تو کھلتی چلی جاتی ہے اس لیے تحریک تو راجاپاکسے خاندان کے خلاف شروع ہوئی ہے مگر اب یہ خاندانوں کے اس نیٹ ورک تک پہنچ رہی ہے جو پچھلے تہتر برس سے سری لنکا پر قابض ہے۔ پاکستان کے اس دوست ملک میںآخری فیصلہ کیا ہوتا ہے‘ اس بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔
سری لنکا میں جو کچھ ہورہا ہے اسے انگریزی میںElite capture کہتے ہیں اور اردو میں اسے اشرافیہ کی حکومت کہا جاسکتا ہے‘ یعنی کسی ملک کے ہر شعبے میں چند افراد یا خاندان اپنی اجارہ داریاں قائم کرلیں۔ ڈاکٹر عشرت حسین سمیت کئی ماہرین معاشیات یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان بھی دراصل چند خاندانوں کی اجارہ داری کا شکار ہوچکا ہے۔ اجارہ داریوں کا یہ نظام اور ہماری سیاست ایک دوسرے سے اتنے منسلک ہوچکے ہیں کہ اب انہیں ایک دوسرے سے الگ کرنا ہی ناممکن نظرآتا ہے۔ ایسا نہیں کہ عوامی سطح پراشرافیہ کی حکومت کا ادراک نہیں۔ بغور دیکھا جائے توسابق وزیراعظم عمران خان کی حمایت کرنے والے دراصل وہی لوگ ہیں جو اشرافیہ کی حکومت جیسی نیم فلسفیانہ اصطلاح سے چاہے واقف ہوں نہ ہوں‘ لیکن پاکستان کو چند خاندانوں کے ہاتھوں میں جاتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے۔ عمران خان بھی کئی بار اشرافیہ کی حکومت کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں لیکن سیاسی نعرے کے طور پر وہ ہرشعبے میں مافیا کی بات کرتے ہیں۔ ان کی اور ان کے مخالفین کی باہمی سیاسی کشمکش کو بھی ہم اگر اسی تناظر میں دیکھیں تو بات زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔ مثلاً چند دن پہلے جب انہیں اقتدار سے نکالا گیا توانہیں نکالنے والی سیاسی قوتیں درحقیقت چند خاندانوں پر ہی مشتمل ہیں۔ شریف خاندان‘ بھٹوزرداری خاندان‘ مفتی محمود خاندان‘ ولی خاندان‘ مینگل خاندان اور بگٹی خاندان کا یکا یک اکٹھے ہوجانا واقعاتی طور پر جیسے بھی ممکن ہوا ہو لیکن ایک خاص تناظر میں دراصل یہ اتحاد خاندانی سیاست کی بقا کے لیے ایک انتہائی قدم ہے۔ عمران خان حکومت کی ناکامی کی وجوہات ہزاروں ہوں گی لیکن اس کے بعد جس طرح چند خاندانوں میں حکومتی عہدوں اور وزارتوں کی تقسیم ہورہی ہے‘ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ پاکستان کے اجارہ دار خاندانوں کا نیٹ ورک اپنی پوری طاقت سے ایک ایسی حکومت پر حملہ آور ہوا ہے جس کی موجودگی ان خاندانوں کے مفادات پر مسلسل ضربیں لگا رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ یہ اجارہ داریاں کمزور ہوجاتیں انہوں نے وہ حکومت ہی ختم کرڈالی۔سری لنکا کے حکمران خاندانوں کی طرح پاکستان کے بہت سے سیاسی اجارہ دار خاندان بھی اپنا سب کچھ ملک سے باہرمنتقل کرچکے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے وہ بچے جو سیاست میں نہیں برطانیہ یا امریکا میں رہ کر خاندانی جائیدادوں اور کاروبار کی دیکھ بھال کرتے ہیں جبکہ وہ بچے جو سیاست میں ہیں‘ پاکستان میں ہی رہتے ہیں۔ خاندانوں کی اس جغرافیائی تقسیم کے نتیجے کے طور پر سری لنکا والوں کو پتا ہے نہ پاکستانی جانتے ہیں کہ ان کے لیڈروں کی پرتعیش زندگی کے لیے سرمایہ کہاں سے فراہم ہوتا ہے۔ ایک اور مماثلت جو سری لنکا اور پاکستان کے درمیان پائی جاتی ہے وہ روپے کی بے قدری ہے۔ راجا پاکسے خاندان کے اقتدار کے دوران سری لنکا میں ڈالر کی قدر 325فیصد بڑھ گئی جبکہ پاکستان میں اسی عرصے کے دوران ڈالر307فیصد بڑھا ہے۔ حیرت انگیز طورپر کرنسی کی اس بے قدری کا اثردونوں ملکوں کے عوام پرتو صاف ظاہر ہوتا ہے لیکن اجارہ دار خاندانوں کا طرز ِزندگی اس سے بالکل متاثر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ سری لنکا اورپاکستان کی سیاست میں جہاں بہت سی مماثلتیں دکھائی دیتی ہیں وہاں ایک فرق بھی ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ سری لنکا میں حکومت ہو یا حزب اختلاف‘ دونوں دراصل خاندانی سیاست کے محافظ ہیں لیکن پاکستان میں کم ازکم موجودہ حزب اختلاف یعنی عمران خان اس خاندانی سیاست کو مسلسل اپنے نشانے پر رکھے ہوئے ہیں۔