عجیب حالات ہیں۔ سیاست دان آپس میں لڑرہے ہیں اور ان کے کارکنان ایک دوسرے سے سوشل میڈیا اور سڑکوں پر لڑرہے ہیں۔ سیاسی بحث‘ مباحثوں کے سبب لوگ ایک دوسرے سے تعلق توڑ رہے ہیں‘ یہاں تک کہ رشتہ دار سیاسی نظریات کے سبب فیملی کے وٹس ایپ گروپس بھی چھوڑ رہے ہیں۔ جس ملک میں لوگ سڑک پر نہتے سری لنکن شہری کو مار دیتے ہوں‘ جہاں قومی لیڈر کو لیاقت باغ میں گولی مار کر شہید کر دیا جاتا ہو‘ جہاں گاڑی میں پٹرول ختم ہونے والی عورت کا سڑک پر ریپ ہوجائے‘ جہاں بچی گھر سے نکلے اور پھر اس کی لاش کچرے کے ڈھیر سے ملے‘ اس معاشرے میں ایک نئی لڑائی‘ نئی تقسیم شروع ہوجائے تو یہ بہت خطرناک صورتحال کی غمازی ہے۔
جہاں عدم برداشت اتنا ہو کہ نشے سے منع کرنے پر لڑکا اپنے چھ گھروالوں کو قتل کر دے‘ جہاں ایک نوالہ اٹھانے پر ننھی ملازمہ کے سر پر توا مار دیا جاتا ہو‘ وہاں سیاست میں تلخی حدوں کو چھونے لگے تو عوام کو غصے کو کیسے کم کیا جائے گا؟ یہ سوال میرا اس ملک کی اشرافیہ سے ہے کہ اب کیا ہوگا؟ کیسے ان حالات کو ٹھیک کریں گے؟ کوئی لائحہ عمل ہے؟ چند جذباتی نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر قابلِ اعتراض پوسٹس کرنے پر گرفتار کرکے سب کو خاموش نہیں کرایا جاسکتا۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ قوم کا غم و غصہ کیسے ختم کریں گے۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعدجو جذبات نوجوانوں میں بیدار ہوئے ہیں‘ ان کو بہت تحمل سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف نوجوانوں کو بھی یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کسی کی بھی تضحیک نہ کریں۔ اس طرح کے طرزِ عمل سے وہ ملک و قوم کا ہی نقصان کر رہے ہیں۔
سیاست میں نفرت اور گرما گرمی اتنی بڑھ گئی ہے کہ لوگ تو الجھ ہی رہے تھے‘ اب منتخب ارکین بھی باہم دست و گربیان ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا‘ وہ انتہائی قابلِ افسوس ہے۔ ارکانِ اسمبلی کا ایک دوسرے کو مارنا اور ایوان میں لوٹے لے کرآنا‘ یہ سب قابلِ مذمت ہے۔ کچھ اراکین نے پولیس پر بھی حملہ کیا اور اہلکاروں کو مارا۔ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری پر بھی کچھ لوگ حملہ آور ہوئے۔پارلیمنٹ میں سپیکر کا عہدہ سپریم ہوتا ہے‘ اس کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اگر ارکان سپیکر پر حملہ آور ہوجائیں گے تو ایوان کیسے چلے گا؟ یہ ملک کیسے چلے گا؟ ہر ادارے اور ہر شخصیت کا احترام واجب ہے۔ اگر قانون سازی کرنے والے ہی اداروں اور شخصیات کا احترام نہیں کریں گے تو عوام کا اس پر کیا اثر پڑے گا؟
سب لوگوں نے ٹی وی سکرینوں پر یہ مناظر دیکھے کہ پنجاب اسمبلی میں لوٹے پہنچ گئے اور ارکان نے ان کو ہوا میں اچھالنا شروع کردیا‘ پھر دوست محمد مزاری کے بال نوچے گئے‘ ان کو مارا پیٹا گیا۔ یہ سپیکر کے عہدے کی توہین ہے۔ ارکان کو ہر حال میں اس بات کا خیال کرنا چاہیے کہ وہ کس عہدے پر براجمان ہیں؛ تاہم دوسری جانب منتخب اراکین کو بھی اخلاقیات اور پارٹی ڈسپلن کی پابندی کرنی چاہیے۔ یہ نہیں کہ مشکل کے وقت پارٹی کا ساتھ چھوڑ جائیں اور مخالفین کی صفوں میں جا بیٹھیں۔ پی ٹی آئی کے ارکین کو منحرف ارکان اور مشکل میں ساتھ چھوڑ جانے والے اتحادیوں پر غصہ ہے۔ اب یہ غصہ کیسے کم ہوگا؟ اس کاحل وہی لوگ نکالیں جنہوں نے یہ معاملہ کھڑا کیا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے دوران پورا ایوان مچھلی منڈی بنارہا اور ہنگامہ آرائی جاری رہی۔ خواتین ارکان نے بھی اس ہنگامہ آرائی میں برابر حصہ ڈالا اور پولیس پر تشدد بھی کیا۔ اس ساری صورتحال میں صرف ایک رکن صوبائی اسمبلی اپنی کرسی پر بیٹھا بلکہ لیٹا ہوا تھا اور اپنا پیٹ کھجا رہا تھا۔ سوشل میڈیا پر لوگوں نے اس کا بھی بہت مذاق بنایا۔ میرے خیال میں وہ صاحب اس جھمیلے سے دور رہے اور انہوں نے آرام کرنے کو فوقیت دی‘ اچھا کیا؛ تاہم کھجلی کیمرے کی نظروں سے اوجھل ہوکر کرنی چاہیے تھی۔ چودھری پرویز الٰہی ایک بزرگ سیاست دان ہیں‘ ان پر بھی تشدد کیا گیا، ان کو لگنے والی چوٹیں نجانے کتنی دیر میں بھریں گی لیکن جو زخم گزشتہ دو ہفتوں میں جمہوریت کو لگے ہیں‘ وہ شاید کئی سالوں میں بھی نہ بھر سکیں۔
چودھری پرویز الٰہی اور ان کا خاندان ایک ایسا سیاسی خانوادہ ہے جس کا بہت احترام ہے۔ اکثر سیاسی مسائل میں یہ خاندان کلیدی کردار ادا کرتا ہے لیکن اگر اس خاندان کے بڑوں کو مارا پیٹا جائے گا تو یہ سیاست اور جمہوریت پر ایک سیاہ دھبہ ہوگا۔ چودھری پرویز الٰہی نے تمام تر کوششوں کے باوجود تحریک انصاف کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ مجھے لگتا ہے کہ آنے والے الیکشنز میں قاف لیگ کو اس چیز کا فائدہ ہوگا۔چودھری پرویز الٰہی پر شاید تشدد بھی اسی وجہ سے کیا گیا ہے کہ انہوں نے اب تک عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ان کو اسمبلی میں زدوکوب کیا گیا‘ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ حمزہ شہباز کے کہنے پر مجھ پر تشدد ہوا۔ انہوں نے کہا کہ آج تک کسی سپیکر کے ساتھ یہ نہیں ہوا‘ یہ ظلم کی انتہا ہے۔ انہوں نے ہاتھ اٹھا اٹھا کر انصاف کی اپیل کی۔
چودھری خاندان اپنی روایات‘ وضعداری اور مہمان نوازی کے باعث مشہور ہے۔ ان کے مخالفین بھی اس بات کی تائید کریں گے کہ یہ بہت خوش اخلاق اور بامروت لوگ ہیں۔ میں جب کبھی بھی مسلم لیگ ہائوس کوریج کے لیے گئی تو میں نے اس جماعت کو بہت بااخلاق اور خواتین کا احترام کرنے والا پایا۔ ایک دفعہ رمضان میں ایک پریس کانفرنس کی کوریج کر رہی تھی‘ اسی دوران افطاری کا ٹائم ہو گیا‘ میں نے اجازت چاہی کیونکہ میں افطار اپنے گھر پر کرنا پسند کرتی ہوں۔ رپورٹنگ کے دوران میرے پاس بیگ میں کھجور، چاکلیٹ اور پانی لازمی ہوتا تھا؛ تاہم چودھری برادران نے کہا کہ کوئی بھی افطاری کیے بنا نہیں جائے گا۔ چودھری پرویز الٰہی خود اٹھ کر سب کو کھانا سرو کراتے رہے۔ میرے لیے یہ منظر حیرت انگیز تھا کہ ایک بزرگ سیاست دان خود میزبانی کے فرائض سر انجام دے رہا تھا‘ ورنہ یہاں تو سیاستدان سوشل میڈیا پر اپنی ٹیموں سے صحافیوں کو گالیاں دلواکر اور دھمکا کر خوش ہوتے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی پر تشدد سے مجھے دلی افسوس ہوا ہے۔ اس ہنگامہ آرائی میں سپیکر کے عہدے کی بھی توہین کی گئی ہے۔ ایسے واقعات میں ملوث تمام افراد کو سزا ملنی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی رکن ایسی ہمت نہ کرے‘ لیکن سزا کون دے گا‘ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ یہاں تو طاقتور لوگوں اور خاندانوں نے جمہوریت کو اپنی باندی بناکھا ہے۔ اس ملک میں جمہوریت صرف چند خاندانوں اور ان کی حکومت کا نام ہے‘ جن کے علاوہ کوئی یہاں وزیراعظم یا وزیراعلیٰ نہیں بن سکتا۔ کیا ہم اب بھی بادشاہت میں رہ رہے ہیں؟ کیا یہ جمہوریت ہے؟
موجودہ سیاسی صورتحال دیکھ کر تو ایسا نہیں لگتا کہ ہم جمہوریت میں رہ رہے ہیں۔ کسی زمانے میں نوابزادہ نصر اللہ خان ، قاضی حسین احمد اور ملک معراج خالد جیسے سیاست دان ہوا کرتے تھے جن کی ایمانداری‘ خوش اخلاقی اور بے داغ سیاست کی سب مثال دیا کرتے تھے۔ اب ایسے سیاست دان اتنے کم کیوں ہوگئے ہیں؟ اب تو ہر کوئی لڑنے کو تیار بیٹھا ہوتا ہے‘ کوئی اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرتا۔ سیاست دانوں کے بچوں کو پلیٹ میں رکھ کر سیاسی پارٹیاں اور اعلیٰ عہدے مل گئے ہیں‘ ان کی کوئی سیاسی جدوجہد نہیں ہے اس لیے شاید وہ غرور و تکبر کا شکار ہو گئے ہیں۔ ان کو عوامی مسائل کچھ نہیں پتا۔ جس ملک میں لوگ روٹی کو ترس رہے ہوں‘ وہاں کے حکمران اگر لاکھوں روپے کی جوتی پہن کر غریب عوام کی بات کرنے کو آئیں گے‘ تو یہ مذاق ہی لگے گا۔
جو کچھ گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں ہوا‘ وہ بہت افسوسناک ہے۔ یہ دن جمہوریت کی تاریخ میں ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ تمام ارکین کو قانون کی پاسداری کرنی چاہیے۔ اسی طرح انہیں اپنے کارکنان کو بھی صبر کی تلقین کرنی چاہیے تاکہ ملک کی صورتحال میں بگاڑ پیدا نہ ہو۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی ایک مثبت کردار ادا کرسکتی ہے۔ اسے چاہیے کہ تمام پارٹیوں کو ساتھ بٹھائے اور ان کو آپس کے اختلافات کم کرنے کا مشورہ دے۔ سب مل کر کام کریں گے تو ہی ملک ترقی کرے گا۔ موجودہ سیاسی صورت حال کا واحد حل صرف جلد از جلد الیکشن کا انعقاد ہے۔