سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے دور اقتدار اور کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو ہار جیت کے فلسفے پر اپنی تقریروں میں خوب لیکچر دئیے ہیں۔ کرکٹ ہمیشہ ان کا پہلا حوالہ رہا ہے، ان کی بطور وزیر اعظم گفتگو میں آخری بال تک لڑنے کا استعارہ بھی کرکٹ کا ہی تھا جو آخری حوالہ ثابت ہوا۔ کچھ مبصرین پُر امید تھے کہ عمران خان کے لیے وزیر اعظم رہنا ممکن نہ رہا تو وہ سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کریں گے مگر افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ عمران خان نوشتہ دیوار پڑھ لیتے اور پروقار طریقے سے اقتدار سے الگ ہوکر عوام میں جاتے تو ملکی سیاست کا منظرنامہ کافی مختلف ہو سکتا تھا۔ آپ پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیر اعظم بنے جن کو عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کیا گیا۔ وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد سے آپ ایک خاص قسم کے بیانیے کو مسلسل فروغ دے رہے ہیں جو تقسیم اور نفرت کا باعث بن رہا ہے۔
عمران خان اپوزیشن میں رہے ہوں یا اقتدار میں اپنے مخالفین کے خلاف ان کا لہجہ ہمیشہ تلخ رہا ہے۔ اقتدار کے آخری دنوں میں فرسٹریشن کی وجہ سے لہجے کی یہی تلخی سیاسی ماحول کو کافی زہر آلود کر گئی۔ ہر سیاسی جماعت کا ورکر جذباتی ہوتا ہے لیکن تحریک انصاف کا کارکن جنون کی حد تک عمران خان سے وابستہ ہے۔ ان کو عمران خان کے پیروکار کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ ان کارکنوں کے نزدیک حق اور سچ بات صرف عمران خان کے منہ سے ادا ہوتی ہے۔ اب ان کے محبوب قائد تمام کرپٹ سیاسی مخالفین کو غدارِ وطن اور سازشی قرار دے چکے ہیں۔ عمران خان پر تنقید کرنے والے صحافی گنے چنے ہیں اور ان کو لفافہ خور کہا جاتا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کے خلاف سوشل میڈیا پر عمران خان کے پیروکار دشنام طرازی کرتے رہتے ہیں۔ لندن میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے گھر کے باہر احتجاج تحریک انصاف کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔ صحافی خواتین و حضرات کے خلاف بھی سوشل میڈیا پر زہر اگلنے کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
اب عمران خان کے پیروکار ایک نئی روایت قائم کر رہے ہیں کہ صحافیوں کے گھروں کا گھیراؤ بھی ہو گا۔ عمران خان ہمیشہ یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ وہ قوم کی تربیت کے لیے آئے ہیں، لیکن جس طرح انہوں نے اپنے کارکنوں کی تربیت کی ہے تو قوم کو ایسی تربیت کی ضرورت بالکل نہیں۔ عمران خان اپوزیشن میں تھے تب بھی میڈیا نے انہیں بھرپور وقت دیا، دھرنے میں تو خالی کرسیوں سے خطاب بھی سکرینوں پر دن رات چلتے رہے‘ اب اقتدار سے نکلتے ہی ان کے حامیوں نے غل مچا دیا کہ عمران خان کے حق میں ہونے والے مظاہرے 90 فیصد میڈیا نہیں دکھا رہا۔ یہ بھی ایک پروپیگنڈا تھا جس پر ان کے پیروکار ہمیشہ کی طرح ایمان لے آئے۔ اس کا نتیجہ فیلڈ میں صحافیوں کو بدتمیزی کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔
عمران خان نے خبردار کیا تھا کہ وہ حکومت سے نکالے جائیں گے تو مزید خطرناک ہوجائیں گے۔ ایک تقسیم شدہ معاشرے میں آپ جس طرح کا سیاسی بیانیہ لے کر چل رہے ہیں وہ واقعی بہت خطرناک ہے۔ کپتان اس بار 'امریکی غلامی نامنظور‘ کا نعرہ لے کر پھر سے اپنی ٹیم کے ساتھ سڑکوں پر ہے۔ اس نعرے کا نشانہ صرف سیاست دان نہیں بلکہ صحافی برداری اور ملک کے اہم ادارے بھی ہیں۔ پشاور اور کراچی میں جلسوں سے عمران خان نے عوام کو آزادی کی جنگ کرنے کا پیغام دیا۔ اب لاہور کے جلسے میں وہ کیا نیا پیغام دیں گے وہ آج دیکھنے کو مل جائے گا۔ عمران خان اس بات پر مصر ہیں کہ انہیں حکومت سے نکالنے کے پیچھے بہت بڑی عالمی سازش ہوئی۔ امریکا انہیں اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے اس نے مقامی سیاست دانوں کو ان کے خلاف استعمال کیا۔ پیسہ استعمال کرکے ان کے حامیوں کو ان کے خلاف کیا گیا اور پھر تحریک عدم اعتماد لاکر انہیں حکومت سے نکال دیا گیا۔ متحدہ اپوزیشن کی حکومت کو ویسے ہی وہ امپورٹڈ حکومت قرار دے چکے ہیں اور ان کے حامی سوشل میڈیا پر اندھا دھند امپورٹڈ حکومت نامنظور کا ٹرینڈ چلانے میں مصروف ہیں۔
کپتان کے چاہنے والے اپنے ہینڈسم ہیرو رہنما کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ عمران خان کے حکومت سے نکالے جانے کے بعد ان کے کارکنوں کا غصہ آسمان کو چھو رہا ہے۔ ایسے میں کپتان اور ان کی ٹیم کے لیے سیاسی مخالفین کو غداروں کے روپ میں پیش کرنے کا بیانیہ فی الوقت خاصا مقبول ہو رہا ہے۔ عمران خان کی سیاست کا یہ خاصہ رہا ہے کہ بات کوئی بھی ہو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کرو۔ مخالفین پر الزام لگاؤ، بھرے مجمع میں کیچڑ اچھالو، کردار کشی کرو بے شک کچھ حقیقت ہو یا نہ ہو۔ کپتان غداری کا جو بیانیہ لے کر چل رہے ہیں اس کا انہیں کسی حد تک سیاسی فائدہ ضرور ہو گا۔ ان کی پہلے سے موجود فین بیس جس نے ساڑھے تین سال کے دور حکومت میں کوئی خرابی نہیں دیکھی وہ اور بھی مضبوط ہو گی؛ تاہم یہ ایک بہت ہی خطرناک بیانیہ ہے جو پہلے سے تقسیم معاشرے کو مزید تقسیم کی طرف لے کر جائے گا۔ عمران خان کے بیانیے کی ایک جھلک سندھ ہاؤس پر حملے کی صورت میں نظر آئی تھی۔ پھر اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں نور عالم خان، مصطفیٰ نواز کھوکھر، فیصل کریم کنڈی اور ندیم افضل چن کی کپتان کے ایک چاہنے والے سے لڑائی کی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی۔ لندن میں نواز شریف کے گھر کے باہر بھی تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) والے آمنے سامنے رہے۔ اب مسلم لیگ (ن) نے بھی جواب میں عمران خان کی پہلی بیوی جمائما گولڈ سمتھ کے گھر کے باہر اتوار کو احتجاج کیا۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے جمائما کے گھر کے باہر احتجاج ایک پہلا جوابی پتھر ہے۔ عمران خان کے حامی اپنے سیاسی مخالفین کے گھروں کے باہر احتجاج کریں، عوامی مقامات پر ان کا پیچھا کریں، بد زبانی کریں یا ہراساں کریں تو اس سے سیاسی ماحول میں ضرور کشیدگی پیدا ہو گی۔ اب مسلم لیگ (ن) یا دیگر سیاسی جماعتیں بھی جواب میں یہی کریں گی تو بات تصادم تک بڑھ جائے گی۔ یوں سیاسی بیانیوں کی خاطر عوام کو آمنے سامنے کھڑا کر دینا ایک بہت خطرناک عمل ہے۔ مختلف گروہوں میں تقسیم ہمارا معاشرہ پہلے ہی بہت تلخ یادیں رکھتا ہے۔ ماضی میں سیاست میں مذہب کارڈ کا استعمال کرنے کے بھی سنگین نتائج سامنے آتے رہے ہیں۔ اب حب الوطنی کا کارڈ استعمال کر کے اپنے سیاسی فائدے کیلئے سب کو غدار قرار دینے کے نتائج بھی کچھ اچھے نہیں ہوں گے۔ عمران خان کی اب تک کی سیاسی حکمت عملی یہی اشارہ دیتی ہے کہ وہ مخالفین کے ساتھ تصادم سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ سیاست میں بڑھتی عدم برداشت معاشرے کو اس نہج پر لے کر جا رہی ہے جہاں کوئی بڑا حادثہ شاید ہمارا انتظار کر رہا ہے۔ میں چاہوں گا کہ وقت میرا یہ تجزیہ غلط ثابت کرے اور مجھے اس بات کی خوشی بھی ہو گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں کو سیاسی محاذ پر عمران خان ایک مسلسل چیلنج کی صورت میں سامنے ملیں گے۔ انہیں امور حکومت چلانے کے ساتھ عمران خان سے سیاسی میدان میں سیاسی انداز میں نمٹنے کے لیے کوئی بہتر حکمت عملی نکالنا پڑے گی۔