تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     13-08-2013

گڈانی کا ایک منصوبہ یہ بھی تھا

وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے گڈانی پاور پارک منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کی خواہش ہے کہ اگلے پچیس سالوں میں کوئلے اور دیگر ذرائع سے ہمیں پچاس ہزار میگاواٹ تک بجلی پیداکرنی چاہیے اﷲ ان کا کہا ہوا مبارک کرے ،آمین ۔ جس طرح انسان ، جانور، چرند اور پرند خوارک اور پانی نہ ملنے پر بھوک پیاس سے مرنے لگتے ہیں،اسی طرح کارخانے، فیکٹریاں، تجارتی ،کاروباری اداروں سمیت علم و تحقیق کے مراکز بھی توانائی کے بغیر مردہ ہو کر رہ جاتے ہیں ،لیکن توانائی ہے کہ روز بروز پاکستان کے ہاتھوں سے سرکتی جا رہی ہے۔ گڈانی میں جناب نواز شریف کے اس منصوبے پر مجھے کچھ’’ خیالی منصوبے ‘‘بھی یاد آ گئے جن سے اس قوم کو ہمیشہ سے سلایا اور بہلایا گیا۔میں روزانہ ٹی وی کی سکرینوں پر مختلف ممالک کے ساتھ ہونے والے نت نئے ایم او یوز کی کارروائیاں دیکھتا ہوں تو دل سے دعا نکلتی ہے کہ یا اﷲ انہیں مکمل کرنا کیونکہ (اس سے پہلے بھی لکھ چکا ہوں ) پاکستان میں اب تک مفاہمت کی نہ جانے کتنی یادداشتوں پر دستخط ہو چکے ہیں جن کا وقت یا اقتدار گذرنے کے بعد پتہ ہی نہ چلا کہ کیا ہوئیں اور کہاں گئیں؟انہیں زمین کھا گئی یا آسمان؟۔کس قدر ظلم اور دکھ کی بات ہے کہ پاکستان کی توانائی کے سمندر کالا باغ ڈیم کا،جس کی پہلی فزیبلٹی1953 ء میں شروع ہوئی ،آج ساٹھ سال گذرنے کے بعدبھی کچھ اتا پتہ نہیں ۔اس ملک میں ہوتا یہ رہا ہے کہ کالا باغ کو دفن کرنے والی ہر حکومت عوام کو سبز باغ دکھانے کیلئے سستی بجلی کے نام پر کبھی تھر کول تو کبھی پانی کے دوسرے منصوبوں کا نام لیتی رہی ۔کابینہ کے اجلاس کیے جاتے ،کمیٹیاں بنائی جاتیں اورد نیا بھر سے کروڑوں روپیہ خرچ کرکے ’’ ماہرین‘‘ کو بلایا جاتا اور پھر ایک دن ساری قوم کو ٹی وی کے سامنے بٹھا کر اس سے بجلی کی فراوانی کی خوشخبری سنائی جاتی لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ان میں سے کسی ایک پر بھی آج تک عمل نہیں ہوا۔ 1953 ء میں نہ جانے کس کے دل میں خیال آ گیا کہ میانوالی میں کالا باغ کے مقام پر پانی کا سب سے بڑا بجلی پیدا کرنے کا ڈیم بنایا جائے مگر پھریہ نادر خیال اس خیال جیسا ہو کر رہ گیا جسے’’ سوچتا کوئی اور ہے‘‘ اور ہم سب سوچتے ہی رہ گئے اور کالا باغ غائب ہو گیا۔ ساٹھ سال قبل سوچے گئے کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے کی طرح آج سے کوئی بیس سال قبل 6 اکتوبر1994ء کو اسلام آباد اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اس تاریخی ہال میں جہاں1973 ء میںپاکستان کا پہلا متفقہ آئین منظور ہو ا تھا ،اس وقت کی وزیر اعظم پاکستان بے نظیر بھٹو شہید کی موجود گی میں وزارت پانی و بجلی اور ہانگ کانگ کے ایک بہت بڑے سرمایہ کار گورڈن وو کی کمپنی کنسالیڈ ٹیڈ الیکٹرک پاور ایشیا(CEPA) کے درمیان تھر کول سے بجلی پیدا کرنے کے لیے 8 ارب ڈالر(بیس سال قبل کے) کے منصوبوںکےMOU پر دستخط ہوئے تھے اور اس عالی شان تقریب میں شرکت کیلئے بیرون ملک اور پاکستان کے طول و عرض سے درجنوں شخصیات کو سرکاری اخراجات پر ہوائی جہازوں کے ذریعے اسلام آباد لایا گیا تھا۔اس تقریب میں غیر ملکی سفارت کار، سرکاری کارپوریشنوں کے سربراہان اور ملکی اور بین الاقوامی بینکوں کے اعلیٰ عہدیداران کے علاوہ اس وقت کے سندھ کے وزیر اعلیٰ عبد اﷲ شاہ مر حوم، وزیر اعظم کے توانائی کے خصوصی مشیر شاہد حسن اورپٹرولیم کے وزیر انور سیف اﷲ خان شریک تھے۔اس تمام کارروائی کو اس وقت کے واحد پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک گھنٹہ تک براہ راست دکھایا گیا ۔تقریب میں محترمہ بے نظیربھٹو نے خطاب میں قوم کو خوشخبری دیتے ہوئے ملک میں سستی اور وافر بجلی پیدا ہونے کی نوید سنائی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی موجود گی میںاس سمجھوتے کے بارے میں بتایا گیا کہ ہانگ کانگ کیCEPA ساڑھے پانچ ارب ڈالر کی لاگت سے کوئلے سے چلنے والا5280 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا پلانٹ لگائے گی اور اس کے علا وہ مزید دو ارب بیس کروڑ ڈالر تھر میں کوئلے کی کانوں کی ترقی اور ان سے کوئلہ کی ترسیل کا تیز تر نظام قائم کرنے کیلئے خرچ کئے جائیں گے ۔بھر پور تالیوں کی گونج میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے کہا تھا ’’ یہ کوئی خیالی منصوبہ نہیں ہے‘‘ ۔ان کا یہ خطاب آج بھی اخبارات اور پی ٹی وی کے ریکارڈ میں محفوظ ہے کہ انہوں نے ہانک کانگ کے گورڈن وو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ’’میں نے انہیں ہدایات جاری کرد ی ہیں کہ کوئلہ سے چلنے والے اس پاور پلانٹ پر’’ آئندہ تیس دنوں‘‘ میں کام شروع کر دیا جائے جس کیلئے دو ارب ڈالر کی ایکویٹی کی رقم جناب گورڈن وو اپنی جیب سے لگا رہے ہیں ‘‘۔اس پر پورا ہال دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا۔ اس موقع پراپنی جوابی تقریر میں گورڈن وو نے دعویٰ کیاتھا کہ تھر کے مقامی کوئلے سے پاکستان کو ارزاں لاگت کی توانائی فراہم ہو گی جس سے پاکستان ایک ’’ چھوٹا ایشین ٹائیگر‘‘ بن جائے گا ۔اس وقت کے سیکرٹری پانی و بجلی سلمان فاروقی نے اپنی افتتاحی تقریر میں بڑے فخریہ انداز سے کہا تھا’’ ہم آج اکیسویں صدی میں داخلے کے سفر پر روانہ ہو رہے ہیں اور آج آپ کو ایک مزید خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ تھر کول کے آج ہونے وا لے معاہدے کے علا وہ صرف پندرہ دن پہلے24 ستمبر1994ء کو ہم نے ایک اور دیا روشن کیا ہے ۔اس روشن کئے گئے نئے دیئے کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے 24ستمبر کو امریکی سرمایہ داروں کے ایک بڑے وفد کے ساتھ طے شدہ چار ارب ڈالر کے توانا ئی کے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ معاہدہ امریکی انرجی سیکرٹری ہیزل اولیری کی قیادت میںحکومت پاکستان کے درمیان طے ہوا ہے۔ گورڈن وو کی کمپنیCEPA کے درمیان معاہدے کی جو تفصیلات اس تقریب میں بیان کی گئیں ان کے مطا بق ’’سیپا‘‘ نے کراچی سے لے کر گڈانی کی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ کوئلے سے چلنے والے8 تھر کول پاور یونٹ نصب کرنے تھے جن میں سے ہر یونٹ660 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے قابل ہو گا۔ اس طرح ان آٹھ پاور یونٹس سے مجموعی طور پر5280 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی ۔اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرف سے اپنی افتتاحی تقریر میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ اس سلسلے کا پہلا یونٹ دسمبر1997ء میں کام شروع کر دے گا۔جب یہ معاہدہ کیا گیا اس وقت قوم کو بتایا گیا تھا کہ تیل اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے اس پاور پلانٹس کی مکمل تنصیب اور انہیں چلانے کی لاگت سات سے آٹھ لاکھ ڈالر فی میگا واٹ ہو گی اور آج اس کی لاگت بلین ڈالر سے بھی بڑھ گئی ہے۔!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved