جناب عمران خان صاحب! میری خواہش تو یہی تھی کہ آپ کو وزیر اعظم کہہ کر ہی مخاطب کروں ،لیکن کیا کیا جائے کہ کہ سابقہ کا لفظ اب آپ کو اسی طرح لاحق ہوگیا ہے جیسے وہ خرابیاں لاحق تھیں ،جنہیں دیکھ دیکھ کر آپ کے خیر خواہ کڑھتے رہے ہیں ۔خیرخواہوں کے لفظ سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ یہ لفظ اندھوں ،بہروں ،گونگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔یقینا ان اوصاف والے خیر خواہ بھی ہوں گے لیکن میرا شمار بہرحال ان میں نہیں۔ہم آپ کی غلطیاں اور خرابیاں شروع سے دیکھتے آئے ہیں اور بہت بار ان پر تنقید بھی کرتے رہے ۔2014 میں جب آپ دھرنے کے لیے اسلام آباد پہنچے تو میں نے شروع سے اس اقدام کی مخالفت کی تھی۔ پھر عوامی تحریک سے آپ کا ملاپ کسی کو بھی اچھا نہیں لگاکیونکہ ان کے بارے میں دیرینہ تحفظات موجود تھے۔ امپائر کی انگلی کی بار بار بات ہو، سول نافرمانی کی اپیل ہو،بل ادا نہ کرنے کی تاکید ہو ،یہ سب غلط فیصلے تھے۔ پی ٹی وی پر حملہ ، قومی اسمبلی کی بے توقیری۔ میں اس زمانے میں بھی ان باتوں کے خلاف تھا۔جب مخدوم جاوید ہاشمی نے انہی اقدامات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کنٹینر سے اترآنے کا فیصلہ کیا ،او رپھر پریس کانفرنس میں وہ انکشافات کیے جو ہوش ربا تھے تو اسی وقت سارا کھیل واضح ہونے لگا تھا۔یہ کوئی نیا کھیل تو نہیں تھا۔ یہ شاہوں کے بیچ کی وہ لڑائی تھی جس میں پیادے مارے جاتے ہیں اور ہر موت کا فائدہ کسی نہ کسی بادشاہ کو ہورہا ہوتا ہے۔
ہم جیسے لوگ پھر بھی آپ کے ساتھ کیوں کھڑے رہے ، یہ ایک الگ سوال ہے جس کا جواب سیدھا سا ہے ۔ جب جنرل حمید گل مرحوم نے آئی جے آئی بنائی تھی اور نواز شریف کو اس کا سربراہ بنایا گیا تھا تو یہ کھیل اس وقت بھی ڈھکا چھپا نہیں تھا‘لیکن نظر یہی آتا تھا کہ پس پردہ محرکات اور قوتیں جو بھی ہوں ،یہ ملک اور قوم کے لیے بہرحال بہتری کا راستہ ہے‘ اور ہمار امسئلہ نہ افراد تھے ، نہ خاندان ، نہ حکومتیں ۔ہمارا بنیادی مسئلہ ملک اور قوم تھے سو ہم اس نظریے کے ساتھ وابستہ رہے۔ اب یہی معاملہ2014 میں آپ کے ساتھ پیش آیا تو ہمارا فیصلہ پھر وہی تھاکہ اگر اس میں پاکستان اور پاکستانیوں کی بہتری ہے تو یہی ہمارا راستہ ہوگا؛ چنانچہ جن کی آپ کو پشت پناہی ان سب کے باوجود حاصل رہی ،ان میں سب سے بڑی طاقت ہم پاکستانیوں کی تھی جو آپ کو ملک کے لیے بہتر جانتے تھے؛ چنانچہ بالآخر جب آپ کو 2018 میں اقتدار ملا،اور آپ کو اس منزل تک پہنچانے کے لیے کیے جانے والے کاموں کی کہانیاں عام ہونے لگیں ، ہم تب بھی اسی امید اور اسی خواہش میں ساتھ کھڑے تھے۔
یاد رکھیے خان صاحب! جو آپ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے ۔ اس پر یہ لازم نہیں ہوجاتا کہ وہ آپ کی غلطیوں کے ساتھ بھی کھڑا ہو۔جو شخص آپ کا دفاع کرتا ہو، اس کا یہ ہرگز ہرگز مطلب نہیں کہ وہ آپ کے الٹے فیصلوں کا بھی دفاع کرے ۔ہم آپ کے مداح ہیں آپ کی برائیوں اور خامیوں کے نہیں ۔سچ یہی ہے کہ آپ کے اقتدار کا سارا عرصہ دو رنگہ کاموں پر مشتمل تھا۔ سیاہ اورسفید دونوں ۔ میںنے ہر سفیدکی کھل کر حمایت کی ۔ہر وہ موقع جس میں آپ کی ستائش آپ کا حق تھا،میری طرف سے آپ کو پہنچتی رہی ۔ 27 فروری کو ابھی نندن کا جہاز گرانے کا واقعہ ہو،اقوام متحدہ میں آپ کی یادگار تقریر ہو،کووڈ کے زمانے میں آپ کی بہت بہتر حکمت عملی ہو، پاکستان سٹیزن پورٹل ہو،صحت کارڈ ہو، روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ ہو ،بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ہو ،لمبے لمبے سرکاری وفود کے بجائے کم خرچ کے سرکاری دورے ہوں یااسلاموفوبیا کے خلاف کام ۔یہ سب کام وہ تھے جو یقینا بہت اچھے تھے اور ان میں کئی کام کوئی حکومت کر ہی نہیں سکتی تھی ۔
لیکن آپ کے اقتدار کا جو سیاہ رخ ہے وہ بھی کسی اور حکمران کے بس کا نہیں تھا۔ کیا کوئی اور یہ کام کرسکتا تھا کہ ہر میرٹ کو نظر انداز کرکے عثمان بزدار کو اس صوبے کا حکمران مقرر کردے جو سب سے اہم صوبہ تھا اور جس میں ایک قابل وزیر اعلیٰ جناب شہباز شریف کے کارنامے گونجتے تھے ۔کیا کوئی اورحکمران شیخ اور چودھری کے بیچ ہر کچھ دن بعد اہم وزارتوں کی آنکھ مچولی اس طرح کھیل سکتا تھا کہ ایک صاحب ایک دن اطلاعات کے دفتر میں بیٹھے ہوں ، اگلے دن سائنس اور ٹیکنالوجی کے، اور اس سے اگلے دن ریلوے کے ۔کیا کوئی سربراہ ایسا مشیر مذہبی امور مقرر کرسکتاتھا جو آپ نے منتخب کیا ۔کیا کوئی اور وزیر اعظم ایسی بدترین مردم شناسی کا مظاہرہ کرسکتا تھا جو آپ نے کیا۔
لوگ آپ سے ٹوٹ کر جانے لگے۔ مخالف بیانات آنے لگے۔اتحادی سب بلیک میلر نہیں تھے ، کچھ کو جائز شکایات تھیں۔ آپ نے ناراض ارکان کی بھی پروا نہیں کی۔جائز شکایات بھی نہیں سنیں اور اپنی رخصتی لکھنے کا کام جاری رکھا۔ تحریک عدم اعتماد آنے لگی تو آپ نے کہا: یہ متحدہ اپوزیشن نے بہت اچھا کیا ، میں اس کے انتظار میں تھا۔ کیا خاک انتظار میں تھے آپ ؟عدم اعتماد کی ناکامی کے لیے اپنا گھر درست کرنا ضروری تھا۔ جو کیا ہی نہیں گیا۔ اب میں آپ کو جناب سراج الحق سے فون پر بات کرتے دیکھتا ہوں اور مولانا شیرانی سے ملتے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ کام پہلے بھی تو کیے جاسکتے تھے ۔وہ فہم و فراست ،وہ تحمل ، وہ برداشت اور سب سے بڑھ کر وہ لچک جو پارلیمانی طرز حکومت کے ایک وزیر اعظم کے پاس بنیادی اثاثوںکی طرح ہونی چاہیے ، اس پورے عرصے میں اس کی رمق بھی دیکھنے کو نہ مل سکی ۔ اور پھر جس طرح آپ رخصت ہوئے ۔جس طرح کی حرکتیں روا رکھی گئیں ۔ جس طرح آخری لمحے تک قوم کو مصیبت میں ڈالے رکھا، اس میں یہ کہیں سے نظر نہیں آرہا تھا کہ آپ آئینی اور قانونی طریقے سے اپنے مخالفوں سے لڑ رہے ہیں ۔ تمام تر تاثر یہ تھا کہ آپ کا بیڑا کم اور ملک کا بیڑا زیادہ غرق ہورہا ہے ۔آخری نتیجہ وہی تھا جو ہونا ہی تھا لیکن یہ افسوس رہے گاکہ آپ نہ ایک بہادر سپاہی کی طرح نہ ایک اعلیٰ سپورٹس مین کی طرح رخصت ہوئے ۔ اگریہ رخصتی کسی سازش کا نتیجہ تھی تو وہ آپ کے مزاج کی آپ کے خلاف ساز ش تھی۔
اب آپ بڑے جلسے کر رہے ہیں۔ رمضان میں حیرت انگیز تعداد میں لوگ آپ کی حمایت میں نکل رہے ہیں تو میرا دل خوش نہیں ہوتا،یہ روتا ہے اور بجا طور پر گریہ کرتا ہے کہ منتقم ، ضدی اور خود پسند عمران خان نے ایک محب وطن ، صاحب دل اور ایماندارعمران خان کو کھو دیا ۔ اور ہائے کیسے جوان کو کھو دیا۔
خان صاحب ! گستاخی معاف ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے اپنی سیاسی زندگی کا عروج دیکھ لیا ہے۔ اب وقت کی تمام تر قوتیں آپ کے حق میں نہیں ہیں ۔میں نہیں سمجھتا کہ اب آپ یا آپ کی جماعت کبھی اس چوٹی پر دوبارہ پہنچیں۔ خدا کرے میرا یہ تجزیہ غلط ہو تو میں خوش ہوں گا لیکن کوئی خوشی نہیں ہوگی اگر آپ انہیں خامیوں اور غلطیوں کے ساتھ دوبارہ آئیں ۔ غالب نے کہا تھا
آئے وہ یاں خدا کرے
پر نہ کرے خدا کہ یوں