تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     21-04-2022

کراچی کا فیصلہ

میرا کہنا تھا کہ دس سے پندرہ ہزار لوگ تو کسی بڑے سیمینار میں شرکت کیلئے پہنچ جاتے ہیں۔ اتنے لوگوں کو اکٹھا کر کے فیصلے تبدیل کرانے والوں کی سوچ پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔لاہور میں ایک سیاسی شخصیت کے بیٹے کی دعوتِ ولیمہ میں دس ہزار لوگوں نے شرکت کی تھی‘ لیکن کیا کیجئے کہ میرے استاد گوگا دانشور میری اس منطق سے اتفاق ہی نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے کراچی جلسے میں کم از کم پانچ لاکھ لوگ شریک تھے۔ اپنے اس بیانیے کو یا اپنی منطق کو اعداد و شمار کا لباس پہنا کر ہمارے سر تھونپنے کیلئے گوگا دانشور یہ فارمولا پیش کرتے ہیں کہ ایک ایکڑ 4840 مربع گز پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک مربع گز میں سات مربع فٹ ہوتے ہیں اور ایک مربع فٹ 144 مربع انچ جگہ گھیرتا ہے۔ اگر آپ کسی بھی پرائیویٹ جگہ پر کوئی فنکشن یا کسی بھی قسم کے عوامی یا سیاسی اجتماع کرتے ہیں تو 9 مربع فٹ یا 1296 انچ کی پیمائش کا پیمانہ مقرر کیا جائے گا۔ اس طریقے سے اگر فرض کر لیں کہ کراچی کے جلسے میں ایک شخص نے ایک مربع فٹ جگہ گھیری ہو گی تو کہا جا سکتا ہے کہ ایک ایکڑ میں چالیس ہزار لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اب یہ کسی سے پوشیدہ نہیں‘ کراچی کا ہر باخبر شہری جانتا ہے کہ مزارِ قائد سے متصل باغ جناح 16 ایکڑ رقبے پر محیط ہے۔ اب اگر اس میں سے ہم ایک ایکڑ سٹیج اور اس کے سامنے والی جگہ کیلئے نکال دیں تو یہ پندرہ ایکڑ جگہ بنتی ہے۔ چلیں کرسیوں کیلئے مقرر جگہ اور سکیورٹی کے حوالے سے سٹیج کے پیچھے چھوڑی گئی جگہ نکال دیں اور کل رقبہ بارہ ایکڑ فرض کر لیں‘ تب بھی چار لاکھ اڑتالیس ہزار افراد جلسہ گاہ میں موجود تھے۔ اس کے علاوہ عینی شاہدین اور میڈیا کے لوگ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ جلسہ گاہ سے متصل ایک میل کے علاقے تک لوگ ہی لوگ موجود تھے۔
دنیا کے کسی بھی ذرائع سے‘ کسی بھی پیرامیٹر سے‘ کسی بھی سورس سے تصدیق کی جا سکتی ہے کہ 16 اپریل کو مزارِ قائد پر عمران خان کے تاریخی جلسہ عام میں حاضرین کی تعداد کسی طرح بھی پانچ لاکھ سے کم نہیں تھی۔ یہ سب لوگ وہ تھے جنہیں کسی بریانی یا بوفے کا لالچ دے کر‘ ویگنوں اور بسوں میں بھر بھر کر یا دیہاڑی پر نہیں لایا گیا تھا۔ یہ سب اپنے اپنے طور پر‘ جوش و خروش اور ولولے سے اپنے گھروں‘ دفاتر اور دکانوں سے نکل کر آئے تھے۔ کیا کوئی بھی طاقت رضاکارانہ طور پر عمران خان کو اپنی حمایت کا یقین دلانے والی اس تعداد کو کچلنے کا سوچنے کی حماقت کر سکتی ہے؟ یہ صرف کراچی کی تعداد کا تخمینہ ہے‘ حالانکہ اس دن چیئرمین تحریک انصاف کی کال پر لاہور‘ پشاور اور دیگر شہروں میں بھی لوگوں نے مخصوص مقامات پر نکل کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔ لاہور کے لبرٹی چوک سمیت مختلف شہروں میں مختلف مقامات پر سکرینیں لگائی گئی تھیں‘ جہاں عمران خان کی تقریر براہِ راست دکھانے کا انتظام کیا گیا تھا اور بلاشبہ اس دن کراچی کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی لاکھوں لوگ سڑکوں پر موجود تھے۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ جلسوں اور ریلیوں میں حاضرین کی تعداد ہمیشہ سے ہی میڈیا اور سرکاری ایجنسیوں کیلئے ایک دلچسپ مشغلہ رہی ہے لیکن یہ پہلی دفعہ ہوا کہ سرکاری ایجنسیوں کے لوگ بھی نا قابل یقین تعداد کو دیکھ کر دانتوں تلے انگلیاں داب کر رہ گئے۔ سنا جا رہا ہے کہ کچھ تھنک ٹینک یہ مشورے دے رہے ہیں کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں‘ یہ سب جوش چند دنوں میں دودھ کی جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا۔ چلیں! ان کی بات مان لیتے ہیں کہ لوگ تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے لیکن کیا ان کے دلوں میں موجود غصہ اور نفرت بھی بیٹھ جائے گی؟ ہرگز نہیں! بلکہ یہ ہر دن کے ساتھ بڑھتی جائے گی۔ کیا کوئی عوامی غضب کا متحمل ہو سکتا ہے؟ ممکن ہے کہ کچھ افراد یا پارٹی والے تعداد کے حوالے سے مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہوں لیکن اندر باہر ملنا جلنا تو سب نے ہوتا ہی ہے۔ لوگوں سے مل کر‘ سیاسی حالات پر ان کی رائے جان کر خوب اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت عوامی مزاج کیا ہے‘ لوگ کیا سوچ رہے ہیں۔ اب تو سروے رپورٹس بھی یہی بتا رہی ہیں کہ 70فیصد سے زائد لوگ فی الفور الیکشن کے حامی ہیں۔ کچھ لوگ مخصوص طبقات کو میٹھی نیند سلانے کیلئے کراچی اور اس سے قبل پشاور جلسے کے حاضرین کی تعداد کو مضحکہ خیز حد تک کم بیان کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی باتیں اور تبصرے وہ لوگ بھی سن رہے ہوتے ہیں جو خود اس جلسے میں موجود ہوتے ہوئے یہ تمام مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اینکر‘ یا کوئی سیاسی شخصیت یہ ٹویٹ کرے کہ جلسے میں صرف پندرہ‘ بیس ہزار لوگ موجود تھے تو ایسے میں ناظرین اور سامعین کے اعتماد اور بھروسے اور اپنی ساکھ کو ٹھیس پہنچانے پر سوائے دل کھول کر قہقہے لگانے کے‘ اور کیا کیا جا سکتا ہے؟ کراچی کے جلسۂ عام پر عمران خان پر پھبتی کستے ہوئے پر سب سے دلچسپ تبصرہ مریم نواز کا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان کا کمنٹ اب تک اس جلسے پر کیے جانے والے تبصروں میں سب سے بھاری دکھائی دے رہا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے جلسے میں حاضرین کی تعداد دس ہزار تک تھی جسے تحریک انصاف کا میڈیا سیل بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہے۔ غالباً اسی قسم کے کمنٹس 30 اکتوبر 2011ء کے مینارِ پاکستان لاہور پرپی ٹی آئی کے تاریخ ساز جلسے کے حوالے سے بھی سننے کو ملے تھے۔ اس وقت بھی مسلم لیگ نواز کے ترجمان یہی کہہ رہے تھے کہ جلسہ گاہ میں کرسیوں کی تعداد کسی طور بھی پچیس ہزار سے زائد نہیں تھی۔ دن کو رات تو کہا جا سکتا ہے لیکن سوائے اندھوں کے کوئی بھی اس پر یقین نہیں کرے گا۔ بدقسمتی سے ادھر ادھر سے ہتھیائے ہوئے لوگوں کا ایک ٹولہ مزارِ قائد کے اطراف میں دور دور تک جمع ہونے والے لاکھوں کے اس مجمع کو نجانے کس دل سے جتھوں اور ہجوم کا نام دے کر اپنے محسنوں سے وفا کرنے میں لگا ہوا ہے۔ ہمارے ملک میں یہ ریت رہی ہے کہ سیاسی مخالفین ایک دوسرے کے جلسوں میں حاضرین کی تعداد کو گھٹا کر پیش کرتے ہیں مگر اب وہ وقت نہیں رہا کہ لوگ ان کی باتوں پر دل و جان سے یقین کر لیں کیونکہ اب کچھ بھی چھپا نہیں رہتا۔ کل تک وہ بات جو ایک ہی سرکاری ٹی وی چینل سے بیان کی جاتی تھی‘ اب وہ بہت سے نجی ٹی وی چینلز سے بھی بیان کی جاتی ہے‘ اس طرح کئی پہلو بیک وقت نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں بلکہ معاملات اب اس سے بھی چار ہاتھ آگے کی جانب بڑھ گئے ہیں۔ ہر ہاتھ میں تھاما ہوا موبائل اور اس سے جنم لینے والا سوشل میڈیا کا ہتھیار اب چند لمحوں میں دودھ کو پانی سے الگ کر کے دکھا دیتا ہے۔ موبائل فون کا یہ ہتھیار سب کچھ کھول کر بیان کر دیتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ یہ وہاں تک بھی پہنچ جاتا ہے جہاں روایتی میڈیا کیمروں کی رسائی نہیں ہو سکتی۔
اگر کراچی کے جلسے میں کیے جانے والے خطاب کی بات کی جائے تو سابق وزیراعظم عمران خان نے سوائے چند ایک فقروں کے‘ کوئی نئی بات نہیں کی۔ لوگ جانتے تھے کہ وہی پرانی باتیں سنائی اور دہرائی جائیں گی لیکن اس کے باوجود عوام کا جوش و خروش اور اس بھرپور تعداد میں شرکت یہ اشارہ کرتی ہے کہ اگر ان کا ٹیمپو اسی طرح برقرار رہا تو چند ماہ بعد ہونے والے انتخابات کے نتائج شاید کراچی کی سیاسی تاریخ کو ایک ایسی سمت دے جائیں جو مدتوں بھلائی نہ جا سکے۔کراچی میں جو جنون نظر آیا‘ وہ اگلے کئی ہفتوں تک ہر اس محفل کا موضوع بنا رہے گا جہاں چار‘ پانچ لوگ مل کر بیٹھیں گے اور لوگ ان لاکھوں افراد کو پانچ‘ دس ہزار سے تشبیہ دینے والوں کی سوچ پر ہنستے بھی رہیں گے‘ اس لیے کہ وہ جان چکے ہیں کہ ایسے حضرات کی سمجھ میں نہ پہلے کچھ آیا تھا اور نہ ہی یہ اب حالات کی موج کا رخ دیکھ رہے ہیں۔ ان سب کی آنکھوں میں عمران خان کا نام سنتے ہی خون اتر آتا ہے جبکہ ہر دیکھنے والی آنکھ دیکھ رہی ہے کہ پاکستان کا قومی پرچم اور عمران خان کی تصاویر لہراتا ہوا مرد و خواتین اور بچوں کا عوامی سمندر سابق وزیراعظم کی اپیل کے انتظار میں ہے۔
خان صاحب کے الفاظ بلکہ وہ نعرہ مستانہ‘ جو انہوں نے وزیراعظم ہائوس سے نکلتے ہوئے لگایا تھا‘ لوگوں کے دلوں میں ترازو ہو چکا ہے۔ تحریک عدم اعتماد منظور ہو جانے کے بعد وزیراعظم ہائوس سے نکلتے ہوئے خان صاحب نے صحافیوں سے استفسار کیا کہ کوئی بے نقاب ہونے سے رہ تو نہیں گیا؟ جب میڈیا کے نمائندوں نے قہقہے لگاتے ہوئے بتایا کہ سب بے نقاب ہو گئے ہیں تو مردِ قلندر نے اپنی ذاتی ڈائری ہاتھ میں پکڑ کر اٹھتے ہوئے کہا: اچھا ہوا کہ سب بے نقاب ہو گئے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved