تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     14-08-2013

دہشت گردی ہمارا سودا ہے

توقع نہیں تھی کہ پاکستان کے وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کو تاریخ کا وہ حصہ یاد دلانا پڑے گا‘ جس میں وہ خود بھی ایک اہم کردار رہے ہیں۔ وہ جنرل ضیاء کی کابینہ میں وزیر تھے، انہی کے زمانے میں سیاست شروع کی اور قومی اسمبلی کے کئی بار ممبر منتخب ہونے کے علاوہ‘ اہم وزارتی عہدوں پر بھی فائز رہے۔ ان کا یہ کہنا کہ ’’ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری نہیں تھی،ہم پر مسلط کی گئی‘‘ حیرت انگیز ہے۔ چودھری صاحب کی یاددہانی کے لیے عرض ہے کہ افغانستان کی جنگ میں ہمیں کسی غیر یا اغیار نے نہیں دھکیلا تھا۔ ہم خود اس جنگ کا چھابہ لگا کر‘ اپنا سودا بیچنے عالمی منڈی میں گئے تھے۔ ہمیں کسی نے مطلوبہ معاوضے کی پیشکش نہیں کی‘ جس پر ہم نے یہ کہہ کر اپنا سودا بیچنے سے انکار کر دیا تھا کہ ’’ہمیں مونگ پھلی نہیں چاہیے۔‘‘ یہ الفاظ اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے ہیں۔ افغانستان میں نورمحمد ترکئی کے زیرِقیادت قومی انقلاب برپا ہوا اور وہاں کے حکمران اقتدار سے محروم کر دیئے گئے۔ انقلابی حکومت کے خلاف سازشیں شروع ہوگئیں اور امریکہ کے ایجنٹوں، حواریوں اور اتحادیوں نے انقلابی حکومتوں کے خلاف پے درپے سازشیں کیں اور آخر میں جب ببرک کارمل آئے تو انہوں نے سامراجی سازشیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے اتحادی سوویت یونین سے مدد طلب کی اور سوویت یونین نے کابل کی حکومت کی دعوت پر اس کی مدد کے لیے اپنی فوجیں وہاں بھیجیں ۔ ان فوجوں کی مدد سے انقلابی حکومت کے قدم جمنے لگے اور اس کے خلاف سرگرم سازشیوں کے حوصلے پست ہوگئے۔ اس وقت جنرل ضیاء الحق نے امریکہ سے مدد طلب کی اور اسے ڈرایاکہ سرد جنگ میں اس کا حریف سوویت یونین افغانستان میںـ قابض ہوگیا ہے اور اگر سوویت یونین کو نہ روکا گیا تو اس کی فوجیں خلیج تک آجائیں گی اور شرقِ اوسط کے تیل کے ذخیرے امریکہ سے چھن جائیں گے۔ جنرل ضیاء نے یہ سودا بلاوجہ نہیں لگایا تھا۔ اس وقت امریکہ کے سیکرٹری دفاع نے دھمکی دے دی تھی کہ اگر سوویت یونین نے خلیج کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تو اس کا مطلب جنگ ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ سوویت یونین نے اس دھمکی کے جواب میں امریکہ کو یقین دلایا تھا کہ ہماری فوجیں خلیج کی جانب نہیں بڑھیں گی‘ ہم افغانستان میں قومی حکومت کو مقامی بغاوتوں کے خلاف مدد دینے کے لیے آئے ہیں۔اس سفارتی یقین دہانی کے بعد امریکہ کو اعتماد ہوگیا تھا کہ سوویت افواج‘ افغانستان سے آگے جاکر کوئی کارروائی نہیں کریں گی۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ وہ ایران اور پاکستان دونوںکی آزادی اور خودمحتاری کا احترام کریں گی۔ سوویت یونین نے اپنے وعدے کا احترام کیا اور امریکی مداخلت کے بدترین دور میںبھی پاکستان اور ایران کی خودمحتاری میں کوئی مداخلت نہیں کی۔ یہی وجہ تھی کہ جب ضیاء الحق نے سوویت خطرے کا سودا بیچنے کے لیے چھابہ لگایا تو جمی کارٹر نے اس سودے کی معمولی سی قیمت لگائی‘ جس پر جنرل ضیاء کو مایوسی ہوئی ۔ لیکن سی آئی اے افغانستان میں سوویت افواج کے داخلے کا فائدہ اٹھانے پر تلی ہوئی تھی۔ ترکئی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش بھی سی آئی اے نے ہی کی تھی۔ وہی درپردہ جنرل ضیاء کو حوصلے دیتی رہی اور جب رونلڈ ریگن اقتدار میں آئے تو انہوں نے سوویت یونین کے خلاف سخت گیر پالیسی اختیار کی اور جنرل ضیاء کو ان کی خواہش کے مطابق معاوضہ دینا شروع کر دیا۔ اس میں وہ سب کچھ شامل تھا جو امریکہ سے مانگا گیا۔افغانستان میں انقلابی حکومت اور سوویت افواج کے خلاف لڑنے کے لیے نان سٹیٹ ایکٹرز تیار کیے گئے۔ ان کے لیے تربیتی سہولتیں، اسلحہ اور ڈالرز امریکہ نے فراخ دلی سے مہیا کیے۔ قبائلی علاقوں میں نام نہاد مجاہدین کے مراکز قائم کیے گئے۔ یہاں تک کہ مجاہدین بنانے کے لیے افرادی قوت بھی امریکہ نے مہیا کی۔ اس وقت کے ایف آئی اے کے اعلیٰ افسر رحمان ملک نے ایک جگہ لکھا ہے کہ امریکہ نے یورپ کے ملکوں میں عرب حکومتوں کے بھاگے ہوئے سماج دشمن عناصر کو تلاش کرکے وزیرستان پہنچایا۔ یہ قاتل اور غنڈے تھے جو مصر، تیونس، مراکش اور دیگر عرب ملکوں سے بھاگے ہوئے مجرم تھے۔ ان سب کو قبائلی علاقے میں لاکر مجاہدین بنایا گیا۔ افغانستان سے انقلابیوں کے دشمنوں کو ڈھونڈ دھونڈ کر تربیتی کیمپوں میں پہنچایا گیا اور اس طرح آئی ایس آئی کی زیرِ نگرانی افغان جہاد منظم ہوا۔ فنڈنگ سی آئی اے کر رہی تھی اور گرینڈ آپریشن آئی ایس آئی کے حوالے تھا۔ میں کوئی راز نہیں کھول رہا، یہ سب باتیں مستند دستاویزات میں شائع ہوچکی ہیں۔ ’’نیوز ویک ‘‘میں یہ رپورٹ بھی شائع ہوئی تھی کہ امریکہ نے آئی ایس آئی کو بے حساب اسلحہ اور ڈالر دیئے جو کبھی پورے کے پورے مجاہدین کو منتقل نہیں کیے گئے اور اس زمانے کے فیلڈ آپریشن کے انچارجوں نے دونوں ہاتھوں سے دولت کمائی۔ سی آئی اے نے لاطینی امریکہ کی طرح اس نام نہاد جہاد میں بھی انٹرنیشنل ڈرگ ٹریڈ سے کمائی گئی دولت‘ صرف کی اور افغانستان میں مقامی طور پر ہیروئین بنانے کی فیکٹریاں لگائی گئیں۔مجاہدین کی آمد سے پہلے افغانستان میں ہیروئین نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی۔ یہ تجارت سی آئی اے نے لاطینی امریکہ اور ہند چینی کے جنگ زدہ علاقوں میں شروع کی اور پھر افغانستان میں آکر پھولی پھلی۔ انہی نام نہاد مجاہدین کی مدد سے ضیاء الحق نے پاکستانی شہروں میں دہشت گرد تنظیمیں منظم کیں جو لسانی اور فرقہ ورانہ نفرت پھیلانے پر مامور کی گئیں۔ اگر یہ پورا پس منظر یاد کیا جائے تو چودھری صاحب کا حافظہ بھی بیدار ہوجائے گا اور وہ یقینا دیکھ لیں گے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کسی نے ہم پر مسلط نہیں کی بلکہ ہم نے خود اپنے ملک کو دہشت گردی کی آماجگاہ بنانے کے لیے‘ اپنا سودا امریکہ کے ہاتھ بیچا تھا اور ہمیں اچھی طرح معلوم تھا کہ امریکہ کی دلچسپی افغانستان پر سوویت فوجی قبضے میں ہے اور جیسے ہی سوویت افواج کا قبضہ ختم ہوگا، امریکہ بھی اس خطے سے چلا جائے گا۔ امریکیوں نے کبھی اپنے عزائم خفیہ نہیں رکھے۔ وہ صاف کہا کرتے تھے کہ سوویت افواج کی واپسی کے بعد ہمارا افغان آپریشن ختم ہوجائے گا اور یہی ہوا۔ جب سوویت یونین نے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا عندیہ دیا‘ تو امریکہ نے مذاکرات کی تجویز پیش کر دی۔ جنرل ضیاء الحق مذاکرات میں یہ شرط رکھ رہے تھے کہ سوویت یونین افغانستان میں اپنی فوجوں کے انخلا میں کچھ تاخیر کرکے وہاں امن و امان کی صورتحال بہتر بنائے اور اس کے بعد فوجیں واپس بلائے۔ سوویت یونین نے امن وامان کی بحالی میں مدد دینے پر آمادگی تو ظاہر کر دی لیکن وہ جنرل ضیا کی شرطیں پوری کرنے پر تیار نہ ہوا۔ جنرل ضیاء چاہتے تھے کہ کابل کا انتظام ان کے حواریوں کے سپرد کیا جائے۔ سوویت یونین اس پر تیار نہ ہوا۔ امریکہ نے جونیجو حکومت کو امن معاہدے پر آمادہ کر لیا اورپاکستان کے وزیرخارجہ نے امن معاہدے پر دستخط کر دیئے اور سوویت یونین نے اپنی فوجیں نکالنا شروع کردیں۔ جنرل ضیاء کے مجاہدین افغانستان پر قبضہ کرنے کی خاطر اپنے ملک واپس چلے گئے اور انہوں نے کابل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ وہ کابل جو قابض سوویت افواج کے زیرقبضہ رہ کر پوری طرح آباد اور پررونق رہا تھا۔ مجاہدین کے لیے خالی کیا گیا تو انہوںـ نے اپنے وطن کے ہی دارالحکومت کو ایک دوسرے کے خلاف لڑتے ہوئے کھنڈرات میں بدل کر رکھ دیا۔ کابل کے یہ کھنڈرات آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ مجاہدین جب آپس کی لڑائی میں کسی کے بھی کنٹرول میں نہ رہے اور ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں ہلاک ہوگئے تو پاکستان کو اپنی پڑگئی اور اس نے طالبان کے نام سے ایک تنظیم کھڑی کرکے افغانستان پر کنٹرول قائم کرنے کی نئی جنگ شروع کر دی۔ شروع میں طالبان کی ساری فوجی کارروائیوں کی نگرانی پاک فوج کے افسروں نے کی۔(جاری ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved