تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     23-04-2022

جنوبی ایشیا پہ امریکی گرفت کمزور ہو گئی؟

افغانستان سے انخلا کے بعد عمران خان کی حکومت کا خاتمہ جنوبی ایشیا میں امریکی اثرات کو کم کرنے کا ذریعہ بنے گا ؟ بادی النظر میں لبرل ماڈریٹ اور مغرب سے مضبوط رشتہ داریوں میں بندھے ہونے کی وجہ سے عمران خان یورپ کے لیے جنوبی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کا مؤثر وسیلہ بن سکتے تھے، وہ خود بھی ہمیشہ مغرب کو اپنی کرشماتی شخصیت سے متاثر کرنے کے خواہشمند رہے ہیں۔ 2019ء میں جب سابق وزیراعظم نے پہلے دورۂ امریکا کے دوران صدر ٹرمپ سے قربت حاصل کی تو اسے ورلڈکپ جیتنے سے تشبیہ دیتے ہوئے اپنی اہم سفارتی کامیابی سے تعبیر کیا؛ اگرچہ جمہور کی حاکمیت کے بجائے استبدادی طرزِحکمرانی کی حوصلہ افزائی کی پالیسی دونوں کوسوٹ کرتی تھی کیونکہ خان صاحب خود بھی فطرتاً اسی فلسفہ سیاست کے قائل نکلے جس میں وہ پبلک مینڈیٹ کے جھنجھٹ اور پارلیمنٹ کو جوابدہ ہونے کے بجائے سعودی‘ چینی‘ ترکی کی طرح مطلق العنانی پہ مبنی طرزِ حکمرانی ہی کو پالیسیوں کے تسلسل اور معاشی ترقی کا زینہ سمجھتے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ سوچ اپنے سیاسی عزائم پہ پردہ ڈالنے کا معقول طریقہ ہو کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ خان صاحب بھی ذوالفقارعلی بھٹو کی طرح فل، کمپلیٹ اور ٹوٹل اختیارات چاہتے تھے تاکہ معاشرے میں گہری جڑیں رکھنے والی منجمد سماجی اقدار، انتہا پسندی اور اقلیتوں کے بارے میں پائی جانے والی عدم برداشت کو بہ آسانی ریگولیٹ کرکے مغربی طرز کی ایسی سماجی و سیاسی آزادیوں کی راہ ہموار کرسکیں جنہیں وہ خود بھی پسند کرتے ہیں۔
امریکا‘ جس نے سرد جنگ اور بعدازاں افغان جہاد کے دوران سوشلسٹ نظریات کی راہ روکنے کے لیے انتہا پسندی سے خوب فائدہ اٹھایا، اب یہاں ایسی سول سوسائٹی برپا کرنے کا متمنی ہے جس میں مذہبی اقدار اور مشرقی روایات کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں بچے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے بیس سالوں کے دوران پاکستان اورامریکا کے مابین پیدا ہونے والی خلیج بتدریج بڑھ رہی ہے، اس خلاء کو پُر کرنے کے لیے امریکی انتظامیہ عمران خان کی حکومت کو بہترین موقع سمجھتی تھی؛ چنانچہ یہ عین ممکن ہے کہ قبل از وقت اقتدار سے ہٹانے کی سکیم خان صاحب کو قومی سیاست کے مقبول مزاحمتی کردار کے طور پہ آگے بڑھانے کی منصوبہ بندی کا حصہ ہو، اس لیے مغربی میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا پہ عمران خان کو مقتدرہ اور مغرب مخالف لیڈر کے طور پہ ابھارا جا رہا ہے، جیسے دوہزار آٹھ سے دو ہزار اٹھارہ تک کے دس سالوں کے دوران ڈرون حملوں کے خلاف خان صاحب کی مہم اور سلالہ چیک پوسٹ پہ امریکی حملے کے خلاف خان صاحب کی طرف سے طورخم بارڈر پر امریکی سپلائی لائن بند کرنے کی مہم کو بھی مغربی میڈیا میں سراہا گیا تھا۔
2018ء میں بہت سوں کو امید تھی کہ شاید خان صاحب مغرب اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں کو کم کرکے اس روایتی تعلق کو دوبارہ جوڑ دیں جس کی جڑیں پونے تین سو سالوں کی وابستگی میں پیوست ہیں۔ ابتدا میں انہیں اداروں کی مکمل حمایت حاصل رہی لیکن ان پونے چار سال میں خان صاحب اس مملکت کو مغربی دنیا کے قریب لانے کے بجائے سخت ترین معاشی زوال کا شکار بنا بیٹھے۔ اشیائے خورونوش سمیت شہریوں کی بقا کے لیے درکار اشیا کی مہنگائی ریکارڈ بلندیوں کو چھونے لگی، بیروزگاری بڑھ گئی، قرضے اور مالیاتی خسارے میں اضافہ ہوتا گیا، اس پہ مستزاد ان کی بڑھتی ہوئی متنازع خارجہ پالیسی نے مقتدرہ کے ساتھ ان کے تعلقات کو کشیدہ کرکے کارِ مملکت کو بھی مفلوج بنا دیا۔ ریاستی مقتدرہ چین اور امریکا‘ دونوں کے ساتھ تعلقات میں توازن کو قومی سلامتی کے لیے اہم تصور کرتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ چین ہمارے سب سے بڑے حریف بھارت کے خلاف پاکستان کا طویل المدتی حلیف ہونے کے علاوہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں چینی سرمایہ کاری پاکستانی معیشت کے مستقبل کے لیے نہایت اہم ہے؛ تاہم وہ امریکا اور یورپ کی برآمدی منڈیوں کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کرتی لیکن خان صاحب کسی اور سمت جاتے نظر آئے۔ حالیہ ہفتوں میں انہوں نے اپنے ووٹروں کو امریکا مخالف جذبات سے سرشارکرکے اپنی مقبولیت کو بڑھانے کی خاطر امریکی قیادت پہ سازش کا الزام لگایا، ان کے اور ان کے حامیوں کے مطابق موجودہ پی ٹی ایم حکومت 'امپورٹڈ حکومت‘ ہے حالانکہ شہباز شریف تجربہ کار سیاست دان ہیں اورتین بار پنجاب جیسے بڑے صوبہ کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ ان کا بنیادی کام ایسے وقت میں ملک کو معاشی استحکام کی طرف لے جانا ہوگا جب عالمی معیشت کے لیے وسیع تر خطرات رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں لیکن سب سے بڑھ کر یہ نئی حکومت امریکا اور چین‘ دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے جیسے مشکل کام کرکے خارجہ پالیسی کو ''پرانے پاکستان‘‘ ماڈل کی طرف لوٹائے گی۔
امر واقع یہ ہے کہ جولائی 2019ء میں جب خان صاحب نے صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تو امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی پیشکش کرکے بظاہر بھارت کے اس اصرار کو مسترد کر دیا کہ کشمیر دو طرفہ تنازع ہے۔ اگرچہ عملاً اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا اور ٹرمپ کی پیشکش دل کو دلاسہ دینے والی آپٹکس کے سوا کچھ نہ تھی؛ چنانچہ امریکا میں انتظامیہ کی تبدیلی کے ساتھ ہی پاکستان کے بارے میں واشنگٹن کے رویے میں نہایت معنی خیز تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کے بعد خان صاحب نے بھی مغرب سے دور ہونے اور چین و روس کے قریب ہونا شروع کر دیا۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی چال تھی جس کا مقصد خان صاحب کو مغرب مخالف لیڈر کے طور پہ ابھارنا مقصود تھا کیونکہ پچھلے سال سے کئی مواقع پر خان صاحب نے امریکا پر تنقید کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کی شدت میں ہر خطاب کے ساتھ اضافہ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ گزشتہ سال جون میں عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ امریکا کو افغانستان میں انسدادِ دہشت گردی کے مشن کے لیے پاکستان میں افواج تعینات کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ پھر جب ان کی حکومت نے قومی اسمبلی میں مالیاتی بجٹ پیش کیا تو خان صاحب نے ایک بار پھر امریکا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جب پاکستان عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا اتحادی بنا تو انہیں ناگوار محسوس ہوا‘ جسے اس نے تاریخ کا سیاہ ترین دور قرار دیا حالانکہ صورت حال یہ تھی کہ انہوں نے پرویز مشرف کو صدر بنانے کے لیے کرائے گئے متنازع ریفرنڈم میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی انخلا کے دوران جب افغان طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا تو خان صاحب نے اسے غلامی کی بیڑیاں توڑنے سے تعبیر کیا تھا۔ ایک ماہ بعد‘ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں عمران خان نے ایک بار پھر امریکا پر کھل کے تنقید کی کہ افغانستان میں ناکامیوں کا الزام پاکستان پر دھرنے کے بجائے اسے پاکستان کی حمایت کو سراہنا چاہیے لیکن اب نئی حکومت کے وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل امریکا کے ساتھ تعلقات کی استواری میں صرف اس لیے سنجیدہ نہیں کہ انہیں امریکا و یورپی یونین کی برآمدی منڈیوں کی اشد ضرورت ہے بلکہ اس لیے بھی کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے علاوہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس جیسی بین الاقوامی تنظیموں پہ امریکا اثر ڈالنے کی پوزیشن رکھتا ہے، یعنی یہ مغرب کی آتشِ غضب کو ٹھنڈا رکھنے کی موہوم سی کوشش ہو گی۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا‘ وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ تک رسائی کے لیے مؤثر جغرافیائی وسیلہ ہے اس لیے کسی ایک جماعت یا لیڈر کی وجہ سے اس کی اہمیت کم نہیں ہو گی؛ البتہ اس کشمکش سے پیدا ہونے والا سیاسی عدم استحکام ضرور مضمرات کا حامل ہو گا۔ بہرحال نئی حکومت کی امریکہ کے ساتھ انگیج منٹ یہ واضح کرے گی کہ خراب تعلقات صرف خان صاحب کی وجہ سے تھے یا ریاستی سطح پر پائی جانے والی سردمہری اس تنازع کا اصل محرک تھی۔ پاکستان اور ریاست ہائے متحدہ کے مابین نئے تعلقات کار کی ابتدا ''ورلڈ کپ‘‘طرز کی فتح کے دعووں سے ہوئی تھی لیکن یہ کھیل عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ختم ہو گیا ہے۔ خان صاحب نے پاکستان سمیت پوری دنیا میں چین کے مثبت کردار کی تشہیر کی لیکن عملاً وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) منصوبے‘ جو پڑوسیوں کو باہم مربوط رکھنے کا ذریعہ تھا اور جسے پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ نواز نے استوار کیا تھا‘ کو بند کر بیٹھے۔ حسنِ اتفاق کہ اب وہی دونوںجماعتیں نئی حکومت میں شریکِ اقتدارہیں۔ تین بار کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے بھی چین سے براہِ راست معاہدے کیے۔ ان کی ساکھ بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبوں کے لیے گرانقدر سمجھی جاتی ہے، وفاق میں ان کی حکومت بیجنگ کے لیے خوشگوار پیغام ثابت ہو گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved