تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     24-04-2022

بروٹس کا خنجر

لفظ سازش اتنا ہی پرانا ہے جتنا انسان خود۔ اس لفظ کی مجھے کبھی سمجھ نہ آتی اگر لیہ کالج کے لان میں سردیوں کی دوپہروں میں پروفیسر غلام محمد (جی ایم صاحب) سے شیکسپئر کا ڈرامہ ''جولیس سیزر‘‘ نہ پڑھتا۔ جتنی محنت سے جی ایم صاحب نے 'جولیس سیزر‘ پڑھایا‘ مجھے کبھی لگتا ہے اگر خود شیکسپئر بھی ہمیں وہ ڈرامہ پڑھاتا تو اس طرح اس میں چھپی گہرائی اور انسانی نفسیات نہیں سمجھا سکتا تھا جیسے جی ایم صاحب نے لیہ کالج میں ہمیں سمجھائی۔
شاید 1989 کا سال تھا جب بی اے کی کلاس میں پہلی دفعہ دیگر مضامین کی طرح انگلش لٹریچر بھی آپشنل سبجیکٹ کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ بھکر سے تعلق رکھنے والے مہربان استاد پروفیسر ظفر حسین ظفر صاحب‘ جو ہمارے ہوسٹل وارڈن بھی تھے‘ نے مجھے بلا کر کہا: تم یہ مضمون رکھ لو‘ زندگی سنور جائے گی۔ میری زندگی بدلنے میں جن دو تین مشوروں کا بڑا ہاتھ ہے پروفیسر ظفر حسین ظفر صاحب کا یہ مشورہ ان میں سے ایک تھا۔ شروع میں تو دس بارہ لڑکوں نے انگلش لٹریچر کلاس جوائن کی‘ لیکن ایک ایک کرکے سب چھوڑ گئے کہ کون پہلے دو سو نمبروں کا لازمی انگریزی مضمون پڑھے اور پھر دو سو کا آپشنل انگریزی لٹریچر۔ آخر میں دو لڑکے ہی کلاس میں بچے تھے۔
ہمارے سرائیکی علاقوں میں انگریزی کو 33 فیصد نمبروں سے پاس کرنا ہی عظیم کامیابی سمجھا جاتا تھا۔ میرے جیسوں نے تو میٹرک تک انگریزی، فزکس، کیمسٹری، اردو سب کچھ سرائیکی زبان میں ہی پڑھا تھاکیونکہ استادوں کو یہی زبان آتی تھی۔ اردو یا انگریزی تو کالج میں جا کر پہلی دفعہ سنی۔ داد دیں لیہ کالج کے ہمارے لٹریچر کے استادوں کو‘ وہ ہم دو لڑکوں کو بھی اسی محنت اور محبت سے پڑھاتے جیسے وہ ایک سو طالب علموں کی کلاس پڑھا رہے ہوں۔ جی ایم صاحب اور شبیر نیّر صاحب کی اپنی کلاس تھی۔
مجھے ذاتی طور پر جولیس سیزر ڈرامہ کی کلاس کا انتظار رہتا۔ پڑھانے کا جی ایم صاحب کا انداز کمال کا تھا۔ وہ ڈرامے کے کرداروں میں ڈوب جاتے، کردار کو خود پر حاوی کرتے اور دھیمے انداز میں اس کردار کی خوبیاں خامیاں سمجھاتے۔ مجھے کبھی نہ لگا‘ وہ ہمیں پڑھا رہے ہیں۔ لگتا‘ قدیم بادشاہوں کے محلوں کی غلام گردشوں میں سازشوں کے جیتے جاگتے کرداروں کی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ لگتا‘ وہ سب قدیم کردار اس کلاس میں خود موجود ہیں اور اسی انہماک سے اپنے بارے خاموشی سے سب کچھ سن رہے ہیں‘ لیکن جی ایم صاحب کے رعب کی وجہ سے کچھ بولنے کی جرأت نہیں رکھتے۔
جی ایم صاحب ان کرداروں پر کمنٹری کرتے وقت اکثر افسردہ ہو جاتے۔ صاف نظر آرہا ہوتاکہ وہ کسی کردار کی کسی حرکت یا ڈائیلاگ سے خوش نہیں ہیں۔ ٹالسٹائی کے عظیم ناول 'وار اینڈ پیس‘ کے دو مرکزی کرداروں Natasha اور پرنس Pierre کی ایسی وضاحت کرتے کہ آپ کا دل کرتا‘ وہ بولتے رہیں‘ اپنے مخصوص دھیمے انداز میں اور آپ سنتے رہیں۔ یہ ناول میں نے چھٹیوں میں بہاولپور میں نعیم بھائی کے پاس 'عباس منزل‘ کے کمرہ نمبر19 میں مسلسل تین ماہ لگا کر ختم کیا تھا۔
'جولیس سیزر‘ ڈرامے سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ ایک عام سا لفظ 'سازش‘ اپنے اندر کتنی گہرائی رکھتا ہے۔ شیکسپئر کے ڈراموں میں اس لفظ کو بڑی اہمیت ہے کہ انسان کیسے ایک دوسرے کے خلاف سازش کرتے ہیں۔ حسد انسان سے کیا کچھ کراتا ہے اور انسان کس سطح پر جا گرتا ہے۔ پروفیسر جی ایم صاحب کو ہمیشہ 'جولیس سیزر‘ پڑھاتے ہوئے افسردہ دیکھا۔ وہ اس دکھ سے کبھی باہر نہ نکلے کہ بروٹس نے اپنے دوست سیزر کے خلاف کیوں سازش کی۔ وہ کیوں سازشیوں کی سازش میں شامل ہوگیا تھا۔
جی ایم صاحب ایک سادہ درویش ٹائپ انسان تھے۔ وہ ایک ہاتھ سے کتاب پکڑتے‘ دیکھ کر بولتے رہتے اور دوسرے ہاتھ کی انگلیاں اکثر وہ اپنے سوکھے ہونٹوں پر دھیرے دھیرے پھیرتے رہتے۔ ان کیلئے سب سے زیادہ تکلیف دہ وہ منظر تھا جب سیزر کو قتل کرنے کی سازش کا اصل کردار کیسیس‘ بروٹس کو گھیرنے کے منصوبے بنارہا تھا۔ کیسیس کو پتہ تھا جب تک وہ بروٹس کو ساتھ نہیں ملائے گا ایک تو سازش کامیاب نہیں ہوگی‘ دوسرے رومن اس قتل کو جائز نہیں سمجھیں گے‘ لہٰذا بروٹس کا ہر قیمت پر سیزر کے قتل میں شامل ہونا ضروری تھا۔ بروٹس کو اس پر قائل کرنا مشکل تھا۔ سیزر کا وہ قریبی دوست تھا اور سیزر اسے بہت عزیز رکھتا تھا۔ کوئی نہیں سوچ سکتا تھا کہ سیزر کے خلاف بروٹس سازش کرے گا‘ جسے وہ اپنا بیٹا سمجھتا تھا۔
لیکن انسانی مزاج کو جس خوبصورتی سے شیکسپئر نے اس ڈرامے میں پیش کیا ہے وہ کسی اور ڈرامے یا فکشن میں نہیں ملے گا۔ کیسیس کو علم تھا‘ بروٹس کو بانس پر چڑھا کر ہی اپنے مقاصد پورے کیے جا سکتے ہیں۔ بروٹس کے گھر مختلف خطوط رات کو جعلی ناموں سے لکھوا کر پھینکوانے شروع کیے‘ جن میں لکھا ہوتا: بروٹس روم تمہاری آنکھوں کے سامنے تباہ ہونے جارہا ہے۔ تمہارا دوست سیزر بہت جلد ایک ڈکٹیٹر بننے جارہا ہے۔ روم میں جمہوریت کو خطرہ ہے‘روم بچا لو یا اپنی دوستی۔ کیسیس کو پتہ تھا‘ روم بروٹس کی کمزوری ہے۔ کسی بھی بندے کو اس کی وطن سے محبت کوابھار کر‘ مرنے یا مارنے پر قائل کرنا ہمیشہ سے آسان رہا ہے۔ بروٹس کو بھی روم سے محبت کے نام پر بلیک میل کیا گیا تھاکہ وہ اپنے دوست کو قتل کرنے پر قائل ہوگیا۔ اسے روم اور اپنے دوست سیزر میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ بروٹس نے روم کا انتخاب کیا کیونکہ اس کا خیال تھا روم کا بچنا سیزر سے اہم ہے۔ میں نے اس ڈرامے سے دو تین باتیں سیکھیں کہ کسی بھی انسان کو خوشامد کے ذریعے فتح کیا جاسکتا ہے۔ اس بندے کی شان میں ایسی باتیں بتائیں کہ وہ خود کو سپر ہیرو سمجھنے لگے کہ اس کے بغیر نہ روم بچے گا‘ نہ ہی دنیا۔ ہر انسان اپنی ذات سے محبت کرتا ہے لیکن کچھ لوگ اپنی ذات سے زیادہ محبت کرتے ہیں‘ اور وہی اپنے ملکوں یا معاشروں کیلئے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔
اس ڈرامے کو پڑھے تیس برس سے زائد گزر گئے۔ سیزر پر بننے والی کئی فلمیں دیکھیں۔ بروٹس کے کردار کو سکرین پر کئی دفعہ دیکھا اور ہر دفعہ میری آنکھوں کے سامنے پروفیسر جی ایم صاحب آن کھڑے ہوئے‘ جو بڑے معصومانہ انداز میں جولیس سیزر پڑھاتے پڑھاتے افسردہ ہو جاتے تھے۔ پوچھتے: چلیں کیسیس کی سمجھ آتی ہے‘ وہ حسد کا شکار ہوگیا تھا۔ اسے سیزر زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا اور اسے اس بات کا دکھ تھاکہ اس نے ایک دفعہ سیزر کو پانی میں ڈوبنے سے بچایا تھا؛ تاہم سیزر کبھی شکرگزار نہ ہوا‘ لیکن بروٹس کے ساتھ تو سیزر اچھا رویہ رکھتا تھا‘ پھر وہ کیوں سازش میں شامل ہوا؟
اس سے مجھے یہ بھی سبق ملا کہ جن لوگوں نے آپ پر احسانات کیے ہوتے ہیں انہیں کبھی نہ بھولیں۔ سیزر کو بھی اس کی چھٹی حس بتا چکی تھی کہ کیسیس اس کے خلاف کارروائی کرے گا۔ ایک دن مارک انتھونی کے ساتھ جاتے ہوئے اس نے کیسیس کو دیکھا تو رک کر اسے کہا: مجھے اس بندے سے عجیب سی فیلنگز آتی ہیں۔ یہ تمہاری طرح کھیل کود کا شوقین نہیں ہے۔ یہ زیادہ تر سنجیدہ رہتا ہے۔ منہ کھول کر پورا قہقہہ نہیں لگاتا۔ ایسے لوگوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے لوگوں سے خبردار رہنا چاہیے۔
پروفیسر جی ایم صاحب کو عمر بھرافسوس رہا کہ پورا روم سیزر کے خلاف ہوجاتا لیکن بروٹس کو تو اس سازش میں شریک نہیں ہونا چاہیے تھا‘ لیکن سیزر جیسے بعض حکمران اپنے تکبر، غرور اور طاقت کے اندھے استعمال سے دوسروں کوڈرا دیتے ہیں۔ خبطِ عظمت کا شکار ہوتے ہیں۔ پھر روم کو بچانے کے لیے انہیں منظر سے ہٹانا پڑتا ہے اور یہ کام آپ کو اپنے بچوں کی طرح عزیز بروٹس کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے۔ شکر کریں ہزاروں سالوں میں اتنا فرق تو پڑا ہے کہ اب منظر سے ہٹانے کے لیے بروٹس کے خنجر کے بجائے پارلیمنٹ کے اندر ووٹ استعمال کیے جاتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved