جمہوریت اور نظریے کی آخری فتح
تک لڑتا رہوں گا: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''جمہوریت اور نظریے کی آخری فتح تک لڑتا رہوں گا‘‘ جس کیلئے عدالت میں حسبِ وعدہ پیش ہونا ضروری نہیں کیونکہ اس کی ضمانت شہباز شریف نے دی تھی، اب وہ جانے اور اس کا کام جبکہ ویسے بھی جمہوریت اور نظریہ الگ الگ چیزیں ہیں ورنہ خود ضمانت پر ہوتے ہوئے وہ وزیراعظم نہ بن سکتے، جبکہ فرد جرم کو تو ویسے بھی دو سال سے ٹالتے چلے آ رہے تھے کہ میری طرح ذہین آدمی ہیں۔ آپ اگلے روز لندن میں دعوتِ افطار سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران خان کی اسلام آباد کی کال
جھاڑو پھیر دے گی: شیخ رشید
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور تحریک انصاف کے اتحادی شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''عمران خان کی اسلام آباد کی کال جھاڑو پھیر دے گی‘‘ کیونکہ اس جلسے میں شامل ہونے والے ہر فرد سے کہا جائے گا کہ وہ جھاڑو ساتھ لے کر آئے تاکہ جہاں جہاں سے وہ گزریں صفائی ہوتی جائے کیونکہ صفائی نصف ایمان ہے اور حکومت جانے کے بعد اس پر عمل کیوں نہ کر لیا جائے جبکہ ہم ان افراد کو موقع پر خود بھی جھاڑو فراہم کردیں گے جو اپنے ساتھ نہیں لا سکے ہوں گے کیونکہ اگر صفائی ستھرائی کا کام ہی جاری رکھا جا سکے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ آپ اگلے روز ٹوئٹر پر ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
مراسلے کا معاملہ عدالت میں لے
جانے کی ضرورت نہیں: حنا ربانی کھر
وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ ''مراسلے کا معاملہ عدالت میں لے جانے کی ضرورت نہیں‘‘ کیونکہ کچھ چیزیں پردے میں ہی رہنی چاہئیں، خاص طور پر جن سے کسی بیرونی طاقت سے تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ ہواور یہی ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد بھی ہے اور اگر یہ بھی کہا گیا ہو کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے پر ہم پاکستان کو معاف کر دیں گے تو یہ بھی اس کی عین فیاضی ہے البتہ یہ معلوم کرنا ابھی باقی ہے کہ انہوں نے ہمیں معاف کر دیا ہے یا نہیں اور اگر وہ کچھ اور کرنے کا مطالبہ کریں تو ہم اس پر بھی پوری طرح عمل کریں گے کیونکہ یہی ہماری خارجہ پالیسی کا سنگِ بنیاد ہے جس سے ہمیں انحراف نہیں کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
سالک نے میری اجازت سے شہباز شریف
کو ووٹ دیا: شجاعت حسین
(ق) لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ''سالک نے میری اجازت سے شہباز شریف کو ووٹ دیا‘‘ کیونکہ میری اجازت سے پہلے بھی اس کی نیت کچھ ایسی ہی تھی اور اگر میں اجازت نہ بھی دیتا تو اس نے شہباز شریف کو ووٹ دے ہی دینا تھا، اس لئے میں نے اسے کہا کہ تم اچھا تو نہیں کر رہے کیونکہ ابھی اگلے روز اُن کے لوگوں نے تمہارے چچا کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے لیکن اس نے جواب دیا کہ (ن) لیگ والے پہلے ہی انہیں وزیراعلیٰ بنوا رہے تھے اور ہم نے اس پر رضامندی کا اظہار بھی کر دیا تھا لیکن بعد میں چچا جان کی نیت بدل گئی اور ہوں نے راتوں رات اپنا فیصلہ تبدیل کر لیا۔ آپ اگلے روز وزیراعظم کی مبارکباد کا جواب دے رہے تھے۔
اور، اب ڈاکٹر ابرار احمد کی یہ نظم:
آگے بڑھنے والے
آگے بڑھنے والے /بدن کو کپڑوں پر اوڑھتے /اور چھریاں تیز کر کے نکلتے ہیں /بھیڑ کو چیر کر راستہ بناتے / ناخنوں سے نوچ لیتے ہیں /لباس اور عزتیں/سرخ مرچوں سے ہر آنکھ کو اندھا کر دیتے ہیں /اور بڑھ جاتے ہیں / رعونت بھری مسکراہٹ کے ساتھ /چیختے اور چپ کرا دیتے ہیں /سر عام رقص کرتے ہیں /اور گاڑیاں ٹکرا جاتی ہیں / لڑکے لڑ پڑتے /مرد، پتلونیں کس لیتے /اور بوڑھے، تمباکو میں /گڑ کی مقدار بڑھا دیتے ہیں /کوئی میز ان کے سامنے جما نہیں رہ سکتا /اور کوئی محفل /ان کا داخلہ روک نہیں سکتی / وہ ٹھوکر سے دروازہ کھولتے ہیں /اور ہر کرسی ان کے لیے خالی ہو جاتی ہے /ان کے دبدبے سے /دیواروں کے پلستر اکھڑ جاتا ہے /کاغذ، شور کرنا بھول جاتے ہیں /اور موسم، ارادہ تبدیل کر لیتے ہیں /آگے بڑھنے والوں سے پناہ مانگتے ہیں /ان کے ساتھ ڈرتے ہیں /زمین پر جھک کر چلنے والے / بوجھل خاموشی سے انہیں دیکھتے /اور گزر جاتے ہیں /آگے بڑھنے والے نہیں جانتے /کہ آگے بڑھا جا ہی نہیں سکتا / پھر بھی وہ بڑھتے ہیں /پہنچ کر دم لیتے ہیں /بے حیائی کی شدت آنکھوں میں /موتیا اترنے کی رفتار تیز کر دیتی ہے / ہر تنے کی چھال /بدن پر ان مٹ خراشیں چھوڑ جاتی ہے / پھٹکری اور ویزلین سے چکنایا ہوا ماس /ہڈیوں سے ہمیشہ جڑا نہیں رہ سکتا /ہر بدن اور ہر کرسی کی ایک عمر ہوا کرتی ہے / اور پھر ہم انہیں دیکھ سکتے ہیں ایک دن /لپٹے ہوئے لباس میں خلا کو گھورتے ہوئے /کسی نیم تاریک نشیب میں/پر کٹے پرندے کی طرح /مٹی پر لوٹتے ہوئے /آگے بڑھنے کی پیہم کوشش میں
آج کا مقطع
ظفرؔ اب کے سخن کی سر زمیں پر ہے یہ موسم
بیاں غائب ہے اور رنگِ بیاں پھیلا ہوا ہے