تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے سے قبل قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد کیا گیا جس میں امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر کی جانب سے بھیجے گئے مراسلے کی اہمیت کا اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی۔ عوامی حلقوں میں کسی نے اس مراسلے کو سازش کہا اور کسی نے مداخلت قرار دیا ۔ پاکستان کی سیاست آجکل اسی مراسلے کے گرد گھوم رہی ہے۔ اس میں کیا الفاظ استعمال کئے گئے اس بارے یقین سے کچھ کہنا فی الحال ممکن نہیں لیکن میرے خیال میں اس خط کے حقیقی الفاظ اب شاید بے معنی ہو گئے ہیں کیونکہ عمران خان اس خط کو مدعا بنا کر جو مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے وہ ممکنہ طور پر پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس خط کے ذکر سے پہلے تحریک انصاف شدید تنقید کی زد میں تھی۔ مہنگائی اور معاشی عدم استحکام کے باعث تحریک انصاف کے لیے عوامی حلقوں کا سامنا کرنا تقریباً ناممکن دکھائی دے رہا تھااور آصف زرداری صاحب کی وہ تقریر درست ہوتی دکھائی دے رہی تھی کہ حکومت کو ہم نہیں گرائیں گے بلکہ یہ خود ہی اپنے بوجھ سے گر جائے گی۔ ایک ماہ پہلے تک یہ دعویٰ درست دکھائی دیتا تھا‘لیکن مذکورہ خط کا معاملہ اٹھنے کے بعد حالات 180 کے زاویے سے مڑتے دکھائی دیے اور مہنگائی کا شکوہ آزادی کے نعرے میں بدلتا محسوس ہوا۔ ممکنہ طور پر سپریم کورٹ کی مداخلت کے بغیر وفاق میں شاید ابھی بھی معاملات تعطل کا شکار ہوتے اور آئینی بحران بھی عجب صورتحال اختیار کر چکا ہوتا۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو گا کہ جس طرح مخالفین تحریک انصاف کو گھر بھیجنا چاہتے تھے اس میں شاید انہیں مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ ممکنہ طور پر موجودہ حکومت اس کا ذمہ دار خط کو سمجھتی ہے۔ شاید اسی لیے کابینہ بنتے ہی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ بلایا گیا اور اس میں امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید سے ان کے اس خط بارے استفسار کیا گیا۔ سرکاری اعلامیے کے مطابق اس میں سازش کے ثبوت نہیں ملے لیکن شاہ محمود قریشی سمیت تحریک انصاف کے سرکردہ ارکان کا دعویٰ ہے کہ سابق سفیر نے تحریک انصاف کے موقف کی حمایت کی ہے‘ تاہم اس بارے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ شاید بہت سی پرتوں کا کھلنا ابھی باقی ہے۔ لیکن ایک بات شاید زیادہ یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ خط کے جعلی ہونے کا دعویٰ اب ماند پڑتا دکھائی دیتا ہے۔ حکومت کی جانب سے بھی خط کے غیر حقیقی ہونے پر زیادہ اصرار دکھائی نہیں دے رہا۔ حنا ربانی کھر نے یہ ضرور کہا ہے کہ اگر دھمکی آمیز خط ملا تھا تو اُس وقت احتجاج کیوں نہیں کیا گیا؟ لیکن انہوں نے یہ نہیں کہا کہ خط جعلی ہے یا اسے تبدیل کیا گیا ہے۔
بظاہر حکومت پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے تا کہ مخالفین کو کوئی نئی لائن نہ مل جائے لیکن کابینہ کی تشکیل میں شاید مطلوبہ احتیاط نہیں برتی گئی ۔ ارکان ِ کابینہ کی اکثریت پر کرپشن اور آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزامات ہیں۔ گو کہ یہ ابھی محض الزامات ہیں جرائم ثابت نہیں ہوئے ‘لیکن اخلاقیات کا تقاضا یہی ہے کہ جن لوگوں پر الزامات ہوں انہیں کابینہ میں شامل نہ کیا جائے۔ عام پاکستانی کے لیے ایسی صورتحال کا سامنا کرنا مشکل ہو سکتا ہے خصوصا ًبیرون ملک مقیم پاکستانی اس معاملے پر زیادہ تشویش زدہ دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ دوسرے ممالک کے باشندوں کے درمیان رہ کر ایسے سیاستدانوں کا دفاع کرنا شاید ان پاکستانیوں کے بس میں نہ ہو۔ اس کے علاوہ وزراتوں کے انتخاب میں بھی شاید مطلوبہ احتیاط نہیں برتی گئی۔ اکثر وزارتیں تقسیم ہوتی دکھائی دیں۔ مہذب معاشروں میں ایسے فیصلوں کو عوام کو اذیت دینے کی نظر سے دیکھا جا سکتا ہے۔ موجودہ دور میں حکومت کے فیصلے عوامی رائے کی ترجمانی کرتے دکھائی دیں تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ عوام کا مزاج اور صحیح‘ غلط کا معیار بدل رہا ہے۔ شاید پرانے فارمولے اب کامیاب نہ ہو سکیں۔
ایک طرف سرکار کو اخلاقی معیار پر پورا اترنے کی ضرورت ہے اور دوسری طرف معاشی میدان میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا وقت کی اہم ضرورت محسوس ہو تا ہے۔موجودہ مالی سال کے پہلے نو ماہ میں تحریک انصاف کی جانب سے لیے گئے قرضوں کا حجم 15 بلین ڈالرز سے زیادہ ہے۔ جس میں سے تقریباً ساڑھے تیرہ بلین ڈالرز دوست ملکوں اور مالیاتی اداروں سے لئے گئے ہیں اور تقریبا ًڈیڑھ بلین ڈالر بیرون ملک پاکستانیوں سے ۔ یہ قرض کی نئی قسم ہے جس میں مبینہ طور مہنگا ترین قرض لیا گیا ہے۔ قرض تو لے لیا لیکن اس کو ادا کیسے کرنا ہے‘ اس بارے میں پالیسی دکھائی نہیں دیتی۔ پچھلی حکومت نے پونے چار سال میں کل57 ارب ڈالرز قرض لیا۔ 26 ارب ڈالرز پچھلے قرضوں کی واپسی میں استعمال ہوا اور31 ارب ڈالرز بجٹ خسارہ پورا کرنے اور ایکسچینج ریٹ کو مینج کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ۔ مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لیے امریکہ گئے ہیں لیکن وہ وہاں بھی معیشت سے زیادہ سیاست میں دلچسپی دکھا ر ہے ہیں۔ ٹوئٹر پر مفتاح اسماعیل اور شوکت ترین صاحب معاشی کارکردگی کو مدعا بنا کر ایک دوسرے پر تنقید کرتے دکھائی دیے‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نمبرز بنانے کا وقت ہے یا ملک بچانے کا وقت ہے؟ پچھلی حکومتوں کو کوسنا پرانا و تیرا ہے۔ عوام مفتاح اسماعیل سے یہ جاننے کے خواہاں ہیں کہ ان کے پاس کوئی بہتر معاشی منصوبہ بندی ہے یا پھر انہوں نے بھی قرض لینے کے نئے ریکارڈ قائم کرنے اور مہنگائی کو مزید بڑھانے کا ارادہ کر رکھا ہے؟
اس کے علاوہ پاکستان جس خطے میں آباد ہے اس کی جغرافیائی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مثبت فیصلے دیرپا خوشحالی کے ضامن ہو سکتے ہیں لیکن ایک غلط فیصلہ کئی نئے مسائل کو جنم دینے کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ یوکرین روس جنگ میں پاکستان کی پوزیشن واضح ہے لیکن امریکہ کی جانب سے چین پر بڑھتا ہوا دباؤ پاکستان کو مشکل میں ڈال سکتا ہے۔ چین نے بیان دیا ہے کہ یوکرین روس کی جنگ میں امریکہ چین کو دباؤ میں لانے کی کوشش نہ کرے۔ شاید امریکہ نے ممکنہ خطرے کو بھانپ لیا ہے۔ اس وقت امریکی ڈالر کو خطرات لاحق ہیں کیونکہ روس اور چین باہمی تجارت مقامی کرنسی میں کر رہے ہیں‘ ایران بھی مقامی کرنسی میں تیل فروخت کرنے کا اعلان کر چکاہے جبکہ روس نے گیس اور تیل کی برآمدات اپنی کرنسی روبل میں کرنے کی شرائط عائد کررکھی ہیں اور اطلاعات کے مطابق روس نے ڈالر کے بجائے روبل میں تیل کی خریداری کرنے پر پاکستان کو عالمی مارکیٹ سے 25 فیصد کم ریٹ پر تیل دینے کی آفر کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ 2011ء میں آصف علی زرداری نے چین کے ساتھ یوآن میں تجارت کرنے کے معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔وفاقی حکومت میں پیپلز پارٹی کی شمولیت کے بعد یہ سرگوشیاں کی جا رہی ہیں کہ پاکستان چین کے ساتھ ڈالر کے بجائے یوآن میں تجارت کر سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے ۔ یاد رہے کہ بھارت کسی بھی طرح معاشی طور پر امریکہ اور آئی ایم ایف کے چنگل میں نہیں پھنسا ہے۔ اس پر ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہونے کا دباؤ بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ امریکہ کو ناراض کرنے کا رسک نہیں لے رہا‘اگرچہ وہ اپنے تعلقات میں اپنے معاشی مفادات کو ترجیح ضرور دے رہاہے اور امریکی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے روس سے تیل بھی خرید رہا ہے اور دفاعی آلات بھی۔بھارت کے برعکس پاکستان کو خوف دلایا جاتا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف اورفیٹف جیسے مسائل درپیش ہیں اور پاکستان کے بیرونی قرضوں کا 70فیصد امریکی نواز اداروں کے مرہون منت ہے۔