وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے پاکستان اور بھارت کے مابین قیام امن کے لیے تازہ بیانات اور اقدامات کے باوجود جوہری اسلحے سے لیس دونوں ہمسایہ ملک ایک ایسے پیچیدہ جامے میں اکٹھے جکڑے ہوئے ہیں کہ دونوں کے رخ مخالف سمتوں میں ہیں اور وہ ایک دوسرے پر بری طرح چیخ رہے ہیں‘ مگر جدا نہیں ہوسکتے۔ آج پوری دنیا میں صرف یہی دو ملک جنگ آزمائی اور پیہم صف آرا رہنے سے درماندہ نہیں ہوئے۔ اور آج بھی پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بریک تھرو کے امکانات ہمیشہ کی طرح موہوم ہیں۔ پاکستان- بھارت تعلقات کی مشکل اور پیچیدہ نوعیت کے پیش نظر پال آکٹوپس بھی دونوں ملکوں کے درمیان ڈیڈ لاک کی ہی پیشگوئی کرتا ہے۔ (آکٹوپس یا ہشت پا ایک سمندری مخلوق ہے۔ پال اس آکٹوپس کا نام ہے جو جرمنی میں فٹ بال میچ جیتنے کی پیشگوئی کرتا تھا۔ 2010ء کے ورلڈ کپ کی درست پیشگوئی کرنے پر اسے عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ یہ اکتوبر 2010ء میں مر گیا تھا)۔ اس صورتحال کو بھارت کے اس خبط نے مزید ابتر کیا کہ پاکستان کو اس امر کا مورد الزام ٹھہرا کر مسلسل دبائو میں رکھا جائے کہ سرحد کے اس طرف یا لائن آف کنٹرول کے اس پار مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کا ذمہ دار پاکستان ہوتا ہے۔ بھارت نائن الیون کے بعد سے پاکستان کے خلاف یہ حربہ استعمال کرتا چلا آرہا ہے۔ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پیدا ہونے والی فضا سے خوب فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے اپنے حکمرانوں کا معذرت خواہانہ رویہ بھی بھارت کے ناپاک پروپیگنڈے کو تقویت پہنچانے کا باعث ہے۔ نائن الیون کے سانحہ کے بعد جب امریکہ غضبناک ہو کر افغانستان کے خلاف فوجی کارروائی کررہا تھا، بھارت نے تیزی سے‘ اُوپر تلے‘ دو اندوہناک واقعات کا ڈرامہ رچایا… پہلے یکم اکتوبر 2001ء کو کشمیر کی ریاستی اسمبلی پر اور 13دسمبر 2001ء کو نئی دلّی میں بھارتی پارلیمنٹ کی عمارت پر حملے کروا کے جنگی جنون پیدا کیا۔ اس نے کوئی تحقیقات کرائے یا ثبوت فراہم کیے بغیر ان حملوں کا الزام پاکستان پر عائد کردیا۔ اس نے نہ صرف لائن آف کنٹرول کے اِس طرف پاکستانی چیک پوسٹوں پر گولہ باری کی بلکہ اپنی تمام مسلح افواج کو پاکستان کی مشرقی سرحد اور لائن آف کنٹرول کے ساتھ متعین کردیا۔ دونوں ملک تصادم کے لیے صف آرا ہوگئے۔ آخر بڑی طاقتوں کے شدید دبائو کام آیا اور جوہری ہتھیاروں سے لیس دو ہمسایوں کے مابین المناک جنگ ٹل گئی۔ تب سے بھارت اپنے ملک میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے ہر واقعے میں پاکستان کو ملوث کرتا چلا آرہا ہے۔ انہی الزامات کی آڑ میں اس نے امن مذاکرات کو بھی پاک بھارت معاملات کو نئی شکل دینے کی پالیسی کی بھینٹ چڑھا رکھا ہے۔ اس نے جولائی 2006ء میں کابل میں بھارتی سفارت خانے پر اور 26نومبر 2008ء کو ممبئی حملوں کا الزام پاکستان پر عائد کردیا تھا۔ حال ہی میں بھارت کے سینئر حکام نے انکشاف کیا ہے کہ یہ حملے بھارت نے اپنے مذموم عزائم کی خاطر خود کرائے تھے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر اُس موقع پر ’’دہشت گردی‘‘ کا ڈرامہ رچا کر پاکستان کو موردالزام ٹھہرایا جاتا رہا جب امریکہ کی کسی اعلیٰ شخصیت کو اس خطے کے دورے پر آنا ہوتا تھا۔ مارچ 2000ء میں مقبوضہ کشمیر کے علاقہ چٹی سنگھ پورہ میں سکھوں کے قتل عام کا الزام پاکستان پر لگا کر صدر کلنٹن کے دورے کو خراب کیا گیا۔ لیکن امریکہ نے بھارتی الزامات کو کبھی درست تسلیم نہیں کیا۔ 2006ء میں سابق امریکی وزیرخارجہ میڈلین البرائٹ کی کتاب \"Mighty and the Almighty\"کے تعارف میں کلنٹن نے دہشت گردی کے واقعات کا ذمہ دار ’’ہندو جنگجوئوں‘‘ کو قرار دیا تھا۔ افسوس کہ نومبر 2008ء کے ممبئی حملوں کے وقت سے پاک بھارت جامع مذاکرات زیادہ تر معطل رہے۔ 2008ء کے وسط میں جب کشمیریوں کی تحریک آزادی عروج پر تھی اور اس کی بدولت مسئلہ کشمیر تیزی سے عالمی توجہ حاصل کرنے لگا تھا‘ بھارت نے ملک میں ہونے والے مذکورہ دہشت گرد حملوں سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کا زور توڑ دیا۔ اس وقت صدر اوباما نے اپنی پہلی صدارتی مدت کے لیے انتخابی مہم کے دوران ایک عام اجتماع میں مسئلہ کشمیر کے جلد حل کی ضرورت کو تسلیم کیا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ممبئی حملوں کے بعد ان کی لغت سے \"K\" کا حرف ہی غائب ہوگیا۔ اس طرح نومبر 2008ء کے ممبئی حملوں سے نہ صرف کشمیریوں کی تحریک آزادی دفعتاً ختم ہوگئی بلکہ اوباما کی اس خطے پر وسیع پالیسی سے بھی کشمیر خارج ہوگیا۔ جس کسی نے بھی یہ واردات کی، اس کا پہلا شکار مسئلہ کشمیر بنا۔ اُس وقت سے بھارت نے ایک ایسے ’’گناہ‘‘ کی پاداش میں پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کر رکھا ہے جو اس سے سرزد ہی نہیں ہوا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بھارت ہماری اندرونی کمزوریوں سے بھی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ آج کی دنیا دہشت گردی کے بارے میں بہت حساس ہوچکی ہے‘ لہٰذا اس عالمی تشویش سے فائدہ اٹھانے کا اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ ’’پاکستان کی زیرسرپرستی دہشت گردی‘‘ کے نام نہاد ایشو پر امریکہ سمیت دنیا بھر کو ہمدردی ہے۔ بھارت اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جارحیت کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے۔ اس کے حساب سے یہی وہ وقت ہے جب پاکستان پر اتنا دبائو ڈالا جائے کہ وہ مسئلہ کشمیر سے دست بردار ہو جائے۔ جلال آباد (افغانستان) میں بھارتی قونصل خانے پر حالیہ خودکش حملے اور لائن آف کنٹرول پر مبینہ واقعات کے بارے میں بھارتی لیڈروں کے حالیہ متضاد بیانات بھی اسی مہم کی کڑی معلوم ہوتے ہیں‘ خاص طور پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے دورہ اسلام آباد کے بعد اس پروپیگنڈے میں تیزی آ گئی ہے۔ سرحدی کشیدگی گزشتہ ہفتے اُس وقت بڑھ گئی جب دونوں طرف سے ایک دوسرے پر لائن آف کنٹرول پر ’’بلا اشتعال‘‘ فائرنگ کے الزامات عائد کیے گئے۔ گزشتہ ہفتے پاکستان نے شکایت کی کہ بھارتی فوجیوں نے کشمیر میں ’’بلا اشتعال‘‘ فائرنگ کر کے ایک پاکستانی فوجی کو شہید کردیا۔ اُدھر بھارت کی طرف سے مختلف متضاد بیانات میں الزام لگایا گیا کہ پاکستان نے لائن آف کنٹرول سے فائرنگ کر کے اس کے پانچ فوجیوں کو ہلاک کیا ہے۔ پاکستان نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی۔ دراصل بھارت‘ امریکہ کے ساتھ سٹریٹیجک پارٹنر شپ کی بدولت افغانستان میں ایسا اثرو رسوخ حاصل کر چکا ہے جس کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ وہ اس اثرو رسوخ کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتے ہوئے چاہتا ہے کہ اس کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو اس کی مرضی کی ایک نئی شکل دی جائے۔ افغانستان کے دو شہروں‘ قندھار اور جلال آباد میں قونصل خانوں کے ذریعے پاکستان میں بھارت کی دخل اندازی میں امریکی ہمنوائی ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔ امریکہ کے خصوصی ایلچی جیمز ڈبنز نے حال ہی میں تسلیم کیا ہے کہ اگرچہ افغانستان میں نئی دہلی کی موجودگی پر اسلام آباد کی تشویش مبالغہ آمیز ہے لیکن یہ بے بنیاد نہیں۔ اس سے قبل امریکی وزیر دفاع چک ہیگل بھی انہی خدشات کا اظہار کر چکے ہیں۔ پاکستان عرصہ دراز سے شکایت کر رہا ہے کہ بھارت افغانستان میں اپنے قونصل خانوں کے ذریعے پاکستان میں تخریبی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ اب جبکہ کشمیر میں سرحدی جھڑپوں پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تندو تیز بیانات کا تبادلہ ہو رہا ہے‘ واشنگٹن نے دونوں ملکوں سے تحمل سے کام لینے اور مذاکرات بحال کرنے کے لیے کہا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے توقع ظاہر کی ہے کہ بھارت صورت حال کو بے قابو نہیں ہونے دے گا۔ اس ہفتے پاکستان میں بھی بڑی خونریزی ہوئی اور لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ وزیراعظم دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکارے کے لیے موثر حکمت عملی کا اعلان کریں۔ انہیں چاہیے تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان معمول کی کشیدگی پر غور کرنے کے لیے کئی گھنٹے دفتر خارجہ میں صرف کرنے کی بجائے انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی کو حتمی شکل دینے پر اس سے بھی زیادہ وقت لگاتے۔ بھارت کے ساتھ قیام امن سے متعلق ان کی خواہش قابل فہم ہے لیکن اس کے ساتھ باوقار طریقے سے امن مذاکرات شروع کرنے کے لیے لازم ہے کہ پہلے‘ خود ان کا اپنا ملک‘ پُرامن ہو۔ ان کی پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ملک میں حکومت کی عملداری قائم ہو۔ ادھر کشمیر میں کشمیری عوام ایک بار پھر پاکستانی پرچم اٹھا کر سڑکوں پر پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرتے ہوئے بھارتی مظالم کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ پاکستان کا یومِ آزادی ایسا موقع ہے جس پر ہمارے عوام اور حکمرانوں کو کشمیریوں کے ناقابل تردید حقِ خودارادیت کی حمایت کا ازسر نو عہد کرنا چاہیے۔ یہ ہماری اخلاقی‘ قانونی اور سیاسی ذمہ داری ہے۔ جب تک کشمیر بھارتی تسلط میں رہے گا‘ جنوبی ایشیاء میں قیامِ امن کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔ امن کی بھاشا کے بغیر‘ امن کی آشا‘ امن کی ’نراشا‘ ہی رہے گی۔ (کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved