تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     25-04-2022

سب گھبرائے ہوئے ہیں!

ہمارا خیال تھا کہ تیرہ جماعتیں جب ایک نکتے پر ایک ہو گئیں کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کو اقتدار سے کیسے محروم کیا جائے اور ان کو کامیابی سامنے روزِ روشن کی طرح نظر آنے لگی تو ان کی گھبراہٹ ختم ہو جائے گی‘ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ اکٹھا ہونے کی پہلی اورآخری وجہ عمران خان کی حکومت کو گرا کر اقتدار کو واپس ان ہاتھوں میں دینا تھا‘ جو چالیس سال سے اسے اپنا خاندانی استحقاق سمجھتے ہیں۔ اب تو پچیس سال ہونے کو ہیں‘ کپتان نے بس ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ پاکستان کو موروثیوں اور ان کی کرپشن سے آزادکرانا ہے۔ وہ جن القابات سے ہمارے معزز اکابرین کو بھرے جلسوں بلکہ عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندرکے سامنے نوازتے ہیں‘ ہم دہرانے سے بھی خوف کھاتے ہیں۔ ان کی تو صرف حکومت کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا‘ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کرسی کھو بیٹھے‘ ہمیں تو اپنی جان کی امان کی فکر رہتی ہے۔ اقتدار میں رہے تو روزانہ انہی القابات کو دہراتے رہے۔ ملک کے کسی کونے میں جلسہ ہو‘ یا بیرونِ ملک‘ تکرار مگر ایک ہی تھی کہ ''چوروں‘ ڈاکوئوں اور لٹیروں‘‘ کو وہ چھوڑیں گے نہیں۔ مگر ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ عدالتیں آزاد‘ جب چاہیں کھلیں‘ جب چاہیں دروازے بند کر لیں۔ کوئی وزیر اعظم نظام عدل کی آزادی میں بھلا کیسے مداخلت کر سکتا ہے۔ نوکر شاہی اپنی پُرانی ڈگر پر چلتی ہے۔ وہ کیسے کسی نئی سوچ یا کسی نئے منشور کی حمایت کر سکتی ہے۔ تفتیشی ادارے ہوں یا دیگر سرکاری محکمے‘ وہ اب اتنا مفلوج ہو چکے ہیں کہ وزیر اعظم صرف ان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ تبدیلی کر سکتا ہے‘ مگر کام نہیں کروا سکتا۔ اس کے باوجود موروثیوں کو عمران خان سے خطرہ تھا کہ وہ کہیں زیادہ طاقتور ہو کر نہ ابھریں اور ان کی خاندانی بادشاہتیں اپنے انجام کو نہ پہنچ جائیں۔ گھبرائے تو وہ شروع سے ہی ہوئے تھے مگر موقع نہیں مل رہا تھا۔ ہم تو درویش لوگ ہیں‘ سنی سنائی باتوں پر ہرگز یقین نہیں کرتے‘ مگر جو مناظر پہاڑوں کی چوٹیوں اور صحرائوں کا سینہ چیر کر عوام کو متوجہ کر رہے ہیں‘ وہ حریف حکمران ٹولوں کے درمیان اچانک محبت کے عہد و پیمان باندھنے کے ہیں۔ آپ جو بھی تصور کر لیں‘ یا آپ کا ذہن کسی کی طرف جائے تو جاتا رہے‘ ہم تو سیاستِ پاکستانی‘ کے زریں اصولوں میں سے صرف ایک کا حوالہ دے سکتے ہیں کہ مشترکہ دشمن طاقت ور ہو تو سب اختلافات بھلا کر اکٹھے ہو جانے میں بہتری ہے‘ اور پھر بھی کام نہ بنے تو ارد گرد سے مدد لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
کپتان کی حکومت کمزور تھی۔ بڑی پارٹی‘ مگر اپنی اکثریت نہیں تھی۔ مدد ان کو بھی وہیں سے ملی‘ جہاں سے موروثی بار بار فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔ کہتے تو سب ہیں کہ جمہوریت میں کہیں سے مداخلت نہیں ہونی چاہئے‘ اور انتخابات شفاف ہوں‘ مگر مہربان‘ مہربان ہونے کے اشارے دیں تو سب ہمارے جانے پہچانے دوڑیں لگاتے ہیں۔ ہمیں تو عوام سے بھی زیادہ بے وقوف سمجھا جاتا ہے کہ بیانیہ اور بیانات تبدیل کر لینے سے کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی‘ مگر ان کی بدقسمتی کہ گزشتہ بیس سالوں سے جو کچھ وہ فرما رہے ہیں‘ وہ سب برقی پٹیوں میں فلمی ٹوٹکوں کی صورت محفوظ ہے اور نشرواشاعت کرنے والے کروڑوں لوگوں کو ان کے گھر بیٹھے فون کی سکرینوں پر وہ دکھاتے رہتے ہیں۔ ویسے یہ درویش ایسی باتوں پہ دھیان نہیں دیتا۔ ہم تو صرف وہی کچھ دہرائیں گے‘ جو تیرہ جماعتی اتحاد کے حکمران کہہ رہے ہیں کہ عوام مہنگائی سے پس رہے تھے‘ بیروزگاری زوروں پہ تھی‘ غریبوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں تھی‘ عمران خان کی حکومت ناکام ہو چکی تھی‘ اور عوام تبدیلی چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے ''آئینی‘‘ طریقہ استعمال کیا اور عدمِ استحکام کی تحریک وہ لے آئے۔ درست کر لیں‘ عدمِ اعتماد کی تحریک۔ ہم تو حکمرانوں کی تقاریب سے کوسوں دور رہتے ہیں‘ مگر جو ان کی محفلوں میں اٹھتے بیٹھتے تھے‘ بتاتے تھے کہ وہ کتنے خوش ہیں کہ آئندہ انتخابات کے انتظار کی زحمت انہیں نہیں گوارا کرنا پڑی‘ اور اقتدار کا پھل خود پک کر درخت سے سیدھا ان کی کھانے کی میز پر جا سجا۔ جہاں ملتے ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیتے‘ بغل گیر ہوتے اور دیوانہ وار ہنستے کہ کیسی چال چلی کہ خان صاحب بہادر کو ہزیمت اٹھانا پڑی۔ ہم اُس وقت بھی‘ اور اب بھی سیاست کے بڑے کھیل کے میدان کے کنارے پر چٹائی ڈال کر تماشا دیکھ رہے ہیں ۔ بالکل دیسی کشتیوں کے اکھاڑے کی طرح‘ جہاں دو پہلوان دائو پیچ آزما رہے ہوں۔
کپتان نے دیکھ لیا تھا کہ حالات نے اس کے خلاف پلٹا کھایا ہے‘ اور وہ اقتدار میں نہیں رہیں گے۔ عدم اعتماد سے پہلے ہی انہوں نے اسلام آباد میں تاریخی جلسہ کیا۔ کہا تو یہ گیا کہ اس کا مقصد عوام کی طرف سے دبائو ڈالنا ہے‘ اور جہاں ضرورت ہو‘ وہاں یہ پیغام بھی پہنچانا ہے کہ عوام موروثیوں کے ساتھ نہیں‘ کپتان کے ساتھ ہیں‘ مگر وہ نئی تحریک اور نئے بیانیے کا آغاز بھی تھا۔ جلدی انہیں نہیں‘ تیرہ جماعتوں کو تھی کہ ووٹ کرائیں اور فارغ ہوں۔ کپتان نے وہ وقت بھرپور طریقے سے عوام کو اپنا پیغام‘ منشور اور جدوجہد کا خاکہ پیش کرنے میں صرف کیا۔ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں‘ اور جو زبان و کلام استعمال کر رہے ہیں‘ آپ یا میں اس سے اتفاق کریں یا نہ کریں‘ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کی بڑی تعداد ان کی باتیں سن رہی ہے‘ سمجھ بھی رہی ہے‘ اور ان کا ساتھ دینے کے لیے لوگ لاکھوں کی تعداد میں گھروں سے نکل بھی رہے ہیں۔ پشاور‘ کراچی اور پھر لاہور کا جلسہ ایک دوسرے کا عکس تھے۔ آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ کرتا پھرے جلسے‘ مگر اس بات سے کسی کو انکار ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اتنے بڑے جلسے ابھی تک نہیں ہوئے۔ سوال تو بنتا ہے کہ آخر اتنی بڑی تعداد میں کیوں لوگ جمع ہو رہے ہیں‘ اور کپتان کے ایک ٹویٹ پر ہر شہر میں اکٹھ اور مظاہرے فوراً کیوں ہو جاتے ہیں۔ کئی سماجی حرکیات ہیں اور سیاسی بھی‘ جن پر سیر حاصل بحث ان سطور میں ناممکن ہے۔ دو کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ موجودہ سیاسی نظام‘ اگر کبھی اس کی افادیت تھی‘ وہ بھی کھو چکا ہے۔ نظر دوڑا کر دیکھ لیں‘ پارلیمان میں کون ہیں۔ کابینہ‘ کسی کی بھی حکومت ہو‘ میں کون ہوتا ہے۔ وہی آزمائے ہوئے حکمرانوں کے ٹولے اور ان کے ہرکارے اور ہرکاریاں۔ نوکر شاہی اور سرکاری محکموں میں آپ کو کبھی کام پڑا ہو تو آپ خود ہی بتا سکتے ہیں کہ کیسے کام ہوتا ہے۔ نظامِ عدل کی بات ہم نہیں کر سکتے؛ تاہم اگر آپ کو اپنی زندگی میں کبھی انصاف مل جائے تو آپ خوش قسمت ہیں۔ آپ بجلی یا گیس کا میٹر بغیر رشوت دیئے لگوا سکیں تو پھر بھی۔ اس نظام پر لوگوں کا اعتماد مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ کوئی بھی اس کو اس حال میں نہیں چلا سکتا ہے۔ آپ دنیا کے سب افلاطونوں اور مخلص رہنمائوں کو جمع کر لیں‘ وہ بھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ دوسرے‘ ہمارے پارلیمانی نظام نے سیاسی خاندانوں کی سیاسی گدی نشینی کو مضبوط کیا ہے۔ اس میں ریاستی سرپرستی کا بنیادی کردار ہے‘ جو ترقیاتی فنڈز کی صورت ہر حکومت سے حصہ بقدر جثہ ملتی رہی ہے۔ نوجوان طبقہ‘ شہری آبادیاں اور پڑھے لکھے خواتین اور مرد اس گلے سڑے نظام سے بیزار ہو چکے ہیں۔ جونہی پُرانے چہرے مہرے انہی پُرانی اقتدار کی کرسیوں پر بغیر کسی سازش کے بیٹھنے لگے‘ عوام میں خیبر سے کراچی تک سرتابی کی نئی لہر دوڑ گئی۔ جب وہ سوئے ہوئے ضمیر جگا رہے تھے‘ کہیں سے آزادی کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ جلسوں سے آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ اب بات بڑھ گئی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved