تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     25-04-2022

عمران خان اور عوام

وقت اس قدر بے رحم ہے کہ خود پر کسی بھی قسم کا پردہ اور جھوٹ برداشت نہیں کر تا۔ یہ اپنے سامنے آنے والے ہر مکر وفریب اور پروپیگنڈے کی دیواریں ادھیڑ کر رکھ دیتا ہے۔ مال و دولت کا لالچ اور مفاد کی کوئی بھی عینک سچائی کوطلوع ہونے سے نہیں روک سکتی۔ عمران خا ن حکومت سے اس کے مخالفین سمیت حمایتیوں کو سب سے بڑی شکایات مہنگائی اور گڈگورننس نہ ہونے کے سبب تھیں۔ بہت ہی تھوڑی تعداد میں لوگ جانتے تھے کہ ملک میں روز بروز کمر توڑ اور آگ لگا دینے والی مہنگائی کی وجوہات میں سے ایک عالمی منڈیوں میں ہونے والی کساد بازاری تھی لیکن ملک کی بہت بڑی اکثریت بالخصوص غریب دیہاڑی دار مزدور طبقہ مہنگائی کے ہاتھوں بری طرح پریشان تھا۔ نچلے و متوسط طبقے کے لوگ اس مہنگائی کے سبب دن رات چیخنے پرمجبور تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ملک بالخصوص پنجاب میں گڈگورننس ہوتی تو شاید اس مہنگائی کے زور کو قانون کے بے رحم استعمال سے کم کر لیا جاتا اور بزدار صاحب کی جگہ کوئی طاقتور وزیر اعلیٰ ہوتا تو حالات ابتر ہونے سے بچ جاتے لیکن خان صاحب کی بزدار سرکار کو وسیم اکرم پلس کہنے کی ضدنے پنجاب میں ہر کسی کو دکھی کیے رکھا۔اب پنجاب اورمرکز میں پی ڈی ایم پوری شان و شوکت سے حکمران ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ گھی،چینی اور لباس سمیت ہر چیز پہلے سے بھی مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ اگرچہ ابھی تک حمزہ شہباز شریف نے وزارتِ اعلیٰ کا حلف نہیں اٹھایا مگر سب جانتے ہیں کہ اس وقت عملاً پنجاب میں حمزہ شہباز ہی کے احکامات چل رہے ہیں۔ تمام سرکاری محکموں کے افسران اور اوپر سے نیچے تک کی بیورو کریسی اپنی فائلوں کے ہمراہ ان کے گھرو ں کے باہر قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں۔اس وقت با قاعدہ حلف کے بغیر ہی حمزہ شہباز پنجاب کی حکمرانی کے منصب پر براجمان‘ اپنے احکامات چلا رہے ہیں جبکہ مرکز میں ان کے والد گرامی محمد شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کی کرسی کوپوری طاقت اور شان سے سنبھالے ہوئے ہیں‘ مگر کیا وجہ ہے کہ مہنگائی کا جن عمران خان حکومت کے مقابلے میں کئی گنا زیا دہ بے قابو ہو چکا ہے؟
عمران خان کے دورِ حکومت میں بجلی دن میں ایک آدھ بار غائب ہوتی تھی جبکہ اب صوبائی دارالحکومت کے پوش علاقوں میں بھی دن میں آدھ آدھ گھنٹے کیلئے پانچ مرتبہ لوڈشیڈنگ ہوتی ہے جبکہ لاہورکی چھوٹی آبادیاں روزانہ سات سے دس گھنٹے بجلی سے محروم رہتی ہیں۔ اگر لاہور جیسے بڑے شہر سے دیگر اضلاع میں جانے کا اتفاق ہو تو ہر ایک گھنٹے بعد بجلی روزہ داروں کی جان نکالنے کیلئے غائب ہو جاتی ہے۔کل تک یہی دعوے کیے جا رہے تھے کہ پی ٹی آئی حکومت کی نااہلی کی وجہ سے سارے مسائل پیدا ہوئے ہیں اور ہم اقتدار سنبھالتے ہی عوام کی حالت بدل کر رکھ دیں گے لیکن انہوں نے آتے ہی مہنگائی پہلے سے بھی بڑھا دی ہے اوربجلی‘ جس کے نرخ عمران خان نے پانچ روپے فی یونٹ کم کیے تھے‘ کی قیمت میں آتے ہی پانچ روپے فی یونٹ کا اضافہ کر دیا ۔عوام پر اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں چارجز علیحدہ سے بڑھائے جا رہے ہیں ؟ پوری پی ڈی ایم‘ جو کل تک مہنگائی کی دہائیاں دیتی نہیں تھکتی تھی‘ اب عوام سے نظریں چرا رہی ہے۔
وقت کتنا بے رحم ہے‘ کیا کیا مناظر آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے۔ لندن کے سینٹرل ہوٹل اور الفریڈ کے ایک بڑے پلازے کی ایک منزل کے عجب منا ظر اب تک آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا بیٹا میاں نواز شریف کے حضور پنجاب میں قومی اسمبلی کی بیس اور صوبائی اسمبلی کی چالیس نشستوں کی درخواست لیے دست بستہ بیٹھا تھا۔ بھٹو اور بی بی کی ارواح نے کبھی اس منظر کا تصور بھی نہیں کیا ہو گا کیونکہ بھٹو کی پیپلز پارٹی جب قائم کی گئی تو اس کا نعرہ تھا کہ ''طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘۔ آج وہی پیپلز پارٹی عوام کے بجائے میاں نواز شریف سے ووٹ کی التجائیں کر رہی ہے۔ شاید بھٹو کے نواسے اور حاکم علی زرداری کے پوتے میں یہی فرق ہے۔ لندن میں بلاول بھٹو کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے نواز شریف صاحب کہہ رہے تھے کہ اچھی بھلی ان کی حکومت چل رہی تھی اور عوام سکون کا سانس لے رہے تھے لیکن شب خون مار کر ہمیں گھر بھیج دیا گیا۔اسی قسم کی باتیں 26 اپریل 2012ء کی شام لیہ کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بھی میاں صاحب نے کی تھیں کہ 99ء میں پرویز مشرف نے ان کی حکومت ختم کی تو اس وقت ملک تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہا تھا۔ صرف لیہ ہی نہیں‘ بلکہ ان دنوں ملک کے جس بھی حصے میں نواز شریف صاحب انتخابی مہم کیلئے گئے‘ لوگوں سے یہی کہتے تھے کہ بتائو! میری حکومت میں ملک ترقی کر رہا تھا یا نہیں؟ بھائیو بتائو! میری حکومت میں ملک میں لوڈ شیڈنگ تھی ؟ لیہ کے جلسہ میں تو میاں صاحب نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ملک میں بجلی اتنی وافر تھی کہ وہ بھارت کو بجلی بیچنے جا رہے تھے۔ عوام گواہ ہیں کہ مسلم لیگ کے دورِ حکومت میں ملک میں دس گھنٹے سے بھی زائد لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی اور اسی سبب پاور لومز بند تھیں۔ اگر کسی کو ذراسا بھی شک ہے تو اس دور کے اخبارات دیکھ لے جب لوگ لوڈ شیڈنگ کے خلاف ملک بھر میں اور خاص طور پر پنجاب میں جگہ جگہ مظاہرے کیے جا رہے تھے۔ اس سے قبل بھی لوڈ شیڈنگ ختم نہ کرنے پر نام بدل دینے کے دعوے کرنے والے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف مینارِ پاکستان پر اپنی کابینہ کے ہمراہ ہاتھ میں پنکھا پکڑ کر احتجاج کیا کرتے تھے۔ جب میاں نواز شریف یہ کہتے ہیں کہ پرویزمشرف نے جب ان کی حکومت ختم کی تو ملک میں خوش حالی تھی‘ عوام بہت خوش تھے تو ایک مشہور صحافی کی کتاب ''غدار کون؟‘‘ یاد آ جاتی ہے جس کے صفحہ 192 کی سطر پندرہ پر اپنی حکومت کی نا قص کار کردگی کو تسلیم کرتے ہوئے میاں صاحب کہتے ہیں '' ہاں یہ درست ہے کہ جب پرویز مشرف نے ہماری حکومت ختم کی تو اس وقت لوگ ہم سے خوش نہیں تھے‘ وہ ناراض تھے جس کی وجہ سے ہماری حکومت کے خاتمے پر وہ سڑکوں پر نہیں آئے‘‘ ۔
جناب نواز شریف اوران کی جماعت کا ہر چھوٹا‘ بڑا لیڈر آج یہی کہتا ہے کہ امریکی صدر بل کلنٹن نے انہیں ایٹمی دھماکے کرنے سے روکنے کے لیے پانچ فون کیے اور انہیں اس شرط پرپانچ بلین ڈالر دینے کی آفر بھی کی گئی۔ گزشتہ دنوں مریم نواز صاحبہ بھی میڈیا سے بات چیت میں عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے پوچھ رہی تھیں کہ نواز شریف نے تو پانچ بلین ڈالر کی آفر ٹھکرا کر ایٹمی دھماکے کیے تھے‘ تم بتائو تم نے ایسا کیا کیا کہ امریکا تم سے ناراض ہو گیا۔ یہاں پھر مذکورہ کتاب یاد آ جاتی ہے جس کے صفحہ435 پر نواز شریف اور امریکی صدر بل کلنٹن کی 23 مئی 1998ء کی ریکارڈڈ گفتگو درج ہے۔ امریکی صدر بل کلنٹن میاں نواز شریف سے کہہ رہے ہیں '' میں آپ کی طرف واجب الادا کچھ قرضے معاف کرانے کی کوشش کروں گا لیکن مجھے اس معاملے میں کانگریس سے منظوری لینا پڑے گی‘ اس لیے میں یہ وعدہ نہیں کر سکتا کہ میں یہ کر سکوں گا؛ تاہم میں پاکستان پر عائد پریسلر ترمیم کی منسوخی اور سمینگٹن ترمیم کی پابندیاں ہٹانے کی پوری کوشش کروں گا۔ ہو سکتا ہے کہ مجھے اس میں کامیابی مل جائے ماسوائے اس کے کہ سینیٹ میں کوئی دائو نہ چل جائے‘ اس کی میں کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا‘‘ ۔بل کلنٹن کی طرف سے ایٹمی دھماکے نہ کرنے پر پانچ بلین ڈالر کی حقیقت اگر آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھنی ہے تو امریکی صدر سے ریکارڈڈ گفتگو سن لیں‘ اس ضمن میں وزارتِ خارجہ کی لائبریری یا مذکورہ کتاب سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved