تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     26-04-2022

دھمکیاں

عمران خان پشاور اور کراچی کے بعد لاہور میں بھی ایک کامیاب جلسۂ عام سے خطاب فرما چکے ہیں۔ حساب کتاب لگانے کے شوقین اور اعدادوشمار کے ماہرین کے ''ثقہ اندازوں‘‘ کے مطابق لاہور کے جلسے میں ہزاروں کا مجمع تھا۔ ہمارے نزدیک سامعین کی تعداد کا کم یا زیادہ ہونا اتنا اہم نہیں جتنا اہم وہ جذبہ ہے جس کی بنا پر خان صاحب کے چاہنے والے کشاں کشاں جلسہ گاہ کی طرف لپکتے ہیں۔
عمران خان اس بات پر مُصر ہیں کہ انہیں ایک امریکی سازش کی بنا پر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے کوچۂ اقتدار سے نکالا گیا۔ اب خان صاحب نے لندن میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو بھی اس سازش کا مرکزی کردار قرار دے دیا ہے۔ نیشنل سکیورٹی کے دو اجلاسوں میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوئی۔ موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کے اجلاس میں نہایت وضاحت و صراحت کے ساتھ بتایا گیا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی تحقیق و تفتیش کے مطابق عمران خان کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوئی تھی۔ اس اجلاس میں تو اس وقت کے امریکہ میں پاکستانی سفیر اسد مجید بھی موجود تھے۔ اسد مجید صاحب نے ہی اپنے اعزاز میں منعقد ہونے والی ایک الوداعی پارٹی میں ایک امریکی افسر کے پاکستانی سیاست کے بارے میں خیالات کو اپنے تاثرات کی صورت میں رقم کیا تھا اور دفتر خارجہ سے گزارش کی گئی تھی کہ وہ حکومتی سطح پر امریکی حکام سے معلوم کرے کہ یہ اس افسر کے ذاتی خیالات ہیں یا یہ امریکہ کی پالیسی ہے۔ اگرچہ ان خیالات میں بھی کسی طرح کی کسی سازش کا کوئی شائبہ تک نہ تھا۔ یہ کیبل دفتر خارجہ کو 8 مارچ کو وصول ہوا اور پاکستانی وزیر خارجہ نے پورے بیس روز امریکہ سے کوئی وضاحت مانگی نہ ہی کوئی احتجاج کیا اور نہ ہی نیشنل سکیورٹی کونسل کا کوئی اجلاس بلایا۔
اقتدار کو خیرباد کہنے کے بعد خان صاحب کو معلوم تھا کہ وہ عرصۂ محشر میں ہوں گے۔ اُن سے پونے چار سالہ کارکردگی کا حساب کتاب لیا جائے گا۔خان صاحب ''سازشی کیبل‘‘ کی اصلیت سے بخوبی آگاہ ہیں مگر انہوں نے کمال مہارت کے ساتھ اس وقت کی اپوزیشن اور آج کی حکومت کو عرصۂ محشر میں لا کھڑا کیا ہے اور اپنا دفتر عمل پیش کرنے کے بجائے وہ ان سے وضاحت طلب کر رہے ہیں کہ میرے خلاف سازش کیوں کی گئی۔ خان صاحب کا اب بیانیہ یہ ہے کہ امریکہ اور اپوزیشن کی جماعتیں انہیں نکلوانے میں ملوث ہیں۔
اب خان صاحب کی ہدایت پر ان کے ترجمان فواد چودھری ٹویٹر پر یہ ٹرینڈ چلا رہے ہیں 'اپنی غلطی کی اصلاح کرو-الیکشن کرائو‘۔ انہوں نے واضح تو نہیں کیا کہ غلطی کی اصلاح کون کرے مگر اُن کا اشارہ بظاہر قومی اداروں کی طرف ہی لگتا ہے۔ مراد یہ کہ مقتدرہ پہلے کی طرح خان صاحب کے سر پر دستِ شفقت رکھے اور کھویا ہوا اقتدار انہیں واپس دلائے۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا عمران خان دوبارہ اقتدار میں واپس آسکتے ہیں۔ میرا فوری جواب تو یہ ہوتا ہے کہ کیوں نہیں؛ تاہم اس واپسی کے لیے خان صاحب نے جو جذباتی طریقہ کار اختیار کر رکھا ہے وہ زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوگا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جوں جوں حقائق سامنے آئیں گے، خان صاحب کی معاشی کارکردگی اور اُن کی انتہائی ناقص گورننس کی تفصیلات قوم کے سامنے آئیں گی توں توں وہ رومانٹک مڈل کلاس بھی حقائق کی روشنی میں اپنے تخیلاتی رومانوی رویے پر نظرثانی کرنے پر آمادہ ہوتی چلی جائے گی۔
پاکستان نے 1947ء سے 2018ء تک کے 71 برسوں میں 30 کھرب روپے کے قرضے لیے جبکہ عمران خان نے ساڑھے تین برس میں 22 کھرب روپے کے قرضوں کا بوجھ اس مفلوک الحال قوم کی کمر پر مزید لاد دیا۔ ایک ماہر معاشیات اورسابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے قوم کو موجودہ الارمنگ معاشی صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس وقت پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 10.8 ارب ڈالرز ہیں۔ اُن میں سے اگر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین اور آئی ایم ایف کے ڈالرز نکال لیے جائیں تو ہمارے کشکولِ گدائی میں کچھ نہیں بچتا۔ادائیگیوں کے عدم توازن کا بحران ایک ہولناک شکل اختیار کر چکا ہے۔ اگر موجودہ حکومت جون تک مزید 12 ارب ڈالرز کا قرضہ اس کشکول میں جمع کر کے نہیں لاتی تو پھر ہمارا سابقہ بھی خاکم بدہن اُس صورتِ حال سے پیش آسکتا ہے جس سے اس وقت سری لنکا دوچار ہے۔ اللہ ہمیں ایسے حالات سے محفوظ رکھے۔ سری لنکا اس وقت دیوالیہ ہو چکا ہے۔ یہ دیوالیہ پن کیا ہے، اس کے لیے سری لنکا پر ایک نظر ڈال لیجئے۔ خزانے میں تیل خریدنے کے لیے زرمبادلہ نہیں، توازنِ تجارت بری طرح بگڑ چکا ہے۔ سری لنکا کی اچھی خاصی برآمدات تھیں جن میں ٹیکسٹائل کے ریڈی میڈ ملبوسات اور دیگر بہت سی اشیا ہیں جن میں یہاں کے مسالوں کی بہت بڑی مانگ دنیا میں پائی جاتی ہے مگر اس وقت سری لنکا کی درآمدات برآمدات کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ سری لنکا میں 80 فیصد بجلی ڈیزل، فرنس آئل اور کوئلے وغیرہ سے بنتی ہے۔ اب ملک میں یہ چیزیں ناپید ہیں‘ لہٰذا وہاں پبلک ٹرانسپورٹ چل رہی ہے نہ ریل گاڑیاں پٹڑی پر رواں دواں ہیں اور نہ ہی پرائیویٹ کاریں سڑکوں پر دکھائی دیتی ہیں کیونکہ پٹرول پمپوں پر پٹرول ہے نہ ڈیزل۔ سکول کالج بند، ٹیلی وژن بند، موبائل فون بند۔ اس مخدوش صورت حال کے ایک نہیں کئی اسباب ہیں مگر سب سے بڑا سبب وہی اندرونی سیاسی چپقلش، معاشی مستقبل کے بارے میں بے فکری اور قرضوں کی مے نوشی میں مدہوشی ہے۔ ایک حقیقت یہ بھی جان لیجئے کہ جو قانونِ فطرت سری لنکا یا یورپ اور امریکہ کے لیے ہے وہی لاء آف نیچر پاکستانیوں کے لیے بھی ہے۔
قومی خودمختاری اور خودداری سے بڑھ کر کوئی شے مرغوب و مطلوب نہیں۔ ہر پاکستانی کی یہ دلی خواہش ہے کہ اپنی قومی غیرت کے لیے اگر حکمران پیٹ پر ایک پتھر باندھنے کو تیار ہوں تو ہم پیٹ پر برضاو رغبت دو پتھر باندھ لینے کو قومی سعادت سمجھیں گے۔ افسوس تو یہ ہے کہ اگر حکمرانوں کا ایجنڈا مخالفین کو نیچا دکھانے اور دیوار سے لگا دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا تو پھر یہ خودمختاری اور خودداری کے نعرے محض خواب و خیال ہی رہیں گے۔ اللہ نے پاکستان کو ایک ایسی فوج عطا کی ہے جو اپنی عسکری تربیت، اپنے جذبۂ حب الوطنی اور اپنی فنی مہارت کے اعتبار سے دنیا کی ایک عظیم فوج تسلیم کی جاتی ہے۔
اللہ کے فضل سے پاکستان ایک ایٹمی قوت بھی ہے؛ تاہم آج کی دنیا میں قومی خودداری کے لیے معاشی طور پر خودمختار ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ خان صاحب ایک انقلابی ایجنڈے کے ساتھ 2018ء میں برسراقتدار آئے تھے مگر عنانِ حکومت سنبھالنے کے بعد انہوں نے انقلابی ایجنڈے کو انتقامی ایجنڈے میں بدل دیا تھا۔ اب دوبارہ برسراقتدار آنے کے لیے خان صاحب نے ایک جذباتی ایجنڈے کا سہارا لیا ہے۔
اس وقت قوم کو کھولتے ہوئے جذبات کی نہیں ٹھنڈے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ خان صاحب تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اداروں کو للکارنے اور پکارنے کے بجائے پارلیمنٹ واپس آئیں۔ کل کی اپوزیشن اور آج کی حکومت کے ساتھ مل کر لانگ ٹرم انتخابی و اقتصادی اصلاحات کریں۔ اگلے انتخاب کی تاریخ متعین کروائیں اور دھمکیوں کا سلسلہ بند کرتے ہوئے دستوری تقاضوں کے مطابق اگلے الیکشن کی تیاری کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved