تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     26-04-2022

آخری عشرہ دوزخ سے نجات

اللہ کا بندوں پر فخر: ماہِ رمضان ہرسال آتا ہے اور بے انتہا برکات وانعامات تقسیم کرتا ہے۔ کتنے بدنصیب ہیں وہ بندے جو اس مہمانِ مکرم کی قدر نہیں کرتے! دوسری جانب اللہ کے وہ بندے کس قدر خوش بخت ہیں جو دن اور رات، ہرگھڑی اپنا دامن نیکیوں سے بھرتے رہتے ہیں! ماہِ رمضان کے دوران دوزخ کی آگ سے نجات پالیتے ہیں اور جنت کے مستحق ہو جاتے ہیں۔ اس مہینے میں اعتکاف اور لیلۃ القدر کی تلاش اتنا عظیم عمل ہے کہ آنحضورﷺ نے اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان مواقع پر اللہ اپنے بندوں پر فخرکرتا ہے۔ امام بیہقی نے حضرت انس بن مالکؓ کی روایت نقل کی ہے جس کا ترجمہ یوں ہے: ''رسول اللہﷺ نے فرمایا:جب لیلۃ القدر ہوتی ہے تو جبریل ؑ ملائکہ کے ایک جھرمٹ میں (زمین پر) اترتے ہیں اور ہر اس بندے کے لیے دعا کرتے ہیں جو اس وقت کھڑاہوا یا بیٹھا ہوا اللہ عزوجل کا ذکر کر رہا ہو(جاگ رہا ہو اور عبادت کر رہاہو)،پھر عیدالفطر کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے ملائکہ کے سامنے فخر کرتا ہے اور انہیں مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو!اس اجیر (مزدور) کی جزا کیا ہے جس نے اپنے ذمے کا کام پورا کردیا۔فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اس کی مزدوری اسے پوری پوری دے دی جائے۔ اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے کہ اے میرے ملائکہ ! میرے ان بندوں نے اپنا وہ فرض ادا کردیا جو میں نے ان پر عائد کیا تھا۔پھر اب یہ گھروں سے(عید کی نماز ادا کرنے اور)مجھ سے گڑگڑا کر مانگنے کے لیے نکلے ہیںاور میری عزت اور میرے جلال کی،اور میرے کرم اور میری علوِّشان کی،اور میری بلند مقامی کی قسم ہے کہ میںان کی دعائیںضرور قبول کروںگا۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے:جائو میں نے تمھیں معاف کر دیا اور تمھاری برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دیا۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ پھر وہ اس حالت میں پلٹتے ہیں کہ انھیں معاف کر دیا جاتا ہے۔‘‘(سنن بیہقی )
سید مودودیؓ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں : ''اللہ تعالیٰ سال کے سال اپنے مومن بندوں کے ساتھ یہ معاملہ کرتا ہے کیونکہ انھوں نے رمضان کے روزے رکھے اور لیلۃ القدر کی تلاش میں راتوں کو عبادت کرتے رہے۔ پھر عید کے روز نماز کے لیے نکلے اور انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں۔ اس کے نتیجے میں وہ اس کے ہاں سے مغفرت اور مہربانیاں حاصل کرکے پلٹتے ہیں۔‘‘ (کتاب الصوم،ص: 266)
نبی اکرمﷺ عام دنوں میں بھی عبادت کا بڑا اہتمام فرمایا کرتے تھے مگر رمضان میں تو شان ہی نرالی ہوتی تھی،شعبان ہی میں کمرِ ہمت باندھ لیتے اور رمضان کی آمد کے ساتھ نیکیوں میں یوں مشغول ہو جاتے جیسے تند و تیز ہو اچلنے لگتی ہے۔ پھررمضان کا آخری عشرہ تو بالخصوص آپﷺ کے انہماک و وارفتگی کی ایسی تصویر پیش کرتا کہ سبحان اللہ!حضرت عائشہ صدیقہؓ کی زبانی امام مسلم نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ رمضان کے آخری عشرے میں عبادت الٰہی میں جس قدر محنت و مشقت فرمایا کرتے تھے،اس کی مثال کسی اور زمانے اور ایام میں نہیں ملتی۔
رمضان کا آخری عشرہ: رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف رسول اللہﷺ کی سنت مؤکدہ ہے۔ آپﷺ نے ایک سال کے سوا ہمیشہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ اعتکاف میںگزارا۔ ایک سال آپﷺ جہاد پر نکل جانے کی وجہ سے اعتکاف نہ کرسکے اور اگلے سال آپﷺ نے دس کے بجائے بیس روز کا اعتکاف فرمایا۔اتفاق سے یہی حضورﷺ کا آخری اعتکاف تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت پاکستان میں لاکھوں مرد مساجد میں اور ہزاروں خواتین اپنے گھروں میں اعتکاف میں بیٹھی ہیں۔ پوری دنیا میں کروڑوں افراد اس سعادت سے اپنا دامن بھر رہے ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ اہلِ ایمان، مرد وخواتین جو اعتکاف کی روح کے مطابق اپنا وقت گزار رہے ہیں۔
رمضان المبارک کا مہینہ ہر سال ہمارے اوپر سایہ فگن ہوتا ہے۔ اس میں امت مسلمہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت سے لیلۃ القدر کی نعمتِ عظمیٰ مقدر کر رکھی ہے۔اس کی تلاش پورے رمضان المبارک میں ہونی چاہیے مگر آخری عشرہ خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔جو مسلمان بھی اعتکاف کر سکتا ہو اُسے اپنا دامن بھرنے کے لیے ضرور اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ مردوں کے اعتکاف کیلئے لازمی شرط ہے کہ وہ اس مسجد میں اعتکاف کریں جس میں پانچ وقتہ نماز باجماعت کا مستقل اہتمام ہو۔ محلے لوگوں میں سے کوئی ایک بھی اعتکاف میں نہ بیٹھے تو محلے کے سب مسلمان گناہ گار ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ایک شخص اعتکاف میں بیٹھ جائے تو ثواب تو اسی کو ملے گا، لیکن اہلہ محلہ گناہ اور عذاب سے بچ جائیں گے۔ اعتکاف کے دوران موبائل کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ اعتکاف میں اپنے موبائل پر مختلف عزیزواقارب اور احباب سے گپ شپ لگا رہے ہوتے ہیں۔ یہ انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ البتہ موبائل میں قرآن پاک اور مسنون دعائیں ریکارڈ ہو تو ان کو پڑھنے کے لیے موبائل استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اعتکاف کی مدت: آپ دس روز اعتکاف نہ بھی کرسکیں تو مسجد میں کچھ دیر کے لیے بھی اعتکاف کی نیت سے بیٹھ سکتے ہیں۔ یہ معروف معنوں کے دس روزہ اعتکاف کے علاوہ ایک مستحب عمل ہے۔ بہرحال مطلوب تو یہی ہے کہ آپ اعتکاف میں دس روز لگائیں۔یہی مسنون اعتکاف ہے۔یہ اعتکاف اجتماعی ہو تو اس کے نتائج و ثمرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔یہ بات قابل ترجیح ہے کہ اپنے محلے یا بستی کی مسجد میں آپ اعتکاف کریں۔ اعتکاف کے لیے اپنے ساتھی پہلے سے تلاش کرلیجیے۔ جو ساتھی آپ کی نظرمیں ہیں اور جن کو آپ دین حق کا کارکن اور ہم سفر بنانا چاہتے ہیں ان سے رابطہ کر لیجیے۔اعتکاف کے دس دنوں میں آپ اپنے اندر جتنا ذہنی انقلاب برپا کر سکتے ہیں شاید پورے سال میں اتنا ممکن نہ ہو۔
اعتکاف کے دوران دنیوی باتوں اور دلچسپیوں سے مکمل اجتناب کیجیے۔ اعتکاف سنت کے عین مطابق ہونا چاہیے۔ معتکِف انتہائی اشد ضرورت کے تحت اپنے معتکَف (اعتکاف کیلئے مختص گوشہ) سے باہر نکل سکتا ہے مثلاً قضائے حاجت اور وضو وغیرہ کے لیے۔ اگر کوئی شخص کھانا پہنچانے والا نہ ہو تو کھانا لانے کے لیے جا سکتا ہے مگر کسی سے کوئی غیر ضروری بات وغیرہ نہیں کر سکتا۔ یہ سارا عرصہ ذکروفکر،نفل و عبادت،مطالعہ و تلاوت، تعلیم و تعلّم اور خیر و بھلائی کیلئے وقف کر دینا چاہیے۔ سہولت کے مطابق پورے چوبیس گھنٹے کا ٹائم ٹیبل پہلے سے ہی بنا لیجیے۔ دورانِ اعتکاف اس میں ردوبدل کرنا پڑے تو بھی مضائقہ نہیں۔اعتکاف کو محض نیند کا ذریعہ نہ بنائیے۔ اس کے دوران خیر و برکت سے اپنا دامن بھرنے کی فکر کیجیے۔
لیلۃ القدر کی تلاش میں راتوں کو بیشتر حصہ عبادت اور تلاوت میں گزاریے۔دل میں یقین رکھیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے آپ کو لیلۃ القدر کی نعمت عطا فرمائے گا۔ لیلۃ القدر نصیب ہو جائے تو سنت کے مطابق خوب دعائیں کیجیے۔خصوصاً اللہ سے عفو و درگزر اور دوزخ سے نجات کی التجا کیجیے۔ کشمیر وفلسطین، بھارت وبرما اور دیگر علاقوں کے ان مظلوم مسلمانوں کو جو آج ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور ان کا کوئی والی وارث نہیں ہے، ضرور اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے آنحضورﷺ سے پوچھا: یارسول اللہﷺ مجھے لیلۃ القدر نصیب ہوجائے تو کیا دعامانگوں؟ آپﷺ نے فرمایا : اللہم انک عفو تحب العفوا فاعف عنا۔ (مسنداحمد) اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے معاف کردینا تجھے محبوب ہے پس مجھے بھی معاف فرمادیجیے۔ یہ بہت جامع دعا ہے۔ لیلۃ القدر کے علاوہ بھی بندۂ مومن کو اسے مستقل معمول بنا لینا چاہیے۔
خواتین کا اعتکاف: اوپر مردوں کے ساتھ خواتین کے اعتکاف کا ذکر ہوا ہے۔ خواتین کا اعتکاف گھروں میں ہوتا ہے۔ اپنے حالات کے مطابق اپنے گھروں میں دوران اعتکاف جن باتوں کے اہتمام کا تذکرہ بالائی سطور میں ہواہے، خواتین کوانہی پر عمل کرناچاہیے۔ اگر خواتین کا کوئی اسلامی ادارہ یا مرکز ہو اور وہ وہاں مقیم ہوں تو وہ بھی اجتماعی اعتکاف کرسکتی ہیں اور اس میںکوئی مضائقہ نہیں؛ تاہم خاتون کا بہترین اعتکاف اس کے اپنے گھر ہی میں ہوتاہے۔اس حوالے سے سید مودودیؒ فرماتے ہیں: ازواجِ مطہرات کا اعتکاف مسجد نبوی میں نہیں بلکہ اپنے حجروں میں ہی ہوتا تھا۔ تمام ازواجِ مطہراتؓ کے حجرے مسجد نبوی کے ساتھ ساتھ تھے اور ہر ایک کا دروازہ مسجد کے اندر کھلتا تھا۔ نبیﷺ ازواجِ مطہرات میں سے جس کے ہاں بھی قیام رکھتے تھے وہاں سے آپﷺ مسجد کے اندر تشریف لاتے تھے۔ چونکہ یہ حجرے مسجد سے متصل تھے اس لیے ازواج مطہراتؓ کو مسجد کے اندر آنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ویسے بھی عورتوں کا اعتکاف مسجد میں نہیں ہوتا، بلکہ گھروں ہی میں ہوتا ہے۔ اس لیے ازواجِ مطہرات بھی رمضان کے آخری عشرے میں اپنے اپنے حجروں میں اعتکاف کرتی رہیں۔ (کتاب الصوم، ص268)
اعتکاف مرد کا ہو یا عورت کا،اس میں روزہ ضروری شرط ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved