دو ہزار پندرہ میں پنجاب کا بلدیاتی الیکشن کور کرتے ہوئے میں سیالکوٹ پہنچا تو رات ہو چکی تھی۔ شہر میں تکے اور کباب کی اشتہا انگیز خوشبو پھیلی ہوئی تھی اور تقریباً ہر سڑک پر دو تین ایسے مقامات دکھائی دے رہے تھے جہاں کباب اور تکے بنائے جارہے تھے۔ ان تکے کباب والی انگیٹھیوں کے اردگرد کرسیاں میز لگے تھے جن پر بیٹھے لوگوں کو ان کا من پسند کھانا فراہم کیا جارہا تھا۔اس طرح کے کئی مقامات کے قریب سے گزرنے کے بعد مجھے اچانک احساس ہوا کہ تکے کباب کا یہ انتظام عام دکانوں والا نہیں بلکہ کچھ خاص ہے۔ ذرا غور کیا تو پتا چلا کہ جہاں جہاں کبابوں کی انگیٹھیاں لگی ہیں وہاں مسلم لیگ (ن) یا تحریک انصاف کے جھنڈے بھی لگائے گئے ہیں جو بلندی پر ہونے کی وجہ سے رات کے اندھیرے میں نظر سے اوجھل ہوگئے تھے۔ یہ بات لوگوں کو پوچھ کر پتا چلی کہ جھنڈے کباب والوں کے سیاسی رجحانات کی عکاسی نہیں کررہے تھے بلکہ لوگوں کو مفت میں کباب کھانے کی دعوت دے رہے تھے۔ میرے لیے الیکشن مہم کا یہ انداز بالکل نیا اور حیران کن تھا۔ میں نے اپنی حیرانی سوال کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کے ایک امیدوار برائے چیئرمین یونین کونسل کے سامنے رکھی تو انہوں نے کبابوں کی بھری پلیٹ میری طرف سرکاتے ہوئے کہا، ''او جناب، اللہ کا مال ہے اس کی مخلوق کھا رہی ہے‘‘۔ میں نے اصرار کرکے پوچھا کہ آخر مخلوق کے کھانے پر کتنے پیسے لگ چکے ہیں۔ انہوں نے بے پروائی سے کہا، ''دو ڈھائی کروڑ لگ چکے ہیں، پولنگ والے دن تک پچاس ساٹھ لاکھ مزید لگ جائیں گے زیادہ سے زیادہ‘‘۔ یونین کونسل کے الیکشن پر تین کروڑ روپے کے اخراجات سن کر مجھے تو چکر آگیا۔ ذہن میں پہلا سوال اٹھا کہ یہ الیکشن ہے یا پیسے خرچ کرنے کا مقابلہ؟ اس کے بعد میں نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش میں جو کچھ سمجھا یہ تھاکہ پاکستانی الیکشن بالعموم اور وسطی پنجاب کا الیکشن بالخصوص اب دویا تین دولت مندوں کے درمیان اپنی ذات کی نمودونمائش کے سوا کچھ نہیں رہ گیا۔
سیالکوٹ میں اپنی آنکھوں سے جو میں نے دیکھا وہ پیسے کے ذریعے سیاسی عہدے حاصل کرنے کا مکروہ نظارہ تھا لیکن اس کا آغاز سیالکوٹ سے نہیں ہوا تھا۔ دراصل انتخابی سیاست اور بے پناہ سرمائے کا یہ امتزاج انیس سو پچاسی میں شروع ہوا تھا۔ ابتدائی طور پر یہ پیسہ پاکستان میں ہی ٹیکس چوری، ٹھیکے داری یا افغان جہاد کے ذریعے کمایا گیا تھا۔یہاں ہمیشہ سے سیاسی پارٹیوں اور الیکشن لڑنے والے امیدواروں پر پابندی تھی کہ وہ نہ صرف محدود سرمایہ خرچ کریں گے بلکہ بیرون ملک سے یعنی فارن فنڈنگ سے بھی سرمایہ حاصل نہیں کریں گے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سیاست میں استعمال ہونے والے پیسے کی شناخت ہی گم ہوگئی کیونکہ اس قانون پر عملدرآمد میں ریاست کو دلچسپی تھی نہ سیاستدانوں کو۔ ملک کے اندر کمائے گئے پیسے، باہر سے آنے والے پیسے، جائز پیسے یا ناجائز پیسے کا فرق ختم ہوگیا۔ انیس سو نواسی میں بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو پہلی بار باقاعدہ فارن فنڈنگ بھی سامنے آئی اور یہ فارن فنڈنگ اسامہ بن لادن مبینہ طور پر نواز شریف کے ذریعے کررہا تھا۔ یہ معاملہ اتنا سنگین تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک برادر ملک کے حکمران کو سخت پیغام بھیجنا پڑا ۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں سرمائے کا عمل دخل اب اتنا بڑھ چکا ہے کہ ان میں سے کسی کی بھی ترجیح سیاسی اور انتخابی نظام میں کوئی جوہری اصلاح نہیں رہی۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ سبھی سیاسی جماعتوں میں انہی لوگوں کا اثرورسوخ ہے جو سرمائے کے زور پر پارلیمنٹ تک پہنچتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر جماعت نے سینیٹ کی کچھ نشستیں صرف ان لوگوں کیلئے مخصوص کررکھی ہوتی ہیں جو دراصل براہ راست جماعت کے رہبروقائد کو فنڈز فراہم کرتے ہیں۔ چونکہ یہ کام ایسے ہوتا ہے کہ لینے اور دینے والے ہاتھ کے سوا کسی کو خبر نہیں ہوتی اس لیے عام طور پرایسی کسی رقم کا ذکربھی سیاسی جماعتوں کے کھاتوں میں نہیں کیا جاتا۔ یہی حالت باہر سے آنے والے پیسے کی ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے شوق، نظریے یا کاروبارکی خاطر مخصوص سیاسی رہنماؤں کی بیرون ملک میزبانی سے لے کر ان کی سیاست کیلئے سرمائے کی فراہمی تک سبھی کچھ کرتے ہیں۔ یہ جو پاکستان میں بار بار بات ہوتی ہے کہ دُہری شہریت رکھنے والوں کو بھی الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے تو دراصل یہ اسی قسم کے اصحاب کی خوشنودی کیلئے کی جاتی ہے۔ باہر سے آنے والا پیسہ بھی عام طور پر رہبروقائد کے ہاتھ میں بغیر کسی حساب کتاب کے نقد ہی پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح کے پیسے ایک آدھ کو چھوڑ کر پاکستان کے قائدین میں سے ہر ایک کی جیب میں موجود ہیں۔ اگر یہ پیسہ جیبوں میں پڑا بول سکتا تو یقین مانیے ہر جبہ ودستار، ہر اچکن، ہر واسکٹ اور ہر ٹائی کوٹ میں سے جو آوازیں آتیں انہیں سن کر ہم جیسے عوام کے تو دل ہی پھٹ جاتے۔
پاکستان میں فارن فنڈنگ کوئی نئی بات نہیں لیکن اس کے جائزوناجائز کا مسئلہ صحیح معنوں میں تحریک انصاف کے بانیوں میں شامل اکبر ایس بابرکا اٹھایا ہوا ہے۔ ان کی کل معلومات وہ ہیں جو دراصل انہیں عمران خان کی دوستی کی وجہ سے حاصل ہوئیں اور ان کی کل جدوجہد کی بنیاد عمران خان سے مخاصمت ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ساری تفتیش دوہزار دو کے اس قانون کے تحت ہورہی ہے جو اب بدل چکا ہے اس لیے ایک متروک قانون کے تحت کوئی بڑا پہاڑ راستے سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔ اس معاملے میں اب تک جوکچھ سامنے آیا ہے، اسے دیکھ کر تحریک انصاف دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں بالکل معصوم بچہ لگتی ہے۔ بظاہر اس کیس میں پیسے کے ہیرپھیر سے زیادہ کھاتوں کی بدنظمی کا عمل دخل ہے۔ ظاہر ہے ایک ایسی جماعت جو دوہزار گیارہ میں یکایک سیاسی اہمیت حاصل کرجائے اس کیلئے فوری طور پرکھاتے کھتونی کا بندوبست مشکل ہوجاتا ہے اور یہ سارا پیسہ اسی دور میں آیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دوہزار دس سے تیرہ کے درمیان یہ پیسہ بیرون ملک سے قانونی طریقہ کار کے مطابق بینکوں کے ذریعے آیا۔ اکبر ایس احمد نے الیکشن کمیشن کے ذریعے اس پرسوال یہ اٹھایا ہے کہ بیرون ملک اس کے ذرائع کیا تھے۔ سیاسی طور پر اس سوال سے منی لانڈرنگ سمیت کچھ بھی جوڑلیں مگر قانونی طورپراس کے کئی معقول جواب اور جواز موجود ہیں۔ اس معاملے میں عمران خان کا یہ دعویٰ بظاہر درست لگتا ہے کہ جب سیاسی جماعتوں کے حسابات کھولے جائیں گے تو تحریک انصاف واحد جماعت ہوگی جو حساب دے سکے گی۔
اب اگر سیاسی جماعتوں کے کھاتے کھلتے ہیں اور الیکشن کمیشن واقعی فارن فنڈنگ یا الیکشنوں میں ناجائز پیسے کے استعمال پر پابندی لگانا چاہتا ہے تو پھر اس کیلئے تفتیش کا طریقہ بدلنا ہوگا۔ بے شک اس تفتیش کا آغاز دوہزار دس سے ہی کرلیں لیکن پھر دوہزار اٹھارہ تک ہونے والے تمام الیکشنوں میں جماعتوں اور امیدواروں کے انتخابی اخراجات کا آڈٹ بھی کیا جائے۔ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے سامنے صرف ایک سوال رکھیں کہ جب آپ نے الیکشن لڑا تواس وقت اخراجات کی مقررہ حد کے اندر الیکشن کمپین کیسے چلائی؟کوئی امیدوار اس کا جواب دے دے تو اصل کمپین اوراخراجات کی قانونی حدکا آڈٹ کرلیا جائے۔ جب یہ کام مکمل ہوجائے گا تو ہمارے سامنے ایک طلسم ہوشربا کھل جائے گا۔ اس کے بعد شاید ہی کوئی ایسا سیاستدان بچے گا جو سزا کا مستوجب نہ ہو۔ یہ ایک طویل کام ہے، اس کیلئے ماہرین کی ضرورت ہو گی لیکن پاکستان کی سیاست میں پیسے کے اندھا دھند استعمال کو روکنے کی یہی صورت ہے۔ ہاں، مسئلہ حل کرنے کے بجائے اگر کسی کا مقصد ہر صورت میں تحریک انصاف یا عمران خان کو رگڑا لگانا ہے تو اس کیلئے فارن فنڈنگ کیس زیادہ اچھا بہانہ نہیں ہے۔ اس کیلئے کچھ اور سوچ لیں کیونکہ عام لوگ بھی اب کافی سمجھدار ہوچکے ہیں۔