سیاست عبادت تھی لیکن سلف اسلاف کے دور میں‘ ملک و قوم کی خدمت تھی لیکن شاید بانیانِ پاکستان کے دور میں‘ یہ شرافت پر مبنی تھی لیکن معلوم نہیں کون سے دور میں، تیسری بات کا جواب میرے پاس اس لیے نہیں ہے کہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد‘ ساڑھے تین دہائیوں کی جو سیاست دیکھی ہے‘ اس میں مفاد پرستی، اقربا پروری، اقتدار پسندی، جھوٹ، فراڈ اور انتقام سمیت وہ تمام منفی عناصر پائے گئے جن کا عبادت، خدمت اور شرافت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ اب وہ زمانے لد گئے جب طلبہ یونین سے سیاسی تربیت کا آغاز ہوتا تھا اور پھر تعلیم سے فارغ ہوکر کونسلر کی نشست سے عملی سیاست شروع ہوتی تھی۔ آج بھی ملک میں ایسے کئی سینئر سیاست دان موجود ہیں جنہوں نے زمانۂ طالب علمی میں سیاست شروع کی تھی۔ پہلا الیکشن کونسلر کی حیثیت سے لڑا اور پھر سیاسی سیڑھیاں عبور کرتے ہوئے اقتدار کی مسند تک پہنچے۔ ان میں اکثریت ایسے رہنمائوں کی ہے جن کا پولیٹیکل کیریئر اسّی کی دہائی کے وسط میں یا اس سے بھی پہلے شروع ہوا تھا۔
قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافہ ہوا اور خواتین سمیت مخصوص سیٹیں شامل کی گئیں تو یہ مخصوص نشستیں زیادہ تر عوام کے بجائے خواص کے حصے میں آئیں۔ وہ خواتین جن کا تعلق یا تو کسی بڑے سیاسی خاندان سے تھا یا وہ کسی بڑے صنعتی و کاروباری گھرانے سے تھیں‘ ان نشستوں پر 'سلیکٹ‘ کی جانی لگیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ قومی سیاست میں دولت کا اثر و رسوخ بڑھنے لگا۔ ایوانِ بالا کے انتخابات میں تو پہلے بھی ووٹ خریدنے کی باتیں سنتے تھے لیکن 2000ء کے بعد ہم نے یونین کونسل کی سطح پر بھی الیکشن میں کروڑوں روپے کے اخراجات دیکھے، اور شاید یہ پہلی بار تھا کہ اس سطح پر انتخابات میں اتنے پیسے خرچ کیے گئے۔ یونین کونسلوں کے ناظم یا چیئرمین بننے کے لیے بھی پانچ سے دس کروڑ روپے خرچ ہونے لگیں تو پھر آپ خود اندازہ لگا لیں کہ صوبائی یا قومی اسمبلی کا رکن بننے کے لیے کتنا سرمایہ خرچ ہوتا ہو گا۔ امیر ہونا کوئی برائی نہیں ہے‘ ملک میں ایسے ہزاروں سرمایہ دار ہیں جو عوامی فلاح و بہبود میں اپنی مثال آپ ہیں۔ کئی بڑے بڑے امرا اور سرمایہ دار خدمت کی غرض سے بھی سیاست میں آئے‘ شرافت جن کا شیوہ تھی اور جنہوں نے اپنی جائیدادیں بیچ کر سیاست کی لیکن جب موجودہ سیاست کا رنگ غالب آنے لگا، خدمت اور شرافت جیسے عناصر کم ہونے لگے تو پھر ایسے شرفا بھی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگے۔
مسائل اس وقت پیدا ہونا شروع ہوئے جب دولت کی طاقت سے غیر تربیت یافتہ لوگ سیاست میں آنے لگے، جنہوں نے کبھی کونسلر کا الیکشن بھی نہیں لڑا تھا‘ وہ براہِ راست قومی و صوبائی اسمبلیوں حتیٰ کہ ایوانِ بالا کے رکن منتخب ہونے لگے۔ جو بھی سیاست دان‘ خواہ سرمائے کی بدولت ہی‘ منتخب ہو کر آتے ہیں، انہیں پھر بھی تھوڑا بہت عوام کا خیال ہوتا ہے کہ پانچ سال بعد دوبارہ عوامی عدالت میں جانا ہے لیکن جو لوگ بغیر کسی محنت‘ اپنے پیسے کے بل بوتے پر کوئی اہم سیاسی یا حکومتی عہدہ حاصل کر لیتے ہیں‘ ان کی عادات و اطوار اور قول و فعل میں غرور و تکبر کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ وہ نہ تو سیاسی کارکنوں کوعزت دیتے ہیں اور نہ ہی انہیں عوام کے جان و مال کی پروا ہوتی ہے۔ یہ طبقہ مہنگائی و بیروزگاری جیسے مسائل سے بے خبر ہوتا ہے۔ عوامی خدمت اور شرافت کی سیاست ان کی تربیت ہی میں شامل نہیں ہوتی حتیٰ کہ میڈیا سے گفتگو کے دوران بھی انہیں تہذیب و شائستگی کا کوئی خیال نہیں ہوتا۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ایسی کئی شخصیات اہم عہدوں یا اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ گئیں جن کی پرورش اور تربیت دیارِ غیر میں ہوئی، جو بظاہر تو پاکستانی شہریت رکھتے ہیں لیکن پاکستانی ثقافت، تہذیب و تمدن، اخلاقی اقدار اور ہماری معاشرتی روایات ان کے لیے زیادہ معنی نہیں رکھتیں۔ سرمائے کا رعب ان کے ہر عمل میں نمایاں ہوتا ہے۔ اخلاقی اقدار و شرافت کو وہ کمزوری سمجھتے ہیں۔ سیاسی تربیت کے فقدان کے باعث جب ان کے پاس کسی بات کا جواب نہیں ہوتا تو فوراً اخلاق کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور بد تہذیبی پر اتر آتے ہیں۔ یہی رویہ آہستہ آہستہ ہماری قومی سیاست میں تشدد اور انتقام کا باعث بنتا جا رہا ہے جس کا نتیجہ مزید سنگین حالات کی صورت میں بھی برآمد ہو سکتا ہے۔
موجودہ اسمبلیوں کی بات ہی کریں تو ہمارے سامنے شاہد خاقان عباسی، شیخ رشید احمد، راجہ پرویز اشرف، خورشید شاہ، شاہ محمود قریشی، احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق سمیت ایسے متعدد سنیئر سیاستدانوں کی مثالیں موجود ہیں جنہیں ہر قسم کے حالات میں‘ میڈیا کے سخت سے سخت سوالات کا جواب بھی تحمل سے دیتے ہوئے دیکھا ہے، سابق صدر آصف علی زرداری کو ہم نے عدالتوں میں پیشیوں کے دوران سخت ترین سوالات کا سامنا کرتے ہوئے دیکھا لیکن ہمیشہ ان
کے چہرے پر مسکراہٹ ہی دیکھی‘ چاہے وہ مصنوعی ہی کیوں نہ ہو۔ نئی قیادت میں بلاول بھٹو زرداری، حمزہ شہباز اور مریم نواز کو اپوزیشن کے دور میں‘ انتہائی کٹھن حالات میں بھی سخت سوالات کرنے والے صحافیوں سے الجھتے کبھی نہیں دیکھا، شاید یہ ان کی سیاسی تربیت ہی کا نتیجہ ہے‘ ورنہ دولت تو ان کے پاس کسی سے کم نہ ہو گی‘ لیکن بد قسمتی سے گزشتہ تین‘ چار برسوں میں ہم نے کئی ایسے واقعات بھی دیکھے ہیں کہ کسی صحافی نے کوئی ایسا سوال کیا جو سامنے والے سیاستدان کو پسند نہ آیا تو جواب میں رپورٹر کو توہین آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض واقعات میں تو ہم نے میڈیا کے نمائندوں کو گالیوں اور تشدد کا نشانہ بنتے بھی دیکھا جو تشویشناک ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنی طویل سیاسی جدوجہد میں ہر قسم کے حالات و واقعات کا سامنا کیا مگر کبھی انہیں میڈیا مخالف نہیں دیکھا گیا؛ تاہم اقتدار میں آنے کے بعد میڈیا کے ساتھ ان کے تعلقات میں خاصا اتار چڑھائو دیکھا گیا‘ شاید اس کی وجہ ان کے غیر سیاسی مشیر تھے جن کا زمینی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں تھا‘ جن کو عوام میں نہیں جانا تھا۔ ایسے ہی ایک معاونِ خصوصی ڈاکٹر شہباز گِل تھے‘ جنہیں ہم نے پہلے کبھی پاکستانی سیاست میں نہیں دیکھا گیا۔ ہماری معلومات کے مطابق ان کا آج بھی سب کچھ امریکا ہی میں ہے۔ انہیں پارٹی اور حکومت میں ذمہ داری ترجمان کی دی گئی جس کا براہِ راست تعلق میڈیا سے ہوتا ہے لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ہم نے انہیں کئی مواقع پر صحافیوں سے الجھتے دیکھا اور مرضی کے خلاف سوال پر ان کی زبان سے سخت الفاظ بھی سنے جو شاید سیاسی تربیت کے فقدان کے سبب ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سب سے بڑے شاپنگ مال کے مالک سردار تنویر الیاس کو سیاست میں ابھی پانچ سال بھی پورے نہیں ہوئے ہوں گے لیکن اپنے سرمائے کی بدولت پر وہ وزیراعظم آزاد کشمیر جیسے اہم منصب پر فائز ہو چکے ہیں۔ انہیں یہ مسند اپنی ہی جماعت کے قیوم نیازی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد ملی‘ جس پر اپوزیشن نے الزام عائد کیا کہ انہوں نے یہ عہدہ اپنی دولت سے خریدا ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ان کے انتخاب سے لے کر آج تک پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ چند روز قبل ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک سینئر صحافی نے انہیں وزیراعظم بننے پر مبارکباد دیتے ہوئے سوال کیا کہ ''آپ کا دعویٰ تھا کہ آپ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے لیکن آپ نے حریت کانفرنس کے دوسرے دھڑے کو مدعو نہیں کیا‘ اس کی کیا وجہ ہے؟ دوسرا، احتجاجی مظاہرے، جلوس، سیمینارز کے علاوہ آپ عملی طور پر مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کیا قدم اٹھائیں گے جو آپ کے پیش رو نہیں اٹھا سکا؟ اور تیسرا یہ کہ آپ کے خلاف پروپیگنڈا ہو رہا ہے کہ آپ ایک ارب روپے دے کر وزیراعظم بنے ہیں‘ اس الزام میں کہاں تک صداقت ہے ؟‘‘ اس سوال کا پہلے تو انہوں نے آرام سے جواب دینا شروع کیا لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کا رویہ سخت ہوتا گیا اور بالآخر انہوں نے تہذیب کا دامن چھوڑ تے ہوئے بھری محفل میں سینئر صحافی کی توہین کی جس پر تمام صحافتی حلقے سراپا احتجاج ہیں اور ان سے معافی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دیگر معاملات کی طرح جلد ہی یہ معاملہ بھی حل ہو جائے گا لیکن مسئلہ ہماری سیاسی اخلاقیات‘ برداشت اور تحمل کا ہے۔