تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     14-08-2013

14اگست

کوئی قوم اِس وقت اللہ کا انتخاب ہے نہ ملک۔اللہ کی ایک سنت ہے جس سے کوئی مستثنیٰ نہیں۔ قرآن مجید کی راہنمائی یہ ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کے دو قانون ہیں۔ایک قانون کے تحت اللہ تعالیٰ انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے ایک قوم کو منتخب کر تے ہیں۔یہ ایسا ہی ایک انتخاب ہے جیسے نبیوں کا ہوتا ہے۔ ایسی قوم کو وہ منصب ِ امامت عطافرماتے ہیں۔تاہم یہ منصب چند شرائط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ جب تک وہ قوم ان پر پورا اترتی ہے،امامت اس کے پاس رہتی ہے۔جب وہ اللہ سے کیے گئے میثاق سے انحراف کر تی ہے، اسے اس منصب سے معزول کر دیا جا تا ہے۔اللہ کے آ خری نبی اور رسول سیدنا محمد ﷺ کی بعثت کے ساتھ یہ منصب بنی اسماعیل کو عطا ہوا۔قرآن مجید نے بتا یا کہ اس سے پہلے بنی اسرائیل اس منصب پر فائز تھے۔بنی اسماعیل کو یہ ذمہ داری سونپتے وقت اللہ تعالیٰ نے بہت تفصیل کے ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ بنی اسرائیل نے کن جرائم کا ارتکاب کیا جن کے باعث انہیں اس منصب سے معزول کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی اپنے اٹل قانون کا ذکر کیا کہ نہ یہود(بنی اسرائیل) خدا کے چہیتے تھے نہ تم ہو۔ اگر تم نے بھی اسی طرح اللہ کے میثاق کو توڑا تو تمہارا معا ملہ بھی وہی ہو گا جو یہود کا ہوا۔ اس کی پوری تفصیل سورہ بقرہ اور سورہ آل ِ عمران میں بیان کر دی گئی ہے۔اس کے ساتھ بتا دیا کہ اگر تم نے اس میثاق کو قائم رکھا تو اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے شاملِ حال رہے گی۔ اگر تم مومن ہوئے تو غلبہ تمہارا ہوگا۔اس باب میں اللہ کی نصرت کا قانون قرآن مجید نے واضح الفاظ میں بیان کر دیا۔ختم نبوت کے بعد اب کوئی نئی قوم مبعوث نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسماعیل کو امتِ وسط قرار دیاجو اللہ کے آخری رسول ﷺ اور بنی نوع انسان کے درمیان ربط ہیں۔رسولؐ نے ان پر اتمامِ حجت کیا اور انہوں نے دوسرے انسانوںپر۔خلافتِ راشدہ اسی الہامی منصوبے کا حصہ تھی۔اب کوئی قوم ہدایت کے معا ملے میں اللہ کا انتخاب نہیں۔عروج و زوال کے اس قانون کا اب کسی دوسری قوم پر اطلاق نہیں ہو سکتا۔ دوسرا قانون وہ ہے جس کا تعلق دنیادی غلبے سے ہے۔یہ ملکوں اور قوموں کی جنگیں ہیں جو برتری کے فطری جذبے کے تحت لڑی جاتی ہیں۔اس طرح کی معر کہ آرائی میں، مسلمان ہوں یا غیر مسلم، دونوں کے لیے اللہ کا قانون ایک ہے۔جو مادی اور اخلاقی اعتبار سے اس کی سنت کے مطابق عمل کرے گا، اسے غلبہ مل جائے گا۔ اسی اصول کے تحت، بنی امیہ کو سپین میں اوربرطانیہ کو عالمی سطح پر غلبہ ملا۔اسی کے مطابق آج امریکا کو دنیا پر برتری حاصل ہے۔پاکستان کے عروج و زوال کا تعلق بھی اسی قانون سے ہے۔ہم پاکستان کے قیام کو ایک الہامی فیصلہ قرار دیتے ہیں اور اس کے بعد یہ طے کردیتے ہیں کہ اس کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔یہ ایک مملکتِ خدا داد ہے اور وہی اس کی حفاظت کرے گا۔پھر اس کی تائید میں ہم ان دینی نصوص سے استدلال کرتے ہیں جن کا تعلق اللہ کے پہلے قانون کے ساتھ ہے۔ اگر ہم صرف اپنی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم کیا جا سکتا ہے کہ یہ مقدمہ درست نہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اس کا اعلان ہے کہ ہمیں خود اس ملک کی حفاظت کرنی ہے۔ ہم نے جو غلطیاں کیں،قانونِ قدرت کے تحت ہم نے ان کے نتائج بھگتے۔اسی طرح کی غلطیاں سوویت یونین نے کیں تو اسے ناخوشگوار نتائج کا سامنا کر نا پڑا۔امریکا نے ویت نام میں کیں تو وہ بھی نتائج سے بچ نہیں سکا۔اس سے پہلے خلافتِ عثمانیہ اور مغل سلطنت کے ناخداؤں نے اسی طرح کی غلطیاں کیں اور اللہ کی سنت ان کے معا ملے میں بھی اسی طرح بروئے کار آئی۔آج اگر خدانخواستہ پاکستان اور بھارت میں جنگ کی صورت پیدا ہوتی ہے تو اس معرکے کا فیصلہ بھی اللہ کے اسی قانون کے مطابق ہوگا۔ پاکستان آج ان گنت مسائل میں گھرا ہوا ہے۔میں جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو میرا شہر راولپنڈی پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔شہر کے وسط سے گزرنے والا نالا لئی ہیجانی کیفیت میں ہے۔اس کے کناروں پربسنے والے خطرات کی زد میں ہیں۔ فوج ان کی مدد کے لیے طلب کی جا چکی۔ٹی وی چینل بتا رہے ہیں کہ اب تک رتہ امرال کے تین نوجوان اس نالے کی خوراک بن چکے۔یہ صورتِ حال کیوں پیدا ہوئی؟اس کا جواب واضح ہے۔ انتظامیہ کی ناقص کارکردگی۔یہ معاملہ کہیں بھی ہو نتیجہ ایک جیسا ہوگا۔گزشتہ چند سالوں میںسعودی عرب میں بارشوں نے جو تباہی مچائی،وہ بھی اس بات کی شہادت ہے کہ اللہ کا قانون سب کے لیے ایک جیسا ہے اوراس سے کسی کے لیے مفر نہیں۔پاکستان کو اگر اس کیفیت سے نکلنا ہے توجوتشیوں اور نجومیوں کی طرف نہیں،اللہ کی سنت کی طرف دیکھنا ہو گا۔ ضرورت ہے کہ قوم کو اس حقیقت کی طرف متو جہ کیا جائے۔اسے بتا یا جائے کہ آج کوئی قوم اللہ کی چہیتی نہیں اورنہ کوئی ملک۔ جس طرح ستائیسویں رات کی موت بخشش کی ضمانت نہیں، اسی طرح اس تاریخ کوکسی ملک کا وجود میں آنا بھی اس بات کی دلیل نہیں کہ اس کی حفاظت کا ذمہ اب اللہ تعالیٰ نے اٹھا لیا۔اللہ تعالیٰ یقیناً ہماری مدد فر مائیں گے لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ ہم ان کی سنت کو پیشِ نظر رکھیں۔ پاکستان کا مسئلہ ہمہ جہتی ہے۔قیادت ابہام کا شکار ہے۔وزیر داخلہ داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے سچ بولا۔ان کا کہنا ہے کہ وہ چارپانچ ہفتے اس لیے میڈیا سے گریزاں رہے کہ ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ قوم سے کیا بات کی جائے۔یہ ابہام فزوں تر ہے اور وزارتِ عظمیٰ کا منصب بھی اس کی زد میں ہے۔ جنہیں ہم متبادل قیادت سمجھتے ہیں،اُن کا معاملہ زیادہ افسوس ناک ہے۔ خیبر پختون خوا کے معاملات جس ’بصیرت‘ کے ساتھ چلا ئے جارہے ہیں ،اُس کے مظاہرہم آئے دن دیکھ رہے ہیں۔ دانش کا معاملہ یہ ہے کہ وہ زبان و قلم سے روٹھی ہوئی ہے اور جن کے پاس ہے، ہم ان سے روٹھے ہوئے ہیں۔مسجد، ممبر، خانقاہ، مکتب، پارلیمان، ایوانِ اقتدار، ہر جگہ، الاما شاللہ ابہام ہے یا پھر سطحی افکار کاغلبہ۔ جذبات کا کاروبار ہے اوراشتعال کی فراوانی۔ان سے نجات کے سوا بہتری کا کوئی راستہ نہیں۔ آج قوم جشن منائے گی۔میں اس کے حق میں ہوں کہ اس دن کو منا یا جائے۔ نئی نسل اپنی قومی شناخت کے بارے میں حساس ہو۔وہ اظہارِ مسرت کرے کہ اسے یہ ملک نصیب ہوا۔لیکن نئی نسل کو یہ بتانا ضروری ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کے باب میں قدرت کا قانون کیا ہے؟یہ کام قیادت کا ہے، فکری ہو یا سیاسی۔نئی نسل کوسمجھاناہوگا کہ تضادات کے ساتھ زندگی گزاری جا سکتی ہے نہ خوش فہمیوں کے سہارے۔پیکرِ خاکی میں جان پیدا کیے بغیر ہمارے پاس ترقی کا کوئی راستہ نہیں۔یہ کام نا ممکن نہیں ہے۔قوموں نے اپنی شکست کی راکھ سے فتح کے شعلے بلند کیے ہیں۔دوسری جنگِ عظیم کے بعد ہی کے حالات دیکھیے تو معلوم کیا جا سکتا ہے کہ نئی اقوام عالمی افق پر ابھریں اور انہوں نے اپنے عزم سے اپنا مستقبل تابناک بنایا۔یہ کسی پیش گوئی کے سہارے ہوا نہ کسی جوتشی کے اشارے پر۔چین والے تودنیادی معاملات میں کسی مابعد الطبیعیات کو مانتے ہی نہیں۔ان کی ترقی ہمارے سامنے ہے۔ آج 14 اگست ہے۔ ہمیں سوچنا کہ اس دن کو ماضی کی طرح گزارنا ہے یا نئے سفر کا آغاز کر نا ہے۔اس کے لیے اپنے خود ساختہ تصورات پر نظر ثانی پہلی شرط ہے۔پاکستان کا معاملہ خصوصی نہیں ہے۔ہم اللہ کی کوئی چہیتی قوم نہیں ہیں۔اللہ کی سنت ہمارے لیے بھی وہی ہے جو دوسری اقوام کے لیے۔اس یومِ آزادی پر اگر یہ بات ہماری سمجھ میں آجائے تو یہ ہمارے لیے نیک شگون ہوگا۔اس کے بعد بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved