نہر سے چوک قرطبہ جانے کے لیے فیروز پور روڈ کی طرف مڑا ہی تھا کہ سامنے ایک بڑا سا ٹرالر سڑک کا راستہ روکے نظر آیا۔ اسے چوڑائی کے رخ اس طرح کھڑا کیا گیا تھا کہ صرف پیدل گزرنے کا راستہ ہی بچا تھا اور اس میں ایک ٹریفک وارڈن بیٹھا ہوا تھا۔ گاڑی وحدت روڈ کی طرف موڑنی پڑی جس پر تمام ٹریفک اکٹھی ہو کر خود بھی پریشان تھی اور سب لوگوں کو بھی پریشان کر رہی تھی۔ مجھے مال روڈ جانا تھا اور آدھ گھنٹے کے بعد میرا رخ بالکل مخالف سمت میں تھا۔ روزہ، گرمی، عجلت، غیر یقینی راستہ اور بیزاری۔ خدا خدا کرکے مختلف ٹریفک زدہ سڑکوں سے ہوتا ہوا دفتر پہنچا لیکن اضافی ڈیڑھ گھنٹہ سڑکوں کی نذر ہوچکا تھا۔
اور یہ روز کا معمول ہے۔ لاہور ہی کیا ہر بڑے شہر میں روز اپنے کام پر نکلنے والے کا یہ روز کا معمول ہے کہ وہ اچانک دیکھے کہ اسے اپنے راستے سے بالکل مخالف سمت میں موڑ دیا گیا ہے۔ اسے وجہ بھی معلوم نہ ہو اور یہ بھی کہ آگے مزید کون کون سے راستے بند ہیں۔ کوئی جلوس، کوئی احتجاج، کوئی حادثہ، کوئی آگ، کوئی جھگڑا، کوئی وی آئی پی۔ وجہ کوئی بھی ممکن ہے۔ ایک خواری کہیں سے بھی شروع ہو سکتی ہے۔
لوگوںکی تکلیف، مجبوری اور بے بسی اور بدانتظامی دیکھ کر ہمدردی کے وہ جذبات بالکل ختم ہونے لگے جو پچھلے رمضان میں ایک چوک پر ٹریفک وارڈن نوجوانوں کو دیکھ کر پیدا ہوئے تھے۔ عصر کا وقت تھا۔ سخت گرمی اور دھول مٹی۔ روزہ محاورے کے اعتبار سے باقاعدہ لگنا شروع ہو چکا تھا۔ ایک چوک عبور کرتے ہوئے میری نظر اتفاقیہ طور پر ٹریفک وارڈن کی وردی میں ملبوس دو نوجوانوں پر پڑی۔ پچیس چھبیس سال کے یہ صحت مند نوجوان اس چوک پر مامور تھے۔ دونوں باری باری چوک کے درمیان کھڑے ہونے کا فرض انجام دیتے تھے‘ اور اپنی باری ختم ہونے پر سڑک کنارے درخت کے سائے کی طرف پلٹ آتے تھے۔ بظاہر دونوں ہی روزے سے تھے۔ اس وقت اپنی باری ختم کرکے سائے میں بیٹھا ہوا نوجوان باریش تھا اور وہ ایک چھوٹا سا تولیہ گیلا کرکے اپنے سر اور گردن پر رکھ رہا تھا۔ میں نے سوچا‘ یہ دونوں صبح اپنے اپنے گھروں سے چھ سات بجے نکلے ہوں گے اور اپنی ڈیوٹی کے اس چوک پر پہنچے ہوں گے۔ جیسے جیسے سورج بلند ہوگا اور لوگ سڑکوں پر نکلیں گے گرمی اور گہماگہمی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ کسی افسر کا اچانک وائرلیس پر پیغام آئے گا کہ فلاں وی آئی پی سواری گزرنے والی ہے سارے سگنل بند کردئیے جائیں اور ساری ٹریفک روک دی جائے۔ یا فلاں جگہ احتجاجی جلوس ہے ساری ٹریفک موڑ دی جائے‘ یا کسی خوش قسمت دن ایسا کچھ بھی نہ ہوگا لیکن بیچ سڑک راستہ بند اور جھگڑا شروع ہوجائے گا۔ یہ دونوں چوک کے عین بیچ کھڑے ہوکر ٹریفک کو دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے گزرتے دیکھتے اور اڑتی ہوئی دھول پھانکتے رہیں گے۔ نظام کی خرابی اور افسروں کے غلط فیصلوں کا عذاب یہ بھگتیں گے۔ انہی کو کہا سنا جائے گا۔ اس افسر کو نہیں جو یخ دفتر میں بیٹھا ہے۔ ایک سبز رنگ کا چھوٹا سا ماسک آخرکتنی مٹی، کتنے جراثیم روک سکتا ہے۔ روزہ، گرمی، مٹّی، بھاری وردی، افسر اعلیٰ کا سلو ک، لوگوں کی بدتمیزی، ٹریفک اشاروں کی نافرمانی۔ شام تک یہ دونوں نوجوان نڈھال ہوچکے ہوں گے۔ ان میں سے ہر نوجوان جو کسی ماں کا بیٹا، کسی باپ کا لاڈلا، کسی بہن کا غرور، کسی بھائی کا دوست، کسی بیوی کا جھومر اور کسی لاڈلے یا لاڈلی کا دیوتا ہے، نڈھال ہوچکا ہوگا۔ اس جنگ میں ایک چھوٹا سا گیلا تولیہ اور ایک سیاہ سفید چوخانہ رومال ان کی زرہ بکتر اور ڈھال ہے۔ دونوں خوبصورت نوجوان اپنی زندگی کے بہترین حصے میں ہیں۔ مہینے کے شروع کی تاریخوں میں تیس چالیس ہزار کا وہ چیک ان کا حوصلہ بڑھاتا ہوگا جس کے لیے انہیں اس گھمسان کی زندگی میں کودنا پڑا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو تیس چالیس ہزار کے لیے یہ کٹھن زندگی اختیار کرسکتے ہیں جس میں تیسرے چوتھے دن ہی آدمی بیمار پڑجائے۔
رمضان اپنے آخری دنوں میں داخل ہوچکا ہے۔ چند روز میں یہ مہینہ ختم ہو جائے گا‘ لیکن تیز بارش، سخت آندھی، کڑکڑاتی سردی اور گرمی میں بھی انہیں یہیں میدان میں رہنا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ سب برداشت ہوجاتا ہے اگر انہیں محبت سے دیکھا جائے۔ احترام سے بات کی جائے۔ جو سلوک ہم اپنے لیے پسند نہیں کرتے وہ ان کیلئے کیسے روا رکھ لیتے ہیں۔ ہم نہیں سوچتے کہ معاشرے کا برا سلوک کسی بھی طبقے کو نفسیاتی مریض بنا سکتا ہے اور بہت سے طبقات کو بناچکا ہے۔
ہم سب کسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ کچھ طبقے ایسے ہیں جن کے ذمے ہم صرف سخت فرائض سونپ کر سبکدوش ہوگئے ہیں۔ ہم ان کے نقائص پر ہی زبان کھولنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے دکھ سکھ، ان کے مسائل، ان کی تنخواہیں، ان کی باقی زندگی سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں۔ اگر اتفاق سے نظر آبھی جائیں تو ہم منہ دوسری طرف پھیرنا بہتر سمجھتے ہیں۔ایک امام مسجد، ایک مؤذن، ایک پولیس وارڈن، ایک معمولی کلرک کس طرح مشقّت بھرا دن گزارتا ہے اور کس طرح معمولی تنخواہ میں گزارہ کرتا ہے ہم نہیں جانتے اور نہ جاننا چاہتے ہیں۔
میں ہر شخص کا ہر صورت میں حامی نہیں ہوں۔ اچھے برے ہر جگہ ہیں۔ لاہور کی بات کی جائے تو سب ٹریفک وارڈن ہی سمارٹ کم عمر مہذب اور تعلیم یافتہ نہیں۔ یہ بات تو سب کو علم ہے کہ وارڈنز کو چالان کا ٹارگٹ دیا جاتا ہے جسے انہوں نے بہرصورت پورا کرنا ہوتا ہے‘ اور رسید سے الگ جو جرمانہ ہے، سب نہ سہی لیکن کئی اہل کار اس کے طریقے بھی ڈھونڈ لیتے ہیں۔
چند سال پہلے ایک چوک پر ایک وارڈن نے مجھے روکا اور سگنل کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔ بے خیالی کے باوجود مجھے ستر اسی فیصد یقین تھاکہ میں نے خلاف ورزی نہیں کی تھی۔ اس نے جرمانہ کیا اور تذبذب کے ساتھ رسید بھی دے دی۔ وہ چوک میرے روزمرہ راستے میں تھا اس لیے میں نے نوٹ کیا کہ وہ تقریباً ہر روز کوئی گاڑی گھیر کر کھڑا ہوتا ہے‘ اور ایک طرح سے گھات میں ہوتا ہے۔ جو لوگ عجلت میں ہوتے ہیں یا شکل سے جھگڑالو نہیں لگتے وہ اس کا ٹارگٹ ہوتے ہیں۔ اس کی خوشی اسی میں پنہاں تھی کہ لوگ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کریں۔ نہ بھی کریں تو وہ زبردستی کروا ہی لیتا تھا‘ اور یہ صرف ٹریفک پولیس کی بات نہیں ہر شعبے اور ہر طبقے میں یہ لوگ موجود ہوتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف وہ لوگ بھی ہیں اور وہ منظر بھی آنکھوں سے نہیں ہٹتا جب ایک ٹریفک وارڈن نے سڑک کنارے کھڑے ایک نابینا آدمی کو دیکھا اور دور سے آکر سڑک پار کرنے میں اس کی مدد کی۔ یہ دونوں طرح کے انسان ہمیشہ سے تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔ اچھا، بے عیب نظام یہ کرتا ہے کہ دونوں طرح کے لوگوں کو بالترتیب سزا اور صلہ دیتا ہے۔ کبھی کبھار شبہ ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں اس نظام کی ترتیب الٹی ہے۔ سزا اچھا کام کرنے والے کو ملتی ہے۔
مجھے تو کہنا بس اتنا ہی تھا کہ وہ نوجوان جو بھاری وردی پہن کر دھول، مٹی، گرمی میںچوک کے بیچوں بیچ کھڑا ہے، اس کا احترام کریں اور اس سے محبت کریں۔ اسے ایک بار پھر غور سے دیکھیں۔ کہیں یہ آپ کے جگر کا ٹکڑا تو نہیں۔ کہیں یہ آپ کا اپنا بیٹا یا بھائی تو نہیں۔