تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     29-04-2022

Imported, Yet Again...(5)

اس مرحلے پر نہ جانے کیوں مجھے قاسم حدرج یاد آئے ہیں، معروف عرب مفکر اور عالمی دانشور۔ پاکستان میں رجیم چینج پر اُن کا تبصرہ، بلا تبصرہ پیشِ خدمت ہے:
''امریکہ نے ایک گولی چلائے بغیر عمران خان کو ہٹا دیا، جبکہ یوکرائنی صدر زیلنسکی کو روس ایک مہینے سے جدید اور مہلک ترین ہتھیاروں کے بعد بھی نہیں ہٹا پایا۔ بات یہ نہیں کہ امریکہ طاقتور اور روس کمزور ہے یا پھر عمران خان کمزور اور زیلنسکی طاقتور ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلامی ملکوں کے غدار زیادہ مخلص ہیں، وہ پوری ایمانداری سے امریکہ کے لیے کام کر رہے ہیں‘‘۔
ظالمانہ مذاق یہ بھی ہے حالیہ رجیم چینج کو ساری دنیا جُرم کہہ رہی ہے، اور ہمارے سیاسی اداکار اُسے infotainment بنا کر پیش کررہے ہیں۔
پچھلی دو صدیوں سے امریکہ بہادر، رجیم چینج کا سب سے بڑا اور stand alone، ماسٹر آف دی آرٹ سمجھا جاتا ہے۔ تیونس کے ریڑھی بان محمد بو عزیزی کے احتجاج سے شروع ہونے والا عوامی غصے کا اظہار اور احتجاج آرگینک تھا۔ ظالمانہ ضابطوں اور بے رحم نظام حکومت کے خلاف‘ جس کی ابتدا 17دسمبر 2010 کو تیونس کے بڑے شہر سیدی بو زید سے ہوئی۔ لوکل میڈیا 100 فیصد تیونسی حکومت، فوج اور انٹیلی جنس Operatives کے کنٹرول میں تھا۔ ایسے میں ایک نوجوان نے پولیس کی طرف سے ہراساں کیے جانے پر پٹرول کا کنستر ہاتھ میں پکڑا، تنگ آمد بجنگ آمدکی چلتی پھرتی تصویر۔ یہ احتجاجی نوجوان گورنر کے دفتر کے سامنے پہنچا اور اپنے اوپر پٹرول چھڑک کر اپنی ہستی کے کھیت کو نذرِ آتش کردیا۔ سرکار کی جانب سے میڈیا پر سخت پابندیوں، سینسرشپ اور لفافہ صحافت کی وجہ سے، انسانیت سوزی کی اِس بڑی المناک خبر کا مکمل بلیک آئوٹ کیا گیا مگر ظلم کی یہ داستان سینہ بہ سینہ لوگوں تک پہنچ گئی۔ خود کو آگ لگانے والا بو عزیزی 4 جنوری 2011 تک ہسپتال میں رکھا گیا مگر تب تک احتجاج کا دائرہ تیونس کے سارے شہروں اور قصبوں تک پھیل چکا تھا۔
اِس احتجاج کی گونج افریقہ سے نہ صرف پورے مڈل ایسٹ تک پہنچی بلکہ اِس نے ساری دنیا کے نوجوانوں کو متاثر کیا، اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے پر آمادہ بھی۔ تیونس کے اندر، زین العابدین بن علی کا 23 سالہ اقتدارِ آمریت آخری انجام سے دوچار ہوا۔ محض 10 دن کے اندر اندر تیونس کا ڈِکٹیٹر سابق افغانی صدر اشرف غنی کی طرح ڈالروں سے بھرے ہوئے بڑے بڑے بریف کیس اُٹھا کر سعودی عرب بھاگ گیا۔ سال 2019 میں Noah Feldman نے بہارِ عرب کے عنوان سے کتاب لکھی‘ جو ایفروعرب کی 5 آمریتوں کے مجموعی طور پر 146 سالہ آئرن ہینڈ رُول کے خلاف لازوال مزاحمت کی داستان بیان کرتی ہے۔ اِن میں تیونس کے زین العابدین بن علی کی آمریت، 1987 سے 2011 تک۔ حُسنی مبارک کا مصر پر قبضہ 1981 سے لے کر 2011 تک۔ لیبیا کے کرنل معمر قذافی کی حکومت 1971 سے 2011 تک۔ سوڈان کے عمرالبشیر کی آمریت 1989سے 2019 تک جبکہ یمن کے آمر علی عبداللہ صالح کی فاشسٹ حکومت 1990 سے 2012 تک۔ یہاں ہم یمن کے ایک ملک ہوجانے سے پہلے شمالی یمن پر علی عبداللہ صالح کے 12سالہ دورِ اقتدار کو 146 سال میں شامل نہیں کر رہے۔
اب یہ مسلم زمینوں کی تاریخ کا ایک درد ناک باب ہے کہ اُس وقت کی یو ایس ایڈمنسٹریشن نے اِس بہارِ عرب کو اِمپورٹڈ ڈالروں اور مقامی سہولت کاروں کی مدد سے ہائی جیک کر لیا جس کے نتیجے میں رجیم چینج کی لائنیں لگ گئیں۔ ملک شام اور یمن میں مقامی مزاحمت کار اور بیرونی مداخلت کاروں کے درمیان خون آشام جنگ آج بھی جاری ہے۔ رجیم چینج کی اِن جنگوں کا سب سے بڑا نتیجہ خونِ مسلم کی ارزانی کی شکل میں نکلا۔ لاکھوں بچے یتیم ہوئے، لاکھوں بیوائیں بے آسرا، لاکھوں ماں باپ حزن و ملال کی تصویر بن گئے۔ لاتعداد ہاتھ، ٹانگیں، بازو اور سر کٹ گرے۔ جمہوریت کے نام پر ہر ملک میں پہلے سے بھی بدترین Imported آمریت بلکہ ملوکیت مسلط کردی گئی۔ مصر کے مرسی کو ایک سال سے زیادہ نہ چلنے دیا گیا۔
مسلم اُمہ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ سب کچھ جمہوریت کی بحالی، انسانی حقوق اور آزادی کے نام پر صرف مسلم سرزمینوں میں بے رحمانہ مسلم قتل عام کے ذریعے کیا گیا۔ دوسری جانب ایشیا کے اسی خطے میں، انڈونیشیا کو کاٹ کر بنایا جانے والا عیسائی ملک East Timor، سوڈان کو توڑ کر بنایا جانے والا عیسائی ملکSouth Sudan، فلسطین کی زمینوں پر قائم کیا جانے والا امپورٹڈ ملک اسرائیل‘ ہر طرح کی مسلم، سکھ، عیسائی، بدھ، اقلیتوں کا قاتل مُلک ہندو راشٹریا انڈیا آف مودی‘ میانمار المعروف برما کے نارتھ میں واقع صدیوں سے خود مختار مسلم علاقے Rakhine State کے Maungdaw, Buthidaung, Rathedaung, Akyab, Sandway, Tongo, Shokepro, Rashong Island اور Kyauktawمیں بسنے والے ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کو زندہ جلانے والے بدھ مذہب کا پیروکار مرکز آمریت‘ ان تمام علاقوں میں کوئی بہارِ ایشیا، کوئی آزادی، جمہوریت کی کوئی Imported تحریک نہ پہنچی، نہ چلی۔ کیوں نہیں؟
اِن سب سوالوں کا ایک ہی جواب ہے: اِس لیے کہ پولیٹیکل اسلام اور شدت پسندی جیسے چورن بیچ کر مسلم اور terrorists ہم معنی بنا دیے گئے جس کے ذومعنی نتائج مسلم اُمہ ساری دنیا میں بُھگت رہی ہے۔ ایک‘ اسلاموفوبیا اور دوسرے‘ خاتم المرسلین حضرت محمدﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخیاں اور 2 ارب مسلمانوں کی مسلسل اور کھلی دل آزاریاں۔
بات ہو رہی تھی پاکستان کی خود مختاری کے خلاف مغربی استعمار، میر جعفروں اور میر صادقوں والی تازہ سازش کی‘ مگر درمیان میں مسلم اُمہ کے دل کے پھپھولے جل اُٹھے۔ آن لائن اردو انگلش ڈکشنری کھول کر دیکھ لیجئے، جہاں پر سازش کو Nounا ور Verb کی شکلوں میں بیان کیا گیا ہے، جس کے 39 معنی بیان کیے گئے۔ سازش کے چند معنی یوں ہیں‘ مثلاً پہلا:a clique (often secret) that seeks power usually through intrigue۔ ایسا گروہ جو خفیہ طریقے سے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے دغا بازی اور فریب دہی اپنائے۔
سازش کا دوسرا معنی یہ ہے، a plot to carry out some harmful or illegal act (especially a political plot)‘ یعنی کوئی نقصان دہ یا پھر غیر قانونی اقدامات کا ایسا منصوبہ جس کے ذریعے خاص طورسے سیاسی مقصد پورا کرنا ہو۔
یہاں تک پہنچ کر یہ بات تو پوری طرح سے واضح ہوگئی کہ علمِ قانون، منطق، قیافہ، ہر دلیل اور بُرھان کی روشنی میں سازش پہلے کی جاتی ہے، اور اُس پر عمل ہونا یا اُس کا نتیجہ نکلنا یہ بعد کی بات ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے انسان نومولود بچے کے طور پر پہلے پیدا ہوتا ہے‘ پھر پرورش کے بعد اُسے پروان چڑھا کر نوجوان بنایا جاتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ منصوبہ بنائے بغیر کوئی واردات، یا کریمنل لا کی زبان میں actus-rea (جرم میں شرکت) پہلے ہو اور اُس کا منصوبہ بعد میں بنے۔
سازش اور مداخلت ابھی جاری ہے‘ لہٰذا چلتے ہیں مادرِ وطن میں سازشوں کی تاریخ کی جانب۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved