تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     29-04-2022

سرخیاں، متن، ’’اسم‘‘ اور ضمیر طالب

کال دوں تو 20لاکھ لوگ اسلام آباد پہنچیں: عمران خان
سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''کال دوں تو 20لاکھ لوگ اسلام آباد پہنچیں‘‘ کیونکہ اس سے بازار اور اداروں کے ساتھ ساتھ آمد و رفت بھی بند ہو جائے گی اور عوام کو آرام کرنے کا موقع ملے گا جبکہ روزہ داروں کے لیے اتنی سہولت بھی کوئی کم نعمت نہیں ہوتی جبکہ سارا دن ہی اس کارِخیرمیں گزر جائے گا کیونکہ شائقین کی آمد دن چڑھنے سے ہی شروع ہوجائے گی اور وہ پوری آسودگی کے ساتھ میری بات سن سکیں گے جبکہ میں شروع سے عوام کو ریلیف دینے کا قائل چلا آ رہا ہوں اور میری یہ خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی اگر تاریخ واقعی کوئی چیز ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز ثاقب نثار اور مونس الٰہی سے ملاقات اور پارٹی ورکر اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
پانامہ‘ اقامہ ڈرامے کے فنکار ایک جگہ اکٹھے ہوئے: رانا ثناء
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''پانامہ‘ اقامہ ڈرامے کے فنکار ایک جگہ اکٹھے ہوئے‘‘ کیونکہ ہم جو مختلف پارٹیوں کے افراد ایک جگہ اکٹھے ہو سکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں یکجا ہو سکتے جبکہ اتفاق ہی میں برکت ہے اور دنیا بھر میں لوگوں نے متحد رہ کر ہی کامیابیاں سمیٹی ہیں چاہے یہ اتحاد عارضی اور غیر فطری ہی کیوں نہ ہو؛ تاہم شریف لوگ ایک طرف اکٹھے ہو گئے ہیں اور ڈرامہ باز دوسری طرف‘ اور لوگ حیران ہیں کہ انہیں کیا ہو گیا ہے کیونکہ ہمارا اتحاد تو آئندہ الیکشن تک ہی ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ثاقب نثار کی عمران خان سے ملاقات پر تبصرے کر رہے تھے۔
اداروں کو مضبوط فیصلے کرنا ہوں گے:مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''اداروں کو حدود کے اندر مضبوط فیصلے کرنا ہوں گے‘‘ جبکہ حکومت کی طرف سے میرے بارے میں مضبوط فیصلہ ابھی تک معلق چلا آ رہا ہے جبکہ بلاول کووزیر خارجہ بنانے کے بعد زرداری صاحب کے صدر بننے کا امکان بھی ختم ہو چکا ہے اور اس کا مضبوط امیدوار صرف خاکسار ہی رہ گیا ہے لیکن اس پر بالکل توجہ نہیں دی جا رہی اور ایسا لگتا ہے کہ جب سے پی ڈی ایم حکومت میں آئی ہے‘ صرف حکومت ہی حکومت چاروں طرف نظر آ رہی ہے‘ پی ڈی ایم کہیں نظر نہیں آ رہی‘ ایسے میں پی ڈی ایم کا صدر کسی کو کیا نظر آئے گا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
طلبہ ملک کا مستقبل‘ ناانصافی برداشت نہیں: گورنر پنجاب
گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے کہا ہے کہ ''طلبہ پاکستان کا روشن مستقبل ہیں‘ ناانصافی برداشت نہیں ہوگی‘‘ کم از کم ان چند روز تک ہرگز نہ ہوگی جب تک میں گورنر ہوں اور اگر مجھے کسی طرح ہٹایا جاتا ہے تو یہ بہت بڑی ناانصافی ہوگی کیونکہ وفاقی حکومت مجھے گورنر شپ سے ہٹانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور یہ کام کافی جلد بازی کا ہوگا کیونکہ میری گورنری کوابھی چند روز ہی تو ہوئے ہیں، چلو‘ اگر گورنری سے ہٹا بھی دیں تو کم از کم چانسلر شپ سے تو گزارہ کیا جا سکتا ہے‘ خدا انہیں نیک ہدایت دے‘ آمین۔ آپ اگلے روز بہاء الدین یونیورسٹی سے ملحق لاء کالجز کے طلبہ کے مسائل پر گفتگو کر رہے تھے۔
اسم
یہ طارق جاوید کا مجموعۂ غزلیات ہے۔ انتساب اپنے پیارے بیٹے اشعل‘ جان سے پیاری بیٹیوں فریال اور نہال فاطمہ اور چھوٹے بھائی علی رضا جاوید کے نام ہے۔ دیباچہ نگاروں میں سعود عثمانی، سید ساغر مشہدی، ڈاکٹر نعیم طارق، سید فرخ رضا، منیر راہی، عمار یاسر مگسی، ریاض شاہد پنجابی، تاثیر جعفری اور خود طارق جاوید نے قلمبند کیے ہیں جبکہ پسِ سرورق شاعر کی تصویر کے علاوہ سعود عثمانی، قمر رضا شہزاد اور ارشد عباس ذکی کی تحسینی آرا درج ہیں۔ نمونۂ کلام:
بڑی خوش فہمیاں تھیں ساتھ ہیں احباب لیکن
جو پیچھے مڑ کے دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا
تھکن کی دھوپ سے بچ کر نکلتا میں بھی طارقؔ
محبت کا مرے سر سائباں کوئی نہیں تھا
اور‘ اب آخر میں ضمیر طالب کی غزل:
یہ کس کو اختیار کر لیا ہے میں نے
کہ دل کو بیقرار کر لیا ہے میں نے
نہ رات کو ترقی کرتا ہے نہ دن کو
یہ کیسا کاروبار کر لیا ہے میں نے
ابھی تلک تو یہ بھی طے نہیں ہوا ہے
قید ہوا ہوں یا شکار کر لیا ہے میں نے
وہ نقد دے رہا تھا تھوڑا پیار مجھ کو
اسی لیے اُدھار کر لیا ہے میں نے
بھری ہوئی تھی گھر میں بے حساب تنہائی
سو خود کو بے شمار کر لیا ہے میں نے
کسی کو جس پہ اعتبار ہی نہیں ہے
اُسی پہ اعتبار کر لیا ہے میں نے
بکھر گیا ہے وہ بھی میرے چاروں جانب
اور اُس کا بھی حصار کر لیا ہے میں نے
کوئی نظر اِدھر اُدھر بھٹک رہی تھی
وہ تیر آر پار کر لیا ہے میں نے
ابھی کنارہ دور ہے ضمیرؔ اُس کا
سمجھ رہا تھا پار کر لیا ہے میں نے
آج کا مقطع
شعر ہوتے ہیں ظفرؔ لطفِ سخن سے خالی
داد ملتی ہے مجھے اب تو خوش الحانی پر

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved