محترم بیویو! جب سے ہم نے بیگمات کا صفحہ شائع کیا ہے آپ کی طرف سے ہمیں خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ آپ کے خیال میں بیگمات تو بیویاں کم اور ’’باس‘‘ زیادہ ہوتی ہیں بلکہ ان کے شوہروں کو اگر بیویاں کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ یقیناً ہم بھی کافی عرصے سے سوچ رہے تھے کہ تلافیٔ مافات کے طور پر آپ کا صفحہ بھی شروع کیا جائے کیونکہ اصل مسائل سے تو آپ کا طبقہ دوچار ہوتا ہے۔ نیز ہم پر اپنے گھر کا بھی بہت دبائو تھا اور اگر ہم یہ صفحہ شروع نہ کرتے تو جو نتائج نکلتے وہ ہمارے لیے نہایت سنگین ہوتے۔ اس لیے امید ہے کہ آپ ہماری سابقہ کوتاہی کو معاف کر دیں گی اور ہمیں اپنی دعائوں اور نیک تمنائوں میں شامل کرلیں گی اگرچہ ہماری اہلیہ محض بیوی ہیں لیکن مزاج بیگمانہ رکھتی ہیں اور جس کا ہمیں آئے دن سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے بھی ہم آپ کی دعائوں کے زیادہ مستحق ہوچکے ہیں، اگرچہ سنا ہے کہ عورت ذات کی دعائیں ذرا کم ہی قبول ہوتی ہیں، تاہم آپ یہ مہربانی ضرور کرتی رہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی دعائوں کو بھی زیادہ سے زیادہ شرف قبولیت عطا فرمائے، آمین۔ گھر کے کام کاج سے فرصت ملے تو اس کاوش کے سلسلے میں اپنی قیمتی رائے سے ضرور نوازیں کہ یہ صفحہ آپ کو کیسا لگا اور اس کی بہتری کے لیے ہمیں اور کیا کچھ کرنا چاہیے۔ ہم آپ کے قیمتی مشوروں کے منتظر رہیں گے ۔ سبق آموز واقعات ٭…ایک جگہ کچھ خواتین جمع تھیں کہ ان میں سے ایک نے اٹھ کر کہا کہ سب ایک کھیل میں حصہ لیں۔ جو خواتین اپنے خاوند سے بہت محبت کرتی ہیں وہ ہاتھ کھڑے کریں۔ سب نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ پھر کہا: ہر خاتون موبائل پر اپنے شوہر کو پیغام بھیجے کہ ڈارلنگ آپ کو مس کررہی ہوں، یا مجھے تم سے بڑی محبت ہے۔ اس کے بعد اس پیغام کا جو جواب آئے وہ بھی میرے نوٹس میں لایا جائے۔ چنانچہ ہر خاتون نے ایسا ہی کیا۔ جواب میں ایک شوہر نے لکھا۔ ’’کیا کہا؟‘‘ دوسرے نے یہ لکھا، ’’کس کو کہہ رہی ہو؟‘‘تیسرے نے جواب دیا، ’’کہیں گاڑی تو نہیں مار بیٹھی ہو‘‘ چوتھے نے لکھا، ’’تمہیں دینے کے لیے میرے پاس اور پیسے نہیں ہیں!‘‘ایک نے یہ لکھا ، تمہیں شراب پینے سے منع کیا تھا…! ٭… ایک صاحب اپنے انگریز دوست سے ملنے کے لیے گئے۔ چائے وغیرہ پینے کے بعد جب دوست کی بیوی اِدھر اُدھر ہوئی تو مہمان نے کہا کہ تم اپنی اہلیہ کو کبھی ڈارلنگ کہہ کر مخاطب کرتے ہو اور کبھی ہنی کہہ کر ، تم اس کو نام سے کیوں نہیں پکارتے تو مہمان بولا، دراصل کوئی دس سال سے میں اس کا نام بھول گیا ہوں، اور اب مارے ڈر کے اس سے پوچھتا بھی نہیں! ٭…خوش شکل نوکرانی نوکر ی چھوڑ کر جانے لگی تو مالکن نے کہا، تم چھوڑ کر جارہی ہو لیکن تمہیں معلوم ہے کہ صاحب کو تمہارے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کتنا پسند تھا۔ اب ان کا کیا بنے گا؟ ’’آپ ان کی فکر نہ کریں‘‘ نوکرانی نے جواب دیا، ’’وہ بھی میرے ساتھ ہی جارہے ہیں!‘‘ ٭…اتوار بازار میں بہت رش تھا اور ایک صاحب اپنی بیوی کو تلاش کررہے تھے کہ انہیں ایک واقف کار نظر آیا، پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ میری بیوی اس بھیڑ میں کہیں کھو گئی ہے، اس کو تلاش کررہا ہوں، اور تم؟ اس نے بتایا کہ میری بیوی بھی کھو گئی ہے اور میں بھی اسے تلاش کررہا ہوں، تمہاری بیوی کا حلیہ کیسا تھا؟ جس پر ان صاحب نے بتایا کہ رنگ سانوالا ہے، منہ پر چیچک کے داغ ہیں اور قد چھوٹا اور تمہاری بیوی کیسی ہے؟ جس پر اس نے بتایا کہ سرخ و سفید رنگ ہے، قد لمبا اور میرے خیال میں تو وہ دنیا کی سب سے خوبصورت عورت ہے۔ تو وہ صاحب بولے، میری بیوی پر لعنت بھیجو، چلو دونوں مل کر تمہاری بیوی کو ڈھونڈتے ہیں! ٭… ایک انگریز بہت بیمار تھا، جب وہ مرنے کے قریب پہنچا تو اس نے اپنی بیوی سے وصیت کی کہ مرنے کے بعد میری ساری دولت میرے ساتھ قبر میں دفن کر دینا۔ اس وقت اس عورت کی ایک سہیلی بھی پاس بیٹھی تھی اس کے مرنے کے بعد سہیلی جب تعزیت کے لیے آئی تو اس نے پوچھا کہ تمہارے خاوند نے جو وصیت کی تھی، تم نے اس پر عمل کیا یا نہیں۔ جس پر موصوفہ نے جواب دیا کہ ساری رقم میں نے اپنے پاس رکھ لی تھی اور اتنی ہی کا چیک کاٹ کر اس کے سرہانے قبر میں رکھ دیا تھا تاکہ وہ جب چاہے اسے کیش کر الے! ٭…ایک عورت دل کھول کر شاپنگ کیا کرتی تھی۔ ایک بار اس کی ایک سہیلی نے اس سے پوچھا کہ آئے دن شاپنگ کے لیے تم اتنے پیسے کیسے بچا لیتی ہو، تو اس نے جواب دیا کہ گھر میں جب بھی جھگڑا ہوتا ہے تو میں اپنے میاں سے کہتی ہوں میں نے یہاں نہیں رہنا۔ میں اپنے میکے جارہی ہوں۔ میرا خاوند مجھے کرایہ دے دیتا ہے لیکن میں جاتی نہیں اور اس طرح کافی پیسے جمع ہوجاتے ہیں! ٭…بیوی شاپنگ سے واپس آئی تو میاں نے کہا کہ یہ اتنامہنگا کپڑا خریدنے کی کیا ضرورت تھی تو بیوی بولی، یہ میں نے تمہارے رومال کے خریدا تھا۔ اس میں سے میری قمیض بھی نکل آئے گی۔ ٭…ملّا نصیرالدین دو کلو گوشت لایا اور بیوی سے کہا کہ رات کو میرے کچھ دوست آنے والے ہیں، یہ ان کے لیے پکانا ہے۔ دوپہر کو جب ملا گھر پر نہیں تھا، بیوی کی سہیلیاں آگئیں اور وہ گوشت اس نے انہیں پکا کر کھلا دیا۔ شام کو جب ملا کے دوست آئے تو گوشت نہیں تھا۔ ملّا نے پوچھا گوشت کہاں ہے تو بیوی نے جواب دیا کہ وہ تو بلی کھا گئی۔ملّا نے کہا دو کلو گوشت بلی کیسے کھا گئی۔ بلی کدھر ہے، اسے لائو، بلی آئی اور ملا نے اسے تولا تو وہ پورے دو کلو نکلی، جس پر ملّا بولا، اگر یہ بلی ہے تو گوشت کہاں ہے اور اگر یہ گوشت ہے تو بلی کہاں ہے؟ ٭…ایک صاحب بک شاپ پر گئے اور کہا کہ ایک کتاب کا اشتہار دیکھا ہے جس کا عنوان ہے ’’بیویوں کو رام کرنے کے سو طریقے،‘‘ مجھے وہ چاہیے۔ شاپ کے مالک نے کہا کہ وہ تو ختم ہوگئی ہے، البتہ آپ کی اہلیہ ابھی ابھی ایک کتاب خرید کر لے گئی ہیں جس کا عنوان ہے’’شوہروں کو بیوقوف بنانے کے سو طریقے‘‘ پسندیدہ شعر میاں میرا نکھٹو ہے فقط بھاڑے کا ٹٹو ہے ایڈیٹر کی ڈاک مکرمی! اردو کے بعض محاوروں اور تراکیب سخت قابل اعتراض بلکہ توہین آمیز ہیں جنہیں لغت سے خارج کرنا بے حد ضروری ہے۔ مثلاً غریب کی بھابی سب کی جورو۔ یہ محاورہ ایجاد کرنے والا کوئی بہت ہی بدتمیز شخص تھا۔ اس کے علاوہ بیوی کے لیے نصف بہتر کی ترکیب استعمال کی جاتی ہے جو کہ انتہائی قابل اعتراض ہے کیونکہ بیوی تو ساری کی ساری ہی بہتر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ زن مرید کی ترکیب بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ پیر پکڑنا ہر شوہر کا حق ہے چاہے وہ کسی اور کا مرید ہوجائے چاہے بیوی کی بیعت کرلے۔ والسلام: ایک ناراض بیوی آج کا مطلع میرے کی بدولت نہ تمہارے کی بدولت یہ خواب ہے قسمت کے ستارے کی بدولت
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved