عقل تو ہمیں آنی نہیں، خدا سے ہی دعا مانگ سکتے ہیںکہ ہمارے حال پہ کچھ رحم ہو۔ جہاں نظر دوڑائیں افراتفری نظر آتی ہے اور ہرگزرتے دن کے ساتھ یہ بڑھ رہی ہے۔ ذہنوں میں خلفشار پیدا ہوچکا ہے، دلوں میں بغاوٹ اُٹھ رہی ہے۔ اِس کیفیت کی کوئی سمت نہیں، بغیر سوچے لوگ غلامی کی بات کررہے ہیں ۔ برداشت کا مادہ کم ہورہا ہے اور یوں لگتا ہے کہ بس تیلی لگانے کی دیر ہے۔
جو مناظر ہم نے مسجدِ نبوی میں دیکھے ہیں اُنہیں کیا اچھا کہا جائے گا؟ لیکن جو آوازیں وہاں کَسی گئیں اُن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کس قسم کا اُبھار پیدا ہورہا ہے۔ پھر یہ بھی ملاحظہ ہوکہ مسجدِ نبوی کے مناظر سوشل میڈیا پہ پھیلتے ہیں اور سابقہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پہ اسلام آباد کے کسی ریستوران میں حملے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کس کس چیز کاذکر کیا جائے؟ یہ جو کراچی یونیورسٹی میں خودکش حملہ ہوا اور حملہ کرنے والی ایک پڑھی لکھی خاتون تھی اور اُس کے بعد جوویڈیو جاری ہوئی اُسے دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔ بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے وزیرستان کے علاقوں میں کیا کیا سوچ اور خیالات جنم لے رہے ہیں۔ پہلے ہم کہتے تھے کہ ہندوستان کے ساتھ جو ہمارا مشرقی بارڈر ہے وہ ہمارے لیے خطرناک ہے۔ اب پورے مغربی بارڈر پر حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ جب سے افغانستان سے امریکی گئے ہیں اور کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی ہے مغربی بارڈر پر ہمارے لگ بھگ ڈیڑھ سو جوان اور افسر شہید ہوچکے ہیں۔ امریکہ یا نیٹو کے اِتنے فوجی مارے جاتے تو وہاں کہرام مچ جاتا۔ ہمارے ہاں پھر بھی جن کا نقصان ہوتا ہے صبر کا گھونٹ پی لیتے ہیں اِس یقین سے کہ یہ خدا کی مرضی ہے۔
پوچھنے کی بات تو یہ بنتی ہے کہ جب ملکی حالات ایسے ہیں تو عمران خان کو نکالنے کا پنگا کیوں لیا گیا۔ جو بھی تحریک عدمِ اعتماد میں شامل تھے یا پیچھے کھڑے ہوکر جو اُنہیں ہَلہ شیری دینے والے تھے آخر اُن کے ذہنوں میں یہ کیا خیال آیا تھا کہ عمران خان کو ہٹانا ناگزیر ہے؟ چلیں، ہٹا دیا گیا، منشا پوری ہو گئی لیکن آپ کو اِس اقدام سے حاصل کیا ہوا ہے؟ ملکی حالات بہتر ہو رہے ہیں، افراتفری کم ہو رہی ہے، کیا مہنگائی پہ قابو پایا جا رہا ہے، کیا مفت کا تیل کہیں سے آ رہا ہے؟ ہم جیسے لوگ کہتے تھے کہ عمران خان کی نکمی حکومت ہے۔ عمران خان سے حکمرانی نہیں ہو رہی، اِس کے فیصلے غلط ہیں، بزدار جیسے آدمیوں کو اِس نے خواہ مخواہ اِتنی بڑی ذمہ داریاں دی ہوئی ہیں۔ یہ تنقید درست ہو گی لیکن جیسا بھی تھا کام چل رہا تھا۔ کیا حکومت اور کیا اپوزیشن سب کی دیہاڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ مہنگائی تھی لیکن لوگوں کا گزارہ ہو رہا تھا۔ اگلے انتخابات کو سال ڈیڑھ سال رہ گیا تھا۔ انتظار کیا جاتا اور انتخابات آتے تو اپنی کارکردگی کے نتائج عمران خان کو بھگتنے پڑتے۔
لیکن ٹھیکیدارانِ ملت کے ذہنوں میں یہ کون سا خیال اُٹھا کہ نہیں عمران خان کو اقتدار سے نکالنے میں کوئی دیر نہیں ہونی چاہئے۔ عمران خان کی چھٹی فوری ہونی چاہئے۔ آپ‘ جو اپنے آپ کو افلاطون سمجھتے ہیں، کی خواہش پوری ہو گئی اور نتیجتاً ملک و قوم کو ایک نہ ختم ہونے والی افراتفری میں دھکیل دیا گیا۔ سرحدوں پہ جو ہو رہا ہے وہ اپنی جگہ لیکن ملک کے اندر جو صورت حال ہے وہ ناقابل یقین ہے۔ اول تو یہ پوچھا جائے کہ کس عقل مند نے خاندانِ شریفاں کو یہ سبق دیا کہ باپ وزیر اعظم بن جائے اور بیٹا سب سے بڑے صوبہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ؟ چلیں، آپ نے یہ جھک مارنی تھی مار لی لیکن حمزہ کے الیکشن کے لیے پنجاب اسمبلی میں پولیس کو داخل ہونا پڑا اور تماشا یہ کہ اب تک ہنرمند فرزند کا حلف نہیں ہو سکا۔ عدالتیں کچھ فرما دیتی ہیں لیکن عمل درآمد نہیں ہوتا۔ حمزہ کی حلف برداری اب ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ اب خبریں آ رہی ہیں کہ وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل6 جو کہ غداری کے بارے میں ہے کے تحت صدر مملکت، عمران خان، گورنر پنجاب اور قاسم سوری کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا سوچ رہی ہے۔ یہ سونے پہ سہاگہ ہو گا۔ یعنی موجودہ صورتحال میں اگر کوئی کسر رہ گئی ہے تو یہ ریفرنسوں کی حماقت پوری کردے گی۔ پہلے تو اِن عقل مندوں سے یہ پوچھا جائے کہ آپ ایسے ریفرنس دائر کر سکو گے؟ اور پھر دائر کرنے کی بے وقوفی ہو گئی تو اِنہیں ہضم کر سکو گے؟
اِس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ملک ایسے لگ رہا ہے جیسے شتر بے مہار ہو، جیسے سٹیئرنگ ویل پہ کسی کا ہاتھ نہ ہو۔ اگر کوئی چیز چل رہی ہے تو توکل سے چل رہی ہے۔ بات رونے دھونے اور تجزیوں سے آگے جا چکی ہے۔ حالات کا تجزیہ کرکے ہم نے کیا حاصل کرنا ہے؟ اب تو کوئی حل بتائے، اِس صورت حال سے نکلنا کیسے ہے۔ ایک بات تو تقریباً روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں جو بندوبست لایا گیا ہے وہ چل نہیں سکے گا۔ تحریک عدم اعتماد سے پہلے ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہ تھی جو عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے لیکن عمران خان کو ہٹانے کی حرکت عوام کے بیشتر طبقات نے پسند نہیں کی اور اِس کی پاداش میں عمران خان کے لیے ہمدردی کی ایک طاقتور لہر پیدا ہو چکی ہے کیونکہ عدمِ اعتماد کے سارے عمل کو محض ناپسندیدگی نہیں بلکہ نفرت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس کیفیت کا آپ کیا کریں گے؟ ایک ہی حل ہے، یہ جواقتدار میں ٹولا لایا گیا ہے اِنہیں سمجھایا جائے کہ انتخابات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ پھر انتخابات کے جو نتائج ہوں اُنہیں تسلیم کیا جائے اور آگے کی طرف بڑھا جائے۔ اِس کے علاوہ ملک کیلئے اور کوئی راستہ نہیں۔
آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن نے جتنی ذہانت دکھانی تھی دکھا چکے، اب بس کریں۔ یہ جو سوچا جا رہا ہے کہ صدر عارف علوی کی جگہ آصف علی زرداری کو یا مولانا فضل الرحمن کو صدر بننا چاہئے‘ اِس سے بڑا مذاق اِس ملک سے ہو سکتا ہے؟ مطلب یہ کہ اِس ملک اور اِس ملک کے عوام کو اِن لوگوں نے کیا سمجھ رکھا ہے؟ کہ یہ بھیڑ بکریوں کا کوئی ریوڑ ہے جس کے ساتھ جو جی میں آئے کیا جائے اور آگے سے کوئی آواز بھی نہیں نکلے گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ لو گ بولنے لگ پڑے ہیں۔ عمران خان نے اور کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو اُس نے لوگوں کا مزاج خراب کر دیا ہے۔ اِس کے نتیجے میں وہ بولنے لگ پڑے ہیں۔ آوازے کسنے لگے ہیں اور سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کررہے ہیں۔ ہم جیسے تو گزرے دور کے لوگ ہیں، ہمیں یہ معلوم نہ تھا کہ سوشل میڈیا بندر کا وہ اُسترا نکلے گا جو کسی کے کنٹرول میں نہیں رہے گا۔ پہلے لبوں سے آواز یا تو نکلتی نہ تھی اور نکلتی تھی تو کہیں پہنچ نہ پاتی تھی۔ اب گالی دینا اور نفرت کا اظہار آسان ہو گیا ہے اور اِس کا پھیلاؤ آگ کے پھیلاؤ سے کہیں زیادہ تیز اور خطرناک ہو چکا ہے۔
سچ پوچھیے تو ڈر لگ رہا ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ مرض جو قوم کو لاحق ہے اُس کی دوہری نوعیت ہے۔ اوپر والے لوگ خود غرض بھی ہیں اور کم عقل بھی۔ جب حالات ویسے ہی خراب ہوں تو مزید خراب کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ اب اِس بھنور سے نکلنے کی کوشش کی جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved