ہما شما تو خیر کس شمار میں ہیں،یہ گمان نہیں تھا کہ اس بد بختی کے ہاتھ حریم پیغمبر تک جا پہنچیں گے۔ایسی بے احتیاطی؟ ایسا جنون؟ ایسا ہیجان؟
ادب گاہ ہیست زیرِ آسماںاز عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
بارگاہ ِ پیغمبرﷺ کی حساسیت ایسی ہے کہ خود عالم کے پروردگارنے اس کاا علان کیا۔جبریل وحی لے کے آئے کہ لوگو،خبر دار رہو!اس دربار میں تمہاری آواز،پیغمبر کی آواز سے ہمیشہ پست رہے۔ایسا نہ ہوکہ اس گستاخی کی پاداش میں تمہاری عمر بھر کی نیکیاںغارت ہو جائیں اور تمہیں اس زیاں کا احساس ہی نہ ہو۔اس آیت کا مخاطب تو وہ نو مسلم تھے جو اس بارگاہ کے آداب سے واقف نہیں تھے،ابوبکر صدیق ؓ جیسے مزاج شناسِ پیغمبر نہیں۔اس آیت کے نزول کے بعد مگر ان کا حال یہ تھا کہ نبیﷺ کی مجلس میں اپنی آواز اتنی پست کر لی کہ اس کا سننا مشکل ہو گیا۔اس تنبیہ کو کتاب اللہ میںاس لیے لکھ دیا گیا کہ قیامت کی صبح تک اہلِ اسلام کو اس حریم پر حاضری دینی ہے اور اس کے آداب قیامت تک یہی ہیں۔
امام بخاری نے حضرت سائب بن یزید سے روایت کیا ہے کہ میں مسجد نبوی میں کھڑا تھا ۔ کسی نے کنکری مار کر مجھے اپنی جانب متوجہ کیا۔ دیکھا تو عمر ؓابن خطاب تھے۔ انہوں نے دو آدمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: انہیں میرے پاس لاؤ۔ میں انہیں لے کر امیر المومنین کے پاس پہنچا تو آپؓ نے ان سے پوچھا: کہاں سے آئے ہو؟ کہا: طائف سے۔ امیر المومنینؓ نے فرمایا: اگر تم مدینہ کے ہوتے تو میں تمہیں سزا دیتا۔ تم اللہ کے رسول ﷺ کی مسجد میں اپنی آواز بلند کر رہے ہو؟
سیدنا عمرؓ نے ان کی لاعلمی کے باعث نظر انداز کیا ور نہ یہ قابلِ تعزیر جرم تھا۔جنہوں نے گزشتہ شب مسجد نبوی کی حرمت کو پامال کیا،وہ بھی شاید اس بارگاہ کے آداب سے ناواقف ہوں کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کر یہ جسارت نہیں کر سکتا۔سوال مگر یہ ہے کہ ان لوگوں میں یہ ہیجان کیسے پیدا ہوا؟وہ کون تھا جس نے انہیں اس راہ پر ڈالا کہ وہ ایسے مقدس مقام پر بھی ہوش سے بے گانہ ہو گئے؟
جن مصلحین کے ذمے ان سوالات کے جواب تھے،ان میں ایک مکرم و محترم طارق جمیل صاحب بھی تھے۔وہ شاید اب اس کا جواب نہ دے سکیںکہ جس رات یہ واقعہ ہوا،اسی رات میدانِ دعوت کے یہ شا ہ سوار، اقلیمِ سیاست میں باضابطہ قدم رنجہ فرمارہے تھے۔ رمضان کی ستائیسویں رات اوروہ بھی شبِ جمعہ ۔کیا مبارک ساعتیں تھیں جب حضرت نے زبانِ حال سے اس وادی میں قدم رکھا۔نصف صدی کی ریاضت نے ،خیال ہوتا ہے کہ انہیںحق الیقین تک پہنچادیاہے کہ ان کی اصل منزل یہی ہے۔
جان ہی دے دی آج جگر نے پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا
یہ مذہبی لغت میں ایک سیاسی تقریر تھی۔میں نے دودھ کے دانت ایسی تقریریں سنتے ہوئے توڑے ہیں۔میںاس زبان سے واقف ہوں۔ابتدا میں ،میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ یہ مذہبی خطبے ہیں۔بڑی ریاضت کے بعد معلوم ہوا کہ مذہبی سیاست کیا ہوتی ہے اور مذہب کی سیاست کیا؟سیاسی دین داری اور دین دار سیاست میں کیا فرق ہے؟ سیاست کو مذہبی اخلاقیات کا پابند بنانا کیا ہوتا ہے اور مذہب کو سیاسی مقاصد کا اسیر بنانا کیا؟ حضرت کا خطبہ اوررقت آمیز دعا سن کر میں بھی رویا۔میرا حسنِ ظن پانی بن کر آنکھوں کے راستے بہہ گیا۔
اس حسنِ ظن کا آغازشادی کی ایک تقریب سے ہوا تھا۔ حضرت کے ایک مرید نے اپنی بیٹی کے نکاح پر انہیں مدعو کیا۔تقریب کیا تھی،دولت کی ایک تکلیف دہ نمائش۔ طارق جمیل صاحب خطبہ نکاح کے لیے تشریف لائے تو اصراف پر ایک اثر انگیز تقریرکی۔میں بھی متاثر ہوا۔مجھے محسوس ہوا کہ میں ایک سچے داعی کوسن رہا ہوں۔میں نے اس کالم میں انہیں خراجِ تحسین پیش کیا کہ اُس موقع پریہی گفتگودعوت کا تقاضاتھا۔
معاملہ انفردی اصلاح کاہو توبات کہنے کے لیے جلوت ہی موزوں ہے۔لیڈروں کا معاملہ مگر دوسرا ہے۔اس کے لیے برسرِ منبر بات کی جاتی ہے۔اس لیے کہ ان کا شر متعدی ہوتا ہے اور سماج کو ان سے بچانا،خلقِ خدا کے حقوق میں شامل ہے۔ امام مالک ؒہوں یا امام احمد ابن حنبلؒ،ہمارے اسلاف کی روایت یہی ہے۔اسلاف کیا،اس روایت کو زندہ رکھنے والے اخلاف بھی یہی کرتے رہے ہیں۔بیگم عابدہ حسین کی شادی بھی اسراف کا ایک اعلیٰ نمونہ تھی کہ اشرافیہ کی تقریب تھی۔فضول خرچی کے ایسے مناظر تھے کہ مہمانوں میں سلامتیٔ طبع رکھنے والوں کی طبیعت مکدر ہونے لگی۔دو افراد کے لیے ناقابل برداشت ہوگیا اور وہ اُٹھ کر چلے گئے۔یہ تھے مولانا مودودی اور حمید نظامی۔
طارق جمیل صاحب کے ساتھ حسنِ ظن کا چراغ، برسوں روشن رہا۔ بارہاپریشان کن واقعات کی آندھی نے اسے بجھانا چاہا مگردل جواز کی دیوار کھڑی کرتا اوراس منہ زور ہوا کو روکتا رہا۔ خدشات نے سر اٹھایا توکالم میں اس کا اظہار بھی کیا۔ محترم سے فون پر بات ہوئی تواپنا تاثر براہ راست ان تک پہنچایا۔ لوگ طرح طرح کی خبریں لاتے لیکن دل ماننے پر آمادہ نہ ہوتا۔
اسی حسنِ ظن کے ساتھ رمضان کی ستائیسویں شب کا خطبہ اور متوقع رقت آمیز دعا سننے کے لیے بیٹھا۔گمان یہ تھا کہ سماج کے چاک ہوتے اخلاقی پیرہن کا نوحہ پڑھیں گے ۔وہ بتائیں گے کہ اس صورت میں ایک لیڈر کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے۔بد تمیزی،بد کلامی،الزام تراشی،برے القاب سے پکارنا،جب معاشرے کا چلن بن جائے توکیسے لیڈر کو آگے بڑھ کر اسے روکنا چاہیے۔اور اگر لیڈر ہی اس آگ کو بھڑکانے والے ہوں تو سماج کو جلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔وائے افسوس کہ ایسا کچھ نہ ہوا۔بات اس طرف گئی تو حضرت کی زبان لڑکھڑا گئی۔ایک قومی المیے کو ہنسی میں ٹال دیا۔اگر وہ اتنے سنگین قومی حادثے کو ہنسی میں نہ اڑاتے اور اپنے راہنما کو بروقت متنبہ کرتے تو یہ ہیجان حریمِ پیغمبر تک نہ پہنچتا۔ اب ایک بے ضرر ٹویٹ اس ضررکا مداوا نہیں کر سکتا جو ہمارے اخلاقی وجود کو پہنچ چکا۔
اس تقریر سے محترم طارق جمیل کے ساتھ حسنِ ظن کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچامگر دوسری طرف، میں جذبات پر ان کے کنٹرول کا بھی میں قائل ہو گیا۔ان میں یہ صلاحیت آخری درجے میں پائی جاتی ہے کہ جب چاہیں دل کو موم کر لیں اور خود پررقت طاری کرلیں اورچاہیں تو اگلے ہی لمحے مسکرانے لگیں۔میرا خیال تھا کہ اس فن میں ،عامر لیاقت صاحب کا کوئی ثانی نہیں۔ طارق جمیل صاحب مگر بازی لے گئے۔اس سے پہلے ،میں ان کی تقریر کو سنتا تھا۔اس بار اسے دیکھا۔خطابت کو میں پہلے بھی فنونِ لطیفہ میں شامل سمجھتا تھا۔اب اس کا پوری طرح قائل ہو گیا۔
سیاست میں باضابطہ طور پر قدم آرائی پر میں محترم طارق جمیل صاحب کو ہدیہ تبریک پیش کر تا ہوں۔سیاست کوئی بری شے نہیں۔اس میں حصہ لینے کی اخلاقی لحاظ سے ممانعت ہے اور نہ شرعی اعتبار سے۔تاہم ایک سیاست دان داعی نہیں ہو سکتا۔مناسب ہوگا کہ وہ اب خود کو سیاست کے لیے خاص کر لیں۔دعوت کا تو اس میں بھلا ہے ہی،اللہ کرے سیاست کو بھی کچھ بھلا ہو جائے۔ شاید لوگ حریمِ پیغمبر ہی کا احترام سیکھ لیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved