تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     30-04-2022

اور اب الیکشن کمیشن کی باری

آج کے موضوع کی طرف آنے سے پہلے آئیے اس ٹریجڈی پر اظہارِ افسوس کرلیں جس نے پاکستان کے ہر شہری کو آزردہ اور غمزدہ کردیا ہے۔ اسی ہفتے منگل کے روز کراچی میں ایک خودکش حملہ ہوا۔ یہ حملہ کسی شاہراہ، کسی کیمپ یا کسی فیکٹری میں نہیں کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس سنٹر کے ڈرائیووے پر ہوا۔ دہشت گردی کی اس خوفناک واردات میں ہمارے سب سے قریبی دوست چین کے تین پروفیسر ہلاک ہوگئے۔ ایک سنٹر کے مرد ڈائریکٹر، دو نوجوان خواتین اساتذہ اور ان تین کے علاوہ وین کا پاکستانی ڈرائیور بھی ہلاک ہوا۔ اس افسوسناک واقعے نے ہر دل کو غمناک کردیا۔
ان معلومات نے ٹریجڈی کو اور بھی المناک بنا دیا ہے کہ خودکش حملہ آور ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھی جس نے اُس شخصیت سے منسوب سنٹر کے غیرملکی اساتذہ کو نشانہ بنایا جو ہمیں اچھا انسان اور مفید شہری بننے کی تربیت دے رہے تھے۔ سرزمین چین سے تعلق رکھنے والے حکیم و دانا کنفیوشس تقریباً اڑھائی ہزار سال پہلے اس دنیا میں وارد ہوئے اور نصف صدی تک لوگوں کو اچھا انسان بننے کی تلقین کرتے رہے۔ ان کی تعلیمات کو چین میں ہی نہیں جاپان اور کئی ایشیائی ممالک کے کروڑوں انسانوں نے اپنایا اور اپنے دل میں بسایا۔ کالم کی تنگ دامانی کی بنا پر ہم کنفیوشس کے دو تین اقوال ہی آپ کے سامنے پیش کرپائیں گے۔
٭ تعلیم کا مقصد ایک مثالی انسان کی تشکیل ہے
٭ اعلیٰ انسان لفاظی کے بجائے عمل میں سبقت کو ترجیح دیتا ہے
٭ اگر تم نے نفرت کی تو تم ہار گئے
اب آئیے آج کے موضوع کی طرف۔ گزشتہ چھ سات ہفتوں سے ایک طرف آئین کی سربلندی کا غلغلہ ہے تو دوسری طرف علی الاعلان نہ صرف آئین شکنی کی جارہی ہے بلکہ اُس پر کوئی خفت بھی محسوس نہیں کی جارہی۔ تحریک عدم اعتماد پارلیمانی جمہوریت کا ایک بنیادی جزوہے۔ جب کوئی وزیراعظم ایوان میں ممبران کی اکثریت سے محروم ہو جاتا ہے اور اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی جاتی ہے تو اُس پر ایک پروسیجر کی پابندی سپیکر اور ایوان پر عائد ہو جاتی ہے۔ سپیکر نے سابق وزیراعظم عمران خان کے کہنے پر اس پروسیجر سے انحراف کیا تو اپوزیشن عدالت چلی گئی۔ وہاں چند روز کی سماعت کے بعد ایک فیصلہ سنایا گیا مگر اس پر بھی عملدرآمد میں لیت و لعل سے کام لیا جاتا رہا اور یوں لگتا تھا کہ اسمبلی کے سپیکرز کو عدالت عظمیٰ کے احکامات کے نفاذ سے روک دیا گیا ہے۔ جب سپریم کورٹ کی طرف سے دیے گئے فیصلے کے نفاذ کے لیے مقرر کردہ ڈیڈ لائن میں ایک آدھ گھنٹہ باقی رہ گیا تو عدالت عظمیٰ نصف شب کو کھل گئی۔ یوں لگتا تھا کہ ملک کو کسی آئینی و جمہوری بحران سے بچانے کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرنے کا تہیہ کر لیا گیا تھا۔
اس سے پہلے اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان سے اپنی اَن کنڈیشنل سپورٹ واپس لے لی تھی اور آئینی تقاضوں کے مطابق نیوٹرل کردار ادا کرنے کا اعلان کر دیا تھا؛ تاہم خان صاحب نے ایوان میں آئین کی عملداری سمیت مختلف اقدامات کو نشانۂ تنقید بنانا شروع کر دیا اور مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ نے آئینی تقاضوں کے عین مطابق وجود میں آنے والی وسیع تر اتحادی حکومت کے خلاف ایک طوفان برپا کردیا۔ عمران خان نے اپنی مہم کے لیے امریکہ میں پاکستانی سفیر کی طرف سے ارسال کردہ ایک خط کو اُن کے خلاف ایک امریکی سازشی منصوبہ قرار دے ڈالا۔ اگرچہ اس دوران نیشنل سکیورٹی کونسل کے دو اجلاسوں میں اعلیٰ ایجنسیوں کی تحقیق کے مطابق عمران خان کی حکومت کے خلاف کسی سازش کا کوئی سراغ نہ ملا۔
اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور ''امریکی سازش‘‘ کا واویلا کرنے کے بعد اب خان صاحب نے اپنی توپوں کا رُخ چیف الیکشن کمشنر کی طرف کردیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ خود عمران خان کی فرسٹ چوائس تھے۔ شیخ رشید احمد راجہ صاحب کو اُس وقت سے بخوبی جانتے تھے جب وہ سیکرٹری ریلوے تھے۔ شیخ صاحب اُن کے سو فی صد فیئر ہونے کے بہت بڑے مداح تھے۔ راجہ صاحب کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کانٹوں بھرا تاج پہننے کے وہ خواہش مند نہ تھے۔ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ چیف الیکشن کمشنر بننے والے ہیں مگر ایک روز انہیں اچانک اس تقرری کا پروانہ وصول ہو گیا۔
سکندر سلطان راجہ کا تعلق میرے تاریخی شہر بھیرہ سے ہے۔ راجہ صاحب تعلیم میں روزِ اول سے ایک شائننگ سٹار تھے۔ بھیرہ کے لوگ جانتے ہیں کہ یہاں کی راجہ فیملی اصول کی پاسداری کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہو جانے کی شہرت رکھتی ہے اور اس سلسلے میں وہ کسی طرح کا دبائو ہرگز قبول نہیں کرتی۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ سکندر سلطان راجہ کا بھی اپنی ساری سروس کے دوران یہی آنرایبل رویہ رہا ہے۔ وہ اپنی آبائی روایات کے مطابق کسی طرح کے دبائو کو ہرگز خاطر میں نہیں لاتے۔ پی ٹی آئی کے الیکشن کمیشن کے دفاتر کے باہر مظاہروں کے بارے میں راجہ صاحب نے یہ کہہ کر لاجواب ردعمل کا اظہار کیا کہ ہم نے یہ نہیں دیکھنا کہ باہر پانچ بندے آئے ہیں یا پانچ لاکھ، ہمارا فیصلہ سو فیصد میرٹ پر ہوگا۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین کے خلاف اُن کی جماعت کے ہی ایک بانی ممبر اکبر ایس بابر نے 2014ء میں فارن فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن میں دائر کیا تھا۔ شکایت کنندہ کا کہنا ہے کہ یوں تو فنڈ جمع کرنے میں پاکستانی قوانین کے اعتبار سے کئی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں غیرقانونی اکائونٹس کو چھپایا گیا۔ تاہم ان اکائونٹس کے عدم وجود کے بارے میں فیک سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن میں جمع کروایا گیا تھا۔
اس وقت اقتدار سے آئینی طور پر محروم ہونے والی جماعت ایک خوفناک آئینی بحران پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ یہ جماعت اپنے چیئرمین کی قیادت میں ایوانوں کو مانتی ہے نہ ہی عدالتوں کے فیصلوں کو خوش دلی سے تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن کے ضابطوں کا پاس لحاظ کرنے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ آج کا پاکستانی منظرنامہ یہ ہے کہ ایوانوں کو آئین کی پاسداری سے روک دیا جاتا ہے، گورنر کو حلف برداری سے روک دیا جاتا ہے، صدر کو اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے سے روک دیا جاتا ہے اور عدالتوں اور الیکشن کمیشن کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ یہ ایک نہایت الارمنگ صورتِ حال ہے جس کا نتیجہ سوائے انارکی اور خانہ جنگی کے اور کچھ نہیں جس کے جگہ جگہ ٹریلرز شروع ہوچکے ہیں۔
اس رویے کے خلاف ساری سیاسی جماعتوں کو اپنے اپنے سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے کھڑے ہوجانا چاہئے۔ پاکستان میں دستور کی تشکیل کے لیے جماعت اسلامی نے 1948ء سے ہی مہم شروع کر دی تھی۔ خاص طور پر 1973ء کے اسلامی جمہوری دستور کو تمام صوبوں کی ایک متفقہ دستاویز بنانے میں جماعت اسلامی نے ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ آج اسی آئین کو بحرانوں اور طوفانوں کی نذر کرنے کے لیے جو غیرآئینی مہم چلائی جا رہی ہے اس کا فوری تدارک تمام جماعتوں کی بالعموم اور جماعت اسلامی کی بالخصوص اولین ذمہ داری ہے۔
تاہم چیف الیکشن کمشنر کو نشانے پر لینے والوں کو یہ بات پلے باندھ لینی چاہئے کہ وہ ہرگز کسی دبائو کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved