تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     30-04-2022

پاکستان آئی ایم ایف کے شکنجے میں

پاکستان پہلی مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس 1958ء میں گیا تھا اور اب تک 22مرتبہ جا چکا ہے‘ اس لیے کہ ہمارا ادائیگیوں کا توازن تواتر سے خراب ہو رہا ہے۔ ہماری مثال اُس پرانی کار جیسی ہے جو بار بار ورکشاپ لے جانا پڑتی ہے ۔موجودہ آئی ایم ایف پروگرام 2019ء سے جاری ہے۔ چھ ارب ڈالرز میں سے تین ارب مل چکے ہیں‘ باقی ماندہ بھی مل جائیں گے۔ بلکہ اب تو ہم نے دو ارب مزید قرضے کی درخواست بھی کرڈالی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب بین الاقوامی ادارے ایسے عادی قرض خواہ کو کچھ دیتے ہیں تو شرائط بھی کڑی لگاتے ہیں اور پھر مہنگائی بڑھتی ہے‘ روپے کی قدرگرتی ہے تو افراطِ زر میں اضافہ ہوتا ہے ‘حکومتی اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے‘ درآمدات مہنگی ہو جاتی ہیں‘ ادائیگیوں کا توازن پھر بگڑتا ہے اور ہمیں مزید قرضے لینا پڑتے ہیں ۔یہ قرضے بہت خطرناک دلدل ہیں جس میں پھنسنے کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔ آئی ایم ایف نے کبھی ہمیں زبردستی قرضہ نہیں دیا اور نہ کبھی اصلاحات سے روکا ہے۔ ہمارے سامنے کی بات ہے اور ممالک بھی آئی ایم ایف کے پاس مالی امداد کیلئے گئے مگر پھر تہیہ کیا کہ خود انحصاری کی جانب بڑھیں گے‘ اصلاحات کریں گے‘ ٹیکس کولیکشن بڑھائیں گے اور آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کریں گے۔
بنگلہ دیش اور انڈیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ بنگلہ دیش نے 1974ء سے لے کر 2012ء تک دس مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض لیا‘ لیکن اُس کے بعد یعنی گزشتہ دس سال سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہے‘ بیرونی ادائیگیوں کے حوالے سے انڈیا نے صرف سات مرتبہ اس بین الاقوامی ادارے سے قرض لیا اور 1991ء میں یہ سلسلہ بند کر دیا ۔ ایک ہم ہیں کہ قرض کی مے ہماری دائمی عادت بن چکی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہماری درآمدات بے تحاشا ہیں‘ قرضوں پر سود کی ادائیگی ناقابلِ برداشت بوجھ بنتی جا رہی ہے۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بنگلہ دیش سے کم ہیں۔ جب بھی ہمیں بھاری ادائیگیوں کا سامنا ہوتا ہے تو ہم لامحالہ چند دوست ممالک اور آئی ایم ایف کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ اب ہماری حالت اُس مریض جیسی ہے جو بار بار انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل ہوتا ہے۔ اُسے آکسیجن لگا دی جاتی ہے۔ پرہیزی کھانا ملتا ہے اور مریض صحت یاب ہو جاتا ہے۔ ہسپتال سے نکلتے ہی وہ پھر سے بدپرہیزی شروع کر دیتا ہے اور مرض پوری شدت سے پھر لوٹ آتا ہے۔ پاکستان سری لنکا کے نقش ِقدم پر چل رہا ہے۔ مجھے تو ڈر ہے کہ ہماری قرض لینے کی لت ہماری نیشنل سکیورٹی کیلئے بہت بڑا مسئلہ نہ بن جائے۔
میں دوبارہ کہنا چاہوں گا کہ اس افسوسناک صورت حال کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔ ہم اُس بگڑے ہوئے نواب کی طرح ہیں جو مقروض ہے مگر پھر بھی اپنے اللّے تللّے جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہماری پالیسیاں دیرپا نہیں ہیں‘ فوری مالی ضروریات کو داخلی طور پر پورا کرنے کیلئے ہر دو تین سال بعد ٹیکس ایمنسٹی سکیم آ جاتی ہے۔ چار پیسے اکٹھے کرنے کیلئے حکومت کالا دھن سفید کرنے کی اجازت دے دیتی ہے یا پھر آئی ایم ایف کے پاس کشکول لے کر چلی جاتی ہے لیکن بنیادی اقتصادی اصلاحات نہیں کر پاتی۔ معیشت کو دستاویزی نہیں بنا سکتی۔
کہنے کو پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے لیکن ہماری اشرافیہ کی عادات سپر پاور کے شہریوں سے بھی آگے ہیں۔ ویلتھ ٹیکس جنرل مشرف کے زمانے میں معطل ہوا اور آج تک بحال نہیں ہو سکا اس لئے کہ اشرافیہ کو سوٹ نہیں کرتا۔ پچھلے سال بجٹ تجویز تھی کہ دو کنال اور اس سے زائد پلاٹوں پر بنے گھروں پر اضافی ٹیکس لگے گا لیکن فائنل بجٹ کا حصّہ نہ بن سکی‘ ہماری اسمبلیوں میں بیٹھی اشرافیہ کوئی اضافی ٹیکس دینے کو تیار نہیں نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ستر فیصد ٹیکس بالواسطہ یعنی Indirectہیں جن کا بوجھ غریبوں پر زیادہ پڑتا ہے اور یہ وہ غریب ہیں جن کی کمر پہلے ہی مہنگائی سے دہری ہو چکی ہے۔
ہماری درآمدات میں سب سے زیادہ خرچ ڈیزل اور فرنس آئل امپورٹ پر ہوتا ہے۔ آئل امپورٹ کرنا ہماری مجبوری ہے لیکن ہم ان درآمدات کو بیس فیصد تک آسانی سے کم کر سکتے ہیں۔ امریکہ اور کینیڈا میں بچے صرف قریب والے سکولوں میں ہی داخل ہو سکتے ہیں۔ مغربی ممالک میں پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم بھی شاندار ہے۔ لندن‘ ٹورانٹو اور نیو یارک میں اشرافیہ بھی انڈر گراؤنڈ ٹرین پر سفر کرتی ہے مگر ہمارے ہاں صاحب بہادر'' جنگلہ بس‘‘ میں سفر کرنے کو تیار ہی نہیں۔ بڑے گھروں کے باہر کئی کئی گاڑیاں کھڑی ہیں۔ ایک بچے کا سکول بیس کلو میٹر شمال کی طرف ہے تو دوسرے کا پندرہ کلو میٹر جنوب کی جانب۔ تیسرا بچہ مشرق کی طرف کسی اچھے سے پرائیویٹ سکول میں جا رہا ہے‘ تین کاریں صبح مختلف ڈائریکشن میں جاتی ہیں اور دوپہر کو پھر یہی عمل دہرایا جاتا ہے۔ تیل کا ضیاع‘ سڑکوں پر رش اور دھواں۔ ہر اچھے سکول کے باہر صبح اور دوپہر ہزاروں کاریں‘ مگر اصلاح ِاحوال کی کسی کو پروا نہیں۔ سڑکوں پر فراٹے بھرتی ہوئی شاندار کاریں دیکھیں تو لگتا ہی نہیں کہ پاکستان کوئی غریب ملک ہے۔ ٹویوٹا لینڈ کروزر کا نیا ماڈل ساڑھے سات کروڑ کا ہوگا مگر پاکستانی اشرافیہ خریدے گی۔ کس انکم ٹیکس افسر میں ہمت ہے کہ لینڈ کروزر والے سے ٹیکس کے بارے میں سوال کر سکے۔ مرسیڈیز E کلاس کا 2021ماڈل دو کروڑ ساٹھ لاکھ میں دستیاب ہے اور یہ کار ہماری سڑکوں پر نظر آتی ہے۔ Audi اور BMWبھی اسی پرائس رینج میں ہیں۔ ہم ایمانداری سے ٹیکس دینے پر عمل پیرا نہیں‘ چونکہ ہم خود اصلاحات کرتے نہیں‘ لہٰذا آئی ایم ایف کا ایک وفد اگلے ماہ پاکستان آ رہا ہے کہ وعدوں کے نفاذ یعنی Complianceکا جائزہ لے سکے۔
بنگلہ دیش نے زیادہ محصولات اکٹھا کرنے کیلئے ترغیبات (Incentives) کا استعمال کامیابی سے کیا ہے۔ جو انکم ٹیکس افسر زیادہ ریونیو سرکاری خزانے میں جمع کراتا ہے اسے اس کی پسند کی پوسٹنگ ملتی ہے‘ اسی طرح ٹیکس میں شفافیت لانے کیلئے سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے افراد اور کمپنیوں کی تشہیر کی جاتی ہے تاکہ دوسروں کو ترغیب ملے۔ ہمارے ہاں یہ سب کچھ کیوں نہیں ہو سکتا تاکہ ہم بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور نہ ہوں؟
تیل کی امپورٹ کے بعد کاروں کی درآمد ہمارا دوسرا بڑا خرچ ہے۔ ہم ہر سال اربوں ڈالر کوریا‘ جاپان اور انگلینڈ کو کاریں اور بسیں امپورٹ کر کے دیتے ہیں۔ کیا ہم ایک بھی کار خود نہیں بنا سکتے؟
انڈیا میں International Taxation Wingایک آزاد ادارہ ہے یعنی سنٹرل بورڈ آف ریونیو کا حصّہ نہیں۔ اس ادارے کے افسر ملٹی نیشنل کمپنیوں سے ڈیل کرتے ہیں‘ بیرون ملک کالے دھن کی پناہ گاہوں (Tax Heavens) کا کھوج لگاتے ہیں۔ ہمارے ہاں چھ سال پہلے پانامہ کا شور مچا مگر نتیجہ صفر۔اب یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ اپنے گھر کی اصلاح کرنی ہے یا بار بار کشکول اٹھا کر آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے۔ معاشی فیصلے سیاسی بنیادوں پر نہیں ہونے چاہئیں‘ مگر ہم ماضی سے کچھ نہیں سیکھے۔ پچھلے سال ریکارڈ ٹیکس جمع کرنے والے چیئرمین ایف بی آر کو ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔ لاکھوں ڈالروں کا سامانِ زیبائش امپورٹ ہو رہاہے‘ کتوں اور بلیوں کیلئے Pet Foodبھی امپورٹ ہو رہی ہے۔ ہمارے اللّوں تللّوں کے ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved