تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     30-04-2022

اولاد کے نام کھلا خط!

مجھے بچے بہت اچھے لگتے ہیں‘ یہ جنت کے پھول ہیں جو زمین پر آ گئے ہیں۔ پیارے پیارے‘ بھولے بھالے‘ اپنی شرارتوں سے سب کا دل موہ لینے والے۔ میری کوئی اولاد نہیں ہے لیکن میرے خمیر میں ممتا ہے‘ میں بچپن ہی سے چھوٹے بچوں کو بہت پیار کیا کرتی تھی۔ بہت سارے بچوں کو‘ جو میرے رشتہ داروں‘ محلے داروں اور ملازمین وغیرہ کے تھے‘ میں نے ماں بن کر پالا ہے۔ جب میں سکول سے واپس آتی تو سب بچوں کو جمع کر لیتی‘ کسی کو کھانا کھلاتی‘ کسی کو لوری سناتی اور کسی کے ساتھ خود کھیلنے بیٹھ جاتی۔ سب کہتے تھے کہ جویریہ! تم خود ابھی بچی ہو‘ کیسے ان سب شرراتی بچوں کو سنبھال لیتی ہو؟ میں کہتی تھی: پتا نہیں‘ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے کہ میں ان سے پیار کرتی ہوں‘ یہ مجھ سے پیار کرتے ہیں‘ بس مجھے بچے اچھے لگتے ہیں۔ میری سالگرہ کا کیک ہمیشہ میرے بہن‘ بھائیوں اور دوستوں کے بچے کاٹتے ہیں۔ مجھے اب بھی بچے بہت پسند ہیں۔ ان کے کام کرنا‘ ان کے لیے تحائف لینا مجھے اچھا لگتا ہے۔ میری بیشتر سہیلیاں اپنے بچے میرے پاس چھوڑ جاتی ہیں اور وہ میرے ساتھ خوش رہتے ہیں۔ ان بچوں کو اگر والدین سے ڈانٹ پڑ جائے تو وہ اپنے گھر سے وڈیو کالز کر کے مجھے شکایتیں بھی لگاتے ہیں اور میں پیار سے انہیں سمجھاتی ہوں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ بچوں کو پیار‘ محبت کے ساتھ دینی اور اخلاقی تعلیم دی جائے۔ میں ان کو سمجھاتی ہوں کہ والدین کا کہنا مانیں‘ اپنا دل نماز‘ قرآن اور پڑھائی میں لگائیں‘ والدین سے کچھ نہ چھپائیں‘ کوئی بری چیز انٹرنیٹ پر نہ دیکھیں اور نہ ہی اپنے سے بڑ ی عمر کے افراد سے دوستی کریں‘ آپ کی ایک غلطی والدین کے لیے عمر بھر کا طعنہ بن سکتی ہے۔ بچوں کو لاڈ کے ساتھ اچھائی‘ برائی سے آگاہ کیا جانا چاہئے۔ ان کو احترام دیا جائے۔گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کے بارے میں بتایا جائے کیونکہ باہر کی دنیا میں بہت سے خطرات ہیں اس لیے ان کو محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ سو میرا اولاد کے نام یہ کھلا خط تمام بچوں کے نام ہے اور والدین سے میری گزارش ہے کہ ان کو یہ خط ضرور پڑھائیں۔
پیارے بچو! جب آپ اس دنیا میں آنے والے تھے تو آپ کے والدین خوشی سے نہال تھے‘ آپ کے بابا ہر طرح کے پھل‘ سوغاتیں لاتے تھے تاکہ آپ کی صحت مند پیدائش ہو۔ انہوں نے آپ کیلئے اوور ٹائم کرنا شروع کردیا تاکہ جب آپ دنیا میں آئو تو آپ کو ہر طرح کی آسائش ملے۔ سارا دن دھوپ‘ گرمی میں کام کیا تاکہ زیادہ پیسے کمائے جاسکیں اور آپ کو کوئی تنگی نہ ہو۔ آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ آپ کی ماما نے آپ کی وجہ سے کتنی تکلیفیں جھیلیں‘ وہ بخار میں بھی دوائی نہیں کھا پاتی تھیں‘ انہیں بار بار واش روم جانا پڑتا تھا۔ آپ کے بابا کام پر دھیان نہیں دے پاتے تھے‘ بار بار آپ کی ماما کو فون کرتے تھے کہ وہ ٹھیک ہیں یا نہیں۔ ماما پہلے جتنی خوبصورت نہیں رہیں‘ ان کو اپنے پسندیدہ کپڑے اور جوتے بھی نہیں پورے آ رہے تھے۔ اپنا جسم کٹواکر (آپریشن کے ذریعے) انہوں نے آپ کو پیدا کیا لیکن آپ کو ہاتھ میں لے کر ان کا سارا درد جاتا رہا۔ آپ کے بابا نے ہسپتال کا بھاری بل دیا اور سب کو مٹھائی کھلائی۔
شروع کے دنوں میں آپ اپنے والدین کو ساری رات سونے نہیں دیتے تھے‘ ایک آپ کا ڈائپر تبدیل کرتا اور دوسرا آپ کو گود میں لے کر لوری سناتا۔ دونوں نے آپ کا عقیقہ دھوم دھام سے کیا ‘آپ کے لیے پیارے پیارے کپڑے بنائے گئے‘ کیک کاٹا گیا‘ سب کی ضیافت کی گئی۔ آپ کے والدین صرف آپ کی خوشی کا سامان کرتے اور جب کبھی آپ بیمار ہوتے اور ہسپتال میں آپ کو ڈرپ لگتی تو دونوں کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔اگر آپ کو بخار ہوتا تو یہ دونوں ساری رات جاگ کر آپ کی تیمارداری کرتے۔ ہر طرح کے کھلونے‘ کپڑے اور کھانے آپ کے لیے لائے جاتے۔
جب آپ نے چلنا شروع کیا تو ان دونوں نے گھر سے وہ ساری چیزیں ہٹا دیں جن سے آپ کو چوٹ لگنے کا اندیشہ تھا۔ جب آپ نے ماما‘ بابا بولا تو یہ دونوں خوشی سے رو پڑے تھے اور سارے خاندان میں مٹھائی تقسیم کی تھی۔ جب آپ سو رہے ہوتے تھے تو یہ دونوں اونچی آواز میں بولتے تک نہیں تھے‘ نہ ہی ٹی وی لگاتے کہ کہیں آپ کے آرام میں خلل نہ پڑ جائے۔ آپ کو سوتے ہوئے ڈر لگتا تھا سو یہ محض آپ کے لیے روشنی میں سوتے تھے۔ جس دن آپ نے پہلے دن سکول جانا تھا‘ اس سے پہلے ان دونوں نے آپ کے لیے خوب شاپنگ کی۔ آپ کے لیے نیا بستہ‘ نئے کپڑے‘ نئے جوتے لیے۔ نئی جیومٹری‘ نئے کلرز لیے، ٹفن اور واٹر بوٹل آپ کو لے کر دی اور سکول کی بھاری فیس بھی جمع کرائی۔ آپ اس دن خوب روئے تھے‘ والدین سے الگ نہیں ہوا جارہا تھا۔ یہ دونوں اس دن سارا وقت سکول کے باہر انتظار کرتے رہے کہ اگر آپ زیادہ روئے تو آپ کو واپس گھر لے جائیں۔ آپ کی فیس‘ دودھ اور ڈائپر کی وجہ سے آپ کے والدین اپنی ذات پر خرچہ نہیں کیا کرتے تھے۔ ایک مدت ہوئی یہ دونوں سینما نہیں گئے‘ اپنے لیے ڈھنگ سے شاپنگ نہیں کی کیونکہ انہیں آپ کے لاڈ جو پورے کرنا ہوتے ہیں۔
آپ سکول سے واپسی پر چھلی کی فرمائش کرتے تھے یا لچھے کی یا غباروں کی‘ آپ کو ہر چیز ملی۔ آپ بڑے ہوتے گئے‘ سکول ہو یا گھر‘ آپ کی ہر ضرورت‘ ہر فرمائش پوری کی گئی۔ گھر میں کمپیوٹر آگیا‘ دوسرے بچوں کے پاس فونز تھے تو آپ نے بھی فون کی فرمائش کردی۔ آپ کی امی نے اپنی ضرورتوں کے لیے ڈالی جانے والی کمیٹی سے آپ کو فون خرید کر دیا۔ہر عید‘ تہوار‘ فنکشن اور شادی وغیرہ پر آپ کے سارے ناز پورے کیے گئے۔ یہ سب کرتے ہوئے دونوں دل سے خوشی محسوس کرتے تھے کہ وہ آپ کو اپنی استطاعت کے مطابق ہر خوشی دے رہے ہیں۔ دونوں نے آپ کی ہر ممکن اخلاقی اور دینی تربیت بھی کی، مگر پھر ایک شخص‘ جو غیر تھا‘ نے آپ کو سوشل میڈیا پر ورغلانا شروع کر دیا۔ آپ سے پہلے دوستی کی اور پھر سہانے خواب دکھانا شروع کر دیے۔ اس نے آپ کو بھاگ کر شادی کرنے پر مجبور کیا۔ وہ گھر پر رشتہ لے کربھی آسکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ ایک دن اس کی باتوں میں‘ اس کے بہکاوے میں آ کر آپ اپنے گھر کی دہلیز پھلانگ گئی۔ اُن ماں باپ کو چھوڑ گئی جنہوں نے آپ کو پیدا کیا‘ آپ کی پرورش کی۔ پتا ہے کہ وہ کتنا روئے تھے؟ انہیں لگا کہ آپ کو اغوا کرلیا گیا ہے‘ وہ دیوانہ وار پولیس
اور تھانے کے چکر کاٹ رہے تھے۔ پھر آپ کی خبر دوسرے شہر سے موصول ہوئی۔ اب لوگ ان کامذاق اڑا رہے تھے‘ ان کی پرورش پر انگلی اٹھا رہے تھے۔ آپ کے والدین نے تو آپ کی پرورش حلال کے لقموں سے کی تھی مگر آپ نے ان کو پوری دنیا کے سامنے تماشا بنادیا۔ مجھے معلوم ہے کہ والدین تھوڑے سخت ہوتے ہیں‘ اتنی جلدی مانتے نہیں کہ پسند کی شادی کی جائے مگر آپ تھوڑا لاڈ‘ ضد اور ان کی خدمت کرتے تو وہ آپ کی یہ خواہش بھی پوری کردیتے۔ انہوں نے فون آپ کو اس لیے لے کر دیا تھا کہ آپ ان کے ساتھ رابطے میں رہیں‘ آپ کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے‘ اس لیے نہیں کہ آپ دوسرے شہروں کے لڑکوں کے ساتھ دوستیاںکریں اور پھر ایک دن گھر والوں کو روتا چھوڑ کر چپکے سے گھر چھوڑ جائیں۔
پیارے بچو! آپ نے کہا کہ آپ گھر سے کوئی قیمتی سامان نہیں لے کر گئے مگر صرف سونایا پیسے ہی قیمتی نہیں ہوتے‘ آپ اپنے والدین کی عزت‘ سکون‘ پیار اور ان کی اولاد کو ان سے چھین کر لے گئے ہیں۔ وہ آپ کے لیے رو رہے تھے‘ سڑکوں پر بھٹک رہے تھے کہ آپ کو کسی نے مار تو نہیں دیا اور آپ نے ان کے بنا ہی شادی کرلی۔ آپ کی شادی اور کیریئر ہی ان کا سب سے بڑا خواب تھا۔ ایک شخص‘ جس کو آپ سوشل میڈیا پر ملے‘ اتنا اہم کیسے ہو گیا کہ ماں باپ‘ سب پرائے ہوگئے‘ اپنا ہی گھر برا ہو گیا؟ ایسے نہیں کرتے! اپنی وقتی خوشی کے لیے ماں باپ کو روگ نہیں دیتے۔ ان کو معاشرے کے سامنے رسوا نہیں کرتے اب سب ان کو طعنے دیں گے اور وہ ساری زندگی لوگوں کے طنز کو جھیلتے رہیں گے۔ اللہ کا شکر ہے کہ کوئی آپ کو ریپ کرکے مار نہیں گیا‘ آپ زندہ مل گئے مگر اپنے والدین کو آپ نے اپنی اس حرکت سے زندہ درگور کر دیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved