اڑتالیس سالہ حمزہ شہباز شریف پنجاب کے 21ویں وزیراعلیٰ کے طور پر حلف اٹھانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ گورنر ہائوس کے سبزہ زار میں مسلم لیگ(ن) اور اُس کی اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کم و بیش ایک ہزار افراد کے سامنے یہ رسم ادا ہوئی۔ قومی اسمبلی کے سپیکر (اور سابق وزیراعظم) راجہ پرویز اشرف نے ان سے حلف لیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن کے حکم پر یہ کارروائی ممکن ہوئی، جنہوں نے 29اپریل کی شب فیصلہ سناتے ہوئے حلف وفاداری کے لیے 30اپریل ساڑھے گیارہ بجے صبح کا وقت بھی مقرر کر دیا تھا۔ حمزہ شہباز پہلے وزیراعلیٰ ہیں، جو انتخاب کے دو ہفتے بعد تک حلف نہ اٹھا پائے۔ انہیں 16اپریل کو پنجاب اسمبلی کے 197 ارکان نے قائد ایوان منتخب کیا تھا۔ اسمبلی کے سپیکر ان کے مقابل تھے‘ اس لیے لاہور ہائی کورٹ ہی نے ڈپٹی سپیکر کو حکم دیا تھا کہ وہ اس انتخاب کو منعقد کرائیں۔ اس دن پنجاب اسمبلی میں جو ہنگامہ آرائی ہوئی، وہ ایک انتہائی شرمناک باب کے طور پر ہماری تاریخ میں محفوظ ہو چکی ہے۔ ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد مزاری اپنے چیمبر میں داخل نہ ہو پائے، اور گیلری میں کھڑے ہوکر انہوں نے اپنے فرائض ادا کیے۔ پنجاب اسمبلی کے اندر پولیس طلب کرنا پڑی تاکہ کارروائی کو جاری رکھا جا سکے۔ یہ درست ہے کہ حمزہ شہباز شریف کو منتخب ہونے کے لیے تحریک انصاف کے باغی جہانگیر ترین، اور عبدالعلیم خان گروپوں کی حمایت حاصل تھی، لیکن آئین کے مطابق کسی بھی جماعت کے باغی رکن کو ووٹ کا حق استعمال کرنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ اس کے خلاف سپیکر الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھجوا سکتے، اور الیکشن کمیشن اس کی نشست خالی قرار دے سکتا ہے لیکن یہ سب کارروائی ووٹ کا حق استعمال کرنے کے بعد ہی عمل میں آ سکتی ہے۔ گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ‘ جو تحریک انصاف کے ایک دیرینہ اور نیک نام کارکن ہیں اور جن کو چند ہی روز پہلے گورنر چودھری سرور کو سبکدوش کر کے اس منصب پر بٹھایا گیا تھا، وزیر اعلیٰ کو حلف دلوانے کے لیے تیار نہ تھے۔ انہوں نے ڈپٹی سپیکر کی رپورٹ کے مطابق آگے بڑھنے کے بجائے اسمبلی کے سیکرٹری کی رائے پر انحصار کیا، اور یہ موقف اختیار کر لیا کہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب آئین اور قانون کے مطابق نہیں ہوا۔ وزیر اعظم کا منصب سنبھال کر شہباز شریف عمر سرفراز چیمہ کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے صدرِ مملکت کو ایڈوائس بھجوا چکے تھے‘ لیکن صدرِ مملکت فوری عمل کرنے پر تیار نہیں تھے۔ انہیں قواعد کے مطابق پندرہ روز تک غور و خوض کا جو حق حاصل تھا وہ اسے استعمال کرنے پر بضد تھے، پندرہ روز کے بعد یہ ایڈوائس نظرثانی کے لیے وزیر اعظم کو بھجوا کر وہ مزید سات دن ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ سکتے تھے۔ لگتا یہی تھا (اور یہی ہے) کہ وہ مزید سات دن بھی فائل کو معلق رکھیں گے، اُس کے بعد ہی گورنر پنجاب کی رخصتی عمل میں آ سکے گی۔ گورنر پنجاب نے اس دوران لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کا معاملہ صدر صاحب اور اپنے درمیان الجھائے رکھا۔ وہ نہ حلف لینے پر تیار تھے، نہ ہی اپنا کوئی نمائندہ مقرر کرنے پر آمادہ تھے۔ جنابِ صدر کی طرف سے بھی کوئی اقدام نہیں کیا جا رہا تھا۔ اس دوران یہ خبر بھی گرم ہوئی کہ جنابِ صدر چیئرمین سینیٹ کو یہ فریضہ ادا کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ حکومتِ پنجاب نے انہیں اسلام آباد سے لانے کے لیے جہاز بھی بھجوا دیا، لیکن ایوانِ صدر نے گونگے کا گڑ کھا لیا، جہاز کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد خالی واپس آ گیا۔
لاہور ہائی کورٹ نے دو بار حکم جاری کیا لیکن صدر اور گورنر ایک دوسرے کو ''آئین اور قانون کے مطابق‘‘ عمل کرنے کی تلقین کرتے رہے۔ پنجاب کے پُرزور ایڈووکیٹ جنرل بھی اس بھاگ دوڑ میں اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔ کوئی یہ سمجھنے یا سمجھانے والا نہیں تھا کہ جناب، جب عدالت کا کوئی حکم جاری ہو جائے تو پھر اسے تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ آئین اور قانون کی تشریح و تعبیر کا حتمی اختیار عدالت کے پاس ہے، اس کے مقابل کسی ماہر قانون یا سیاست کی رائے(عملی طور پر) کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ عدالت کے حکم سے ایک ہی صورت میں ''محفوظ‘‘ رہا جا سکتا ہے کہ اس کے خلاف اپیل کر دی جائے۔ عدالت کے فیصلے کو اس سے اعلیٰ عدالت ہی ختم یا ساقط کر سکتی ہے۔ جنابِ صدر اور گورنر ایک دوسرے کو آئین اور قانون کے مطابق کام کرنے کی تلقین کرنے میں مصروف تھے کہ حمزہ شہباز شریف نے تیسری درخواست عدالت میں دائر کر دی، جس کی سماعت کرنے کے بعد جسٹس جواد حسن نے ازخود سپیکر قومی اسمبلی کو حلف لینے کی ذمہ داری سونپ دی۔ جونہی واضح حکم آیا، گورنر صاحب نے اپنی پٹاری میں سے ایک اور سانپ نکال لیا۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا استعفیٰ نامنظور کرتے ہوئے انہیں کابینہ سمیت بحال کر دیا، اور عثمان بزدار نے علی الصبح پنجاب اسمبلی بلڈنگ میں اپنی کابینہ کا اجلاس بھی طلب کر لیا۔ مسلم لیگ(ق) اور تحریک انصاف کے وکلا انٹرا کورٹ اپیل لے کر ہائی کورٹ پہنچ گئے۔ ان کی استدعا تھی کہ جسٹس جواد حسن کا حکم معطل کر دیا جائے لیکن جب سماعت شروع ہوئی تو حلف اٹھایا جا چکا تھا۔ حمزہ شہباز شریف وزیراعلیٰ کا منصب سنبھال چکے تھے۔ عثمان بزدار سے سکیورٹی اور پروٹوکول واپس لیے جا چکے تھے۔
گورنر چیمہ سے جو لطیفہ سرزد ہوا، وہ بھی تاریخ میں محفوظ ہو گیا ہے۔ ہماری آنے والی نسلیں اس پر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو سکیںگی۔ ان کا کہنا تھا کہ عثمان بزدار نے اپنا استعفیٰ گورنر کے بجائے وزیراعظم کو پیش کیا تھا، اس لیے اس کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں، حالانکہ اس استعفے سے جناب چیمہ کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ ان کے پیش رو چودھری محمد سرور اسے منظور کر چکے تھے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے براہِ راست ملاقات کر کے تصدیق کر لی تھی کہ استعفیٰ انہی کا ہے،اور انہی نے برضا و رغبت اسے عنایت فرمایا ہے۔ جنابِ بزدار اس کے بعد اپنے جانشین کے انتخاب میں سرگرم ہو گئے۔ جناب عثمان بزدار یا ان کے کسی نمائندے نے ہائی کورٹ میں یہ موقف اختیار کیا نہ گورنر صاحب کو کوئی چٹھی لکھی کہ ان کا استعفیٰ غیر آئینی قرار دے کر انہیں کام جاری رکھنے کا موقع دیا جائے۔ پھر گورنر پنجاب ایک مُردے کو کیسے ''زندہ‘‘ کر سکتے تھے؟ انہوں نے اس طرح اپنی اور اپنے جملہ رفقا کی تضحیک کا سامان کیا، اپنی مسیحائی کا بھرم بھی کھول دیا۔ حمزہ شہباز اب حلف اٹھا چکے ہیں۔ تاخیر تو ہوئی، لیکن بالآخر ان کا راستہ کشادہ ہوگیا۔ ان کے والدِ گرامی وزیر اعظم ہیں، اور وہ سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ ہوں گے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس طرح ایک نئے باب کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اس پرتنقید کرنے والے موجود ہیں۔ کئی تجزیہ کار ناک بھوں چڑھا رہے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب اسمبلی کے 197 ارکان نے انہیں اپنا لیڈر منتخب کر لیا ہے۔ وہ قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے، پنجاب اسمبلی کے قائد حزبِ اختلاف کے طورپر جیل کا مزہ بھی چکھ چکے۔ ان کے تجربے اور صلاحیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، انہیں طاقتور اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا، جو انہیں اونچا اڑانے کے کام بھی آ سکتی ہے، اور رفتار کو سست کرنے کا سبب بھی بن سکتی ہے ع
''تیرے‘‘ گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved