تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     01-05-2022

لٹیرا پسند کا ہو

سوشل میڈیا نے بڑا انقلاب برپا کیا ہے کہ دوستیوں، تعلقات اور رشتے داریوں میں بھیانک قسم کی دراڑیں ڈال دی ہیں۔
ٹویٹر پر 2013 سے پہلے تک میری زندگی میں کتنے دوست یا رشتے دار تھے اور آج نو برس بعد کتنے رہ گئے ہیں‘ یہ دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں۔ سوشل میڈیا میرے تعلقات‘ دوستیاں ایک ایک کرکے کھا گیا۔ پتا ہی نہیں چلا کیسے ہمارے نظریات اور خیالات اتنی شدت پکڑتے گئے کہ ہم خود پیچھے رہ گئے اور نظریات نے ہمیں فتح کر لیا اور پھر تلخیاں بھر دیں۔ یہ صرف میرے ساتھ نہیں ہوا بلکہ ہر بندے ساتھ ہوا ہے اور ہورہا ہے۔ آپ کے ساتھ بھی۔ ایک دور تھا‘ ہر بات یا تنقید کا جواب دینا میں اپنا فریضہ سمجھتا تھا۔ یوں لگتا‘ پوری دنیا سے ہی لڑائی چل رہی ہے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ کوئی آپ کو گالی دے جائے یا جملہ کس جائے اور آپ ردعمل نہ دیں۔ کہیں آپ کو کمزور نہ سمجھ لیا جائے۔ آپ ڈر گئے تھے۔ آپ کے پاس دلائل ختم ہو گئے تھے۔ یوں دھیرے دھیرے ہم سب زہریلے ہوتے گئے۔
اب میں نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی ہے تو پتا چلا‘ دیر ہو چکی۔ اب ایک ایسے گرداب میں پھنس گئے ہیں جس سے نکلنا آپ کے بس میں نہیں رہا۔ اب آپ نے اسی تالاب میں رہنا ہے۔ یہیں آپ کا جینا مرنا ہے۔ اب یہ حالت ہو چکی ہے کہ سوشل میڈیا پر جائیں تو ممکن ہی نہیں آپ کو وہاں لڑائی جھگڑے نہ ملیں۔ دوست ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ اب ہر ایک کے ہاتھ میں فون ہے اور آزادی ہے کہ وہ جس کو چاہے گالی دے۔ کوئی بھی زندگی میں کچھ چیزوں سے محروم رہا ہے تو وہ اپنی محرومی کا بدلہ سوشل میڈیا پر لے رہا ہے۔ جسے دفتر میں ڈانٹ پڑ گئی یا گھر میں کوئی مسئلہ ہوگیا‘ اس نے مسئلے کا حل سوشل میڈیا پر جا کر تلاش کیا۔ ان لوگوں پر غصہ اتارا جن کا دور دور تک مسئلے سے نہ واسطہ تھا‘ نہ تعلق‘ لیکن اپنے غصے کو کوئی نہ کوئی راستہ تو دینا تھا‘ لہٰذا سامنے جو بھی آیا آپ نے اسے ٹکر مار دی۔
پہلے مجھے غصہ آتا تھا‘ پھر اپنے ساتھ ساتھ ان سب لوگوں سے بھی ہمدردی ہونا شروع ہوئی۔ خود پر غصہ آیاکہ جب زندگی آرام سے گزر رہی تھی تو سوشل میڈیا پر جانے کی کیا ضرورت تھی۔ میرے جیسے کئی لوگ اخبار کی زندگی کے عادی تھے۔ چوبیس گھنٹوں بعد اخبار نے چھپنا ہوتا تھا اس وقت تک کسی بھی ایشو کی سختی کم ہوچکی ہوتی تھی یا اس کا اثر اخبار میں دو تین تصویریں دیکھ کر کم ہو چکا ہوتا تھا۔ اس وقت کسی بات سے مکرنا کسی بھی لیڈر کے لیے آسان تھا کہ جناب رپورٹرز نے میری بات اچھی طرح سنی یا سمجھی نہیں۔ غلط کوٹ کیا۔ اب وہ سہولت نہیں رہی کہ سب کچھ کیمرے پر محفوظ ہے اور اس کا کلپ تیار ہے‘ وہ چاہے آپ کے ہو یا میرے مخالف۔
مخالفوں کو گالی گلوچ کا کلچر تو پہلے سے موجود تھا لیکن جلسے جلوسوں کی حد تک۔ کوئی ایک آدھ مقرر رکھا جاتا تھا جو مجمع کے جذبات کو ابھارنے کیلئے شعلے اگلتا۔ بھٹو صاحب کبھی کبھی جذباتی ہو کر لائن کراس کر جاتے تو ان کے مخالفین بھی ذومعنی جملوں میں بہت کچھ کہہ جاتے‘ لیکن اگلے دن کے اخبارات یہ خیال رکھتے کہ کچھ ایسا نہ چلا جائے کیونکہ اخبار نے ہرگھر جانا ہے اور اس کی زبان ٹھیک ہونی چاہیے نہ کہ جلسہ گاہ والی۔ نواز شریف نے تقریروں میں لغاری صاحب اور بینظیر بھٹو پر شدید ذاتی حملے کیے تھے۔ الیکشن کے دنوں میں تو نازیبا تصویریں تک بنوا کر پھیلائی گئیں۔چسکا خور عوام کو بھی ایسے معاملات دیکھ کر عجیب سی طمانیت ملتی ہے۔
عوام کی ہمیشہ سے سوچ رہی ہے وہ بڑے آدمی کو ذلیل ہوتے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں یا اس کی ٹریجڈی پر غمزدہ۔ اگر وہ پبلک فگر مجھے پسند ہے تو اس کا کوئی بھی دکھ یا غم مجھے ہرٹ کرے گا‘ لیکن اگر میں اسے پسند نہیں کرتا تو پھر اس کی ذلت مجھے سکون دے گی۔ سیاستدانوں نے عوام کی اس فلاسفی سے کھیلا ہے کہ انہوں نے عوام کو آپس میں بانٹ لیا ہے۔ بائیس کروڑ کا ملک اب ایک دیگ بن چکا ہے جس میں صرف تین چار بڑے لیڈروں کا ہی حصہ ہے۔ وہ تینوں‘ چاروں ایک دوسرے کو کبھی گالیاں دیتے تو کبھی گلے لگاتے رہتے ہیں اور عوام اسی طرف چلتے رہتے ہیں۔ جب انکی آپس میں دشمنی ہو تو عوام بھی اس پارٹی کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ان سیاستدانوں کی وقتی طور پر دوستی ہو جائے تو عوام بھی ان کو دوست سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔
یہی دیکھ لیں‘ نوے کی دہائی میں عمران خان کی کردار کشی شروع کی گئی اور کئی سکینڈلز سامنے لائے گئے۔ عمران خان نے اپنی کتاب میں بھی لکھا کہ ان کا گھر نواز شریف کی پارٹی کی کردار کشی سے ٹوٹا‘ اور پھر انہی عمران خان کو میں نے 2007 میں لندن آفس میں نواز شریف کو درخواست کرتے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ میاں صاحب آپ کی پاکستان کو ضرورت ہے‘ واپس آئیں جنرل مشرف کے خلاف مل کر تحریک شروع کرتے ہیں۔
انہی جنرل مشرف کو تین سال تک عمران خان نے سپورٹ دی ‘ ان کے ریفرنڈم میں ووٹ بھی ڈلوائے کہ شاید وزیراعظم بنا دیا جائے۔ 2002 کے الیکشن کے بعد اندازہ ہواکہ انہیں استعمال کیا گیا تو پرویز مشرف کے خلاف ہوگئے اور آج تک ہیں۔ اب بدلتے حالات میں نواز شریف اور عمران خان کے مابین جس لیول کی مخاصمت چل رہی ہے آپ کے سامنے ہے۔ یہ بات صرف عمران خان اور نواز شریف کے مابین مخاصمت تک محدود نہیں۔ یہی کچھ زرداری اور شریفوں کے درمیان دیکھا ہے۔ جتنی گالی گلوچ اور بدزبانی پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کے مابین ابھی حالیہ دنوں تک ہوتی رہی‘ وہ شاید ہی کبھی ہوئی ہو۔ کوئی نہیں سوچ سکتا تھا کہ زرداری یا بلاول کسی دن لائن میں لگ کر شہباز شریف کو ووٹ ڈال کر وزیر اعظم بنوائیں گے یا عمران خان پنجاب میں پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ کیلئے منتخب کریں گے‘ جس کے خلاف وہ بیس برس تک مہم چلاتے رہے ۔
عوام مانیں یا نہ مانیں‘ ان کو صیح چونا لگایا جاتا ہے اور انہیں آپس میں خوب لڑا کر آخر میں اپنی باری لے لی جاتی ہے اور یہی عوام اپنے لیڈروں کی چالاکیوں، کرپشن کا جواز بھی خود تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک چینی کہاوت ہے اگر آپ نے اپنی بیوی کو تھپڑ ماردیا ہے اور اب آپ کو احساس ہوا ہے کہ بلاوجہ مارا تو آپ شرمندہ نہ ہوں نہ ہی افسوس کریں‘ آپ کی بیوی خود ہی کوئی نہ کوئی دلیل اور جواز ڈھونڈ لے گی کہ یہ تھپڑ کیوں مارا گیا۔
ہمارے عوام بھی خود اپنے لیڈروں کی کرپشن یا اخلاقی دیوالیہ پن کا جواز تلاش کر لیتے ہیں‘ اسی لیے تو کسی لیڈر کی مقبولیت پر کچھ فرق نہیں پڑا۔ عمران خان اپنے تمام تر مبینہ سکینڈلز کے ساتھ اس ملک کے وزیراعظم بن گئے اور شہباز شریف اپنے تمام مالی سکینڈلز کے ساتھ ملک کے وزیراعظم بن چکے ہیں۔ اس ملک کی عوام کا مسئلہ نہ کسی لیڈر کا اخلاقی دیوالیہ پن ہے نہ کرپشن ہے‘ بس اخلاقی طور پر دیوالیہ لیڈر یا کرپٹ لیڈر آپ کو پسند ہونا چاہیے۔ باقی کے جواز اور دلائل عوام اس بے چاری بیوی کی طرح خود ہی تلاش کر لیتے ہیں کہ تھپڑ کیوں پڑا تھا۔ اب خان صاحب کا بیان نظروں سے گزرا: عوام خبردار رہیں کہ عید کے بعد میری کردار کشی کی جائے گی۔ اس کردار کشی کے بارے وہ برسوں سے عوام کو خبردار کیے جارہے ہیں اور عوام ووٹ ڈالے جارہے ہیں۔ جس جس کی اخلاقی یا مالی کردار کشی ہوئی اسے عوام نے سڑک سے اٹھا کر کندھوں پر بٹھا کر وزیراعظم ہائوس پہنچایا۔
خان صاحب پریشان نہ ہوں ہم چسکے لینی والی قوم ہیں۔ کچھ دن کا چسکا لیا اور پھر نئے کی تلاش میں نکل پڑے۔ سیاست بھی فلم انڈسٹری کی طرح ہے۔ انٹرٹینمنٹ، انٹرٹینمنٹ اور انٹرٹینمنٹ۔ آپ لوگ ہمیں Entertain کرتے رہیں ہم آپ کو کندھوں پر بٹھا کر وزیراعظم ہائوس لے جاتے رہیں گے۔ جس دن انٹرٹینمنٹ ختم ہوئی ہم کندھوں سے اتار کر کسی اور کی تلاش میں نکل پڑیں گے جو زیادہ انٹرٹینمنٹ دے سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved