تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     01-05-2022

علم الاعداد سے علم الالفاظ تک

ملک کی تاریخ میں پہلی بار سیاست کے بے رحم کھیل میں ایک انقلابی کیفیت طاری ہو چکی ہے۔اس کیفیت کی بدولت اب بہت کم لوگ ہیں جو نیوٹرل ہوں گے‘اکثر واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہیں۔اس تقسیم میں فارغ کی جانے والی حکومت اور سیاسی جماعت کے حامی واضح طور پر زیادہ ہیں۔اس کے حامی زیادہ ہونے کی ایک بڑی وجہ نئی حکومت کے آنے کے بعد بھی مہنگائی کا بڑھنا ‘بجلی کی لوڈشیڈنگ اور سب سے بڑھ کر ڈالر کی قیمت میں نمایاں اضافہ ہے۔ایک بڑے طبقے کا خیال تھا کہ نئی حکومت کے آتے ہی معاشی حالات میں بہتری آجائے گی مگر نہ صرف ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کے الٹ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اس صورتحال میں وہ لوگ جو مہنگائی کی وجہ سے عمران حکومت کے خلاف تھے وہ اب طویل لوڈ شیڈنگ اوربجلی کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے عمران کی حمایت میں چلے گئے ہیں۔اس کی ایک اور بڑی وجہ عمران خان کا امریکہ مخالف بیانیہ ہے۔بات ہوئی تھی سیاسی تقسیم کی تو اس وقت لوگ یا تو عمران کی حمایت میں ہیں یا مخالف ‘اس بات کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ایک درجن سیاسی پارٹیاں مل کر بھی ایک پارٹی کا مقابلہ نہیں کر پارہیں۔اس سے پہلے یہ صورتحال بھٹو صاحب کے خلاف ہوئی تھی جب قومی اتحاد کے نو ستاروں کے نام سے مختلف پارٹیاں بھٹو مخالف ہو گئی تھیں اور انہوں نے مل کر الیکشن میں اتحاد بنایا تھا مگر پھر بھی بھٹو کو ہرا نہیں سکی تھیں۔
انقلابی کیفیت کی بات کو جاری رکھیں تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی مخالفت ‘تقریبا ًنفرت میں بدل چکی ہے۔اس کو سیاسی فرقہ بازی کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔اس صورت حال کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا بھی ہے جہاں پر ہر روز بلکہ ہر لمحہ جنگی طرز کا ماحول طاری رہتا ہے۔کوئی سیاسی بیان ہو یا کوئی بھی واقعہ ہر ایک پر لمبی بحث شروع ہو جاتی ہے۔ہر موضوع کے اعتبار سے اشعار‘گانے اور اقوال کا حوالہ دے کر اپنی پارٹی کی حمایت اور دوسروں کی مخالفت کی جاتی ہے۔اس سیاسی ہلچل میں وہ کم عمر بھی شامل ہوچکے ہیں جو ابھی ووٹ دینے کے اہل بھی نہیں ہوئے‘اسی طرح گھریلو خواتین بھی اس سیاسی موسم میں اپنی رائے اور جذبات کا اظہار کر رہی ہوتی ہیں۔برسر اقتدار پارٹیوں اور حکمرانوں کو اس وقت سکیورٹی سے زیادہ کسی بھی عوامی جگہ پر ہونے والے رد عمل سے بچنا دشوار ہو رہا ہے ۔اس کی سب سے بڑی مثال سعودی عرب جیسے ملک میں مقدس مقامات کے قریب ہونے والا ردعمل ہے۔واضح رہے کہ عرب ممالک میں کسی بھی قسم کے سیاسی ردعمل یا مظاہرے کی ہر گز اجازت نہیں۔بات ہو رہی ہے عوامی رد عمل کی تو پوری دنیا میں اس کی مثالیں مل رہی ہیں ‘خاص طور پر برطانیہ میں ایون فیلڈز کے فلیٹس کے سامنے تواتر سے مظاہرے اور شدت بھرے الفاظ پر مبنی نعرے اس کا ایک بڑا مظہر ہیں۔
اس سلسلے کی ایک علم الاعدادو الفاظ کی بحث کچھ اس طرح ہے کہ جہاں پر نواز ‘جو کہ ایک نام ہے‘ ختم ہوتا ہے وہاں سے لفظ زرداری شروع ہوتا ہے۔ بحث میں اس مثال کا بڑا مقصد یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اپنے'' کارناموں‘‘ میں زرداری نواز شریف سے کہیں آگے ہیں‘جبکہ کسی نے یہ مثال دی کہ جہاں زرداری ختم ہوتا ہے وہاں سے عمران شروع ہوتاہے (انگلش کے حروف تہجی کے اعتبار سے)لیکن ارسطو تو ہر دوسرا بندہ ہو چکا ہے اس لئے ایک اور شدت بھر ا نقطہ کچھ یوں بیان کیا گیا کہ نواز اور زرداری ختم ہوئے ہیں تو عمران شروع ہوا ہے کہنے والے کا مقصد دراصل یہ بیان کرنا تھا کہ عمران نے ان دونوں کی سیاست کو ختم کر دیا ہے۔مزید یہ کہ عمران پر ذاتی طور پر کرپشن کا ایک بھی بڑا کیس نہیں ہے۔اسی طرح علم ِالفاظ کا ایک نقطہ یوں بیان کیا گیا کہ جہاں لفظ کرپشن ختم ہوتاہے وہاں سے لفظ نوازشروع ہوتا ہے۔بات کی جائے علم الاعداد کی تو مختلف سیاسی لوگوں کی تاریخ پیدائش کی مناسبت سے ان کے ستاروں کی خصوصیات کا ذکر کیا جا تا ہے ۔اس کی حد یہ ہے کہ کئی اینکر تو اپنی پسند کے علم نجوم کے ماہرین کو بلا کر ستاروں کی روشنی میں پیش گوئیاں بھی حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔یہ ستاروں کے ماہر اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ کچھ سیاسی لوگوں کی تاریخ پیدائش کاغذوں اور حقیقت میں مختلف ہوتی ہے‘لیکن دھندہ ہے اس لئے چل رہا ہے۔
اب چلتے ہیں ایک اور مشہور فقرے کی طرف جو کچھ یوںہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے ۔اس فقرے کی جدید شکل کچھ یوں کر دی گئی ہے کہ جمہوریت بہترین کاروباری انتقام ہے۔ اب اس کی تشریح کچھ اس طرح کی جا رہی ہے کہ جمہوریت کے نام پر سیاست دان خوب کرپشن کرتے ہیں۔اس کے لیے مجھے بھارت کے نامور صحافی کلدیپ نئیر سے ہونے والی ایک مختصر بحث یاد آگئی جس میں راقم نے سوال کیا تھا کہ آپ کے ہاں تو جمہوریت کبھی پٹری سے نہیں اتری پھر بھی آپ لوگ معاشی طور پر مسائل میں کیوںگھرے ہوئے ہیں‘تو کلدیپ صاحب لاجواب ہو کر رہ گئے تھے ۔اب یہاں یہ بات تو ثابت ہے کہ کرپشن کے ہوتے ہوئے کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ ایک پنجابی فقرہ مشہور ہے کہ وہلے بیٹھیاں تے کھو وی کھا جائیدے آ یعنی
فارغ رہنے والے تو کنویں بھی کھا جاتے ہیں۔اسی مثال کو علم الفاظ کے تحت یوں ڈھالا گیا ہے کہ کرپشن کی وجہ سے کنویں تو در کنار دریا بھی کھائے جاسکتے ہیں۔اس بحث میں شہباز شریف کا یہ فقرہ نما بیان بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ ہم نے کبھی کرپشن کے خاتمے کا دعویٰ نہیں کیا ۔ابھی یہ بات چل ہی رہی تھی کہ حمزہ صاحب کا کئی سال پرانا بیان بھی پیش کر دیا گیا جس میں وہ بچوں سے خطاب کرتے ہوئے اقرار کر رہے ہیں کہ کرپشن تو ہوتی رہتی ہے۔ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے ایک دوسرے پر تنقید بھرے عوامی بیانات بھی موجود ہیں جن میں وہ ایک دوسر ے پر کرپشن کے الزامات لگا رہے ہیں۔ ا س صورتحال میںیقیناموجودہ حکومت کو کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا‘جیسے موجودہ دور کے خاتمے تک کرپشن کو جس حد تک ہو سکے قابو میں رکھیں‘لوڈشیڈنگ پر بھی قابو پائیں‘عوامی ریلیف کے فیصلے کریں اور سب سے بڑھ کر آنے والے بجٹ میں معاشی ریلیف کے فیصلے کریں۔یہ سب عوام سے زیادہ ان کی اپنی بقا کے لیے ضروری ہے۔
رہی بات عمران خان کی تو ان کے لیے عوامی رابطے برقرار رکھنا‘جلسے کرنا یا ایسے بیانات جاری کرتے رہنا کہ جن کی مدد سے وہ عوامی رد عمل اور جذبات کو زندہ رکھ سکیں‘ ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں ان کو موسم گرما کے چیلنج کا سامنا ہو سکتا ہے لیکن ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اگر اسلام آباد میں دھرنا دے دیا گیا تو شہر شہر جلسوں کی نوبت نہیں آئے گی ۔اس سلسلے کی ایک اہم کڑی سوشل میڈیا بھی ہے جہاں پر پہلے ہی کپتان نے ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے۔یہاں پر ایک اور فقرہ بہت یاد آرہا ہے جو اس صورت میں بولا جاتا ہے جب آپ کو کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑتا ہے۔یہ فقرہ بھی کرکٹ کے کھیل میں زیادہ بولا جاتا ہے ‘جب زیادہ تیزی سے رنز بناتے ہوئے وکٹیں گنوائی جاتی ہیں تو یہ بولا جاتا ہے کہ Something has to be given۔موجودہ حکمران ہوں یا عمران خان ‘دونوں کو اس پر غور کرنا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved