تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد ملک میں سیاسی درجہ حرات بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ افطار پارٹیوں سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک سیاسی صورتحال زیر بحث رہتی ہے۔ تحریک انصاف کے ٹائیگرز ہوں‘( ن) لیگ کے شیر ہوں یا پیپلز پارٹی کے جیالے ہوں‘ اپنی پارٹی کے حق میں ہر کوئی دلائل کے انبار رکھتا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان اتنے بڑے لیڈر ہیں کہ انہوں نے یہ تمام صورتحال جان بوجھ کر پیدا کی ہے اور ساڑھے تین سالہ کارکردگی کا سارا بوجھ نئی حکومت پر ڈال دیا ہے جبکہ مخالفین کا اعتراض ہے کہ عمران خان کی جن خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے وہ شایدخان صاحب کے اپنے علم میں بھی نہ ہوں۔ کون صحیح ہے اورکون غلط اس بارے حتمی رائے دینا شاید ممکن نہیں ہے لیکن مسجد نبوی میں ہونے والے واقعے سے متعلق پاکستانیوں کی اکثریت ایک موقف پر متفق دکھائی دے رہی ہے۔ عوامی سطح پر یہ موقف تقویت اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے کہ ملکی سیاست کو مقدس مقامات تک لے جانا غیر ضروری عمل ہے۔ یہ سیاستدانوں کی ناکامی اور شاید سیاسی شعور کی کمی ہے۔ کچھ لوگ یہ دلیل پیش کر رہے ہیں کہ آزادی ٔرائے انسان کا بنیادی حق ہے لیکن وہ شاید اس بات کا ادراک نہیں رکھتے کہ ہر بات ہر جگہ پر کہنے کے لیے نہیں ہوتی۔ آزادیٔ رائے کے بھی کچھ قوانین‘ اصول اور ضابطے ہیں جنہیں ملحوظ خاطر رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مقدس مقامات کے کچھ پروٹوکولز ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی مذہب میں مقدس مقامات پر آزادی ٔرائے کی بنیاد پر نفرت پھیلانے اور بدامنی کی صورتحال پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اسلام امن کا دین ہے اور مسلمان امن کے بڑے داعی ہیں‘ اس طرح کی صورتحال پیدا کر کے ہم دیگر مذاہب کو شاید مثبت پیغام پہنچانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ ملکی سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ماضی میں مکہ اور مدینہ میں عمران خان پر آوازیں کسی گئیں اس مرتبہ( ن) لیگ کی قیادت اور ان کے اتحادیوں کوا یسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ دونوں واقعات قابلِ مذمت ہیں۔ کچھ لوگ یہ دلیل دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ اللہ کے نبیﷺ کے دور میں مسجد میں عبادت بھی ہوتی تھی اور سیاسی فیصلے بھی مسجد میں ہوتے تھے لیکن وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ اس دور کے مسلمان اخلاق‘ اقدار‘ محبت‘ حسن سلوک ‘رواداری اور ایثار میں آج کے مسلمانوں سے بہت بہتر تھے۔ انصار نے بغیر کسی معاوضے اور لالچ کے اپنی جائیدادوں اور کاروباروں میں مہاجرین کو برابر کا حصے دار بنا دیا تھا۔ اس وقت اختلاف رائے کے بھی آداب طے تھے۔ نفرت کرنے کے بھی کوئی اصول و ضوابط تھے۔ صحابہ اللہ کے نبی ﷺکی موجودگی میں آواز بلند نہیں کر سکتے تھے۔ اس وقت سیاست اسلام کی سر بلندی کے لیے کی جاتی تھی۔ شاید جب سیاست کا مقصد صرف اقتدار کا حصول بن گیا تب قدرت نے اسے مسجد سے دور کر دیا۔
پاکستانی سیاستدان اس معاملے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کب کرتے ہیں ‘کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن اطلاعات ہیں کہ سعودی حکومت نے کچھ لوگوں کو قواعد کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا ہے‘ لیکن سعودی حکومت کی جانب سے اس طرح کے فیصلے لینے میں تاخیر دکھائی دیتی ہے۔چند سال قبل جب عمران خان اور ان کی اہلیہ پر مکہ اور مدینہ میں آوازیں کسی گئی تھیں ‘اُس وقت سعودی حکومت نے ایکشن نہیں لیا تھا۔ اگر اس وقت ہلڑ بازی کرنے والوں کوسزا کے عمل سے گزار دیا جاتا تو شاید دوبارہ ایسا واقعہ نہ ہوتا۔ اب امید کی جا سکتی ہے کہ شاید مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں۔ ماضی کے پیش نظر یہ لکھنا شاید غلط نہیں ہو گا کہ جن قوموں میں مقدس مقامات کی حرمت کا شعور بیدار نہیں ہوتا وہ اخلاقی‘ سیاسی اور معاشی سمیت زندگی کے ہر میدان میں ناکام رہتی ہیں۔
پاکستان آئی ایم ایف کے بعد ایک مرتبہ پھر سعودی عرب سے مزید قرضوں کا طلب گار ہے۔ اطلاعات کے مطابق دو ارب ڈالرز سٹیٹ بینک میں پارک کرنے کے لیے اور چار ارب ڈالرز کے قرضوں میں توسیع کی درخواست کی گئی ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ قرضوں کا حصول ہمارے حکمرانوں کے لیے کامیابی کا معیار بنتا جا رہا ہے جبکہ حقیقت میں معاشی کامیابی کاروبار کا حصول ہوتا ہے۔ اس وقت حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرتی دکھائی دے رہی ہیں لیکن ملکی معیشت کو جو خطرات درپیش ہیں اس بارے میں بات نہیں کی جا رہی۔ پاکستانی
معیشت کو اس وقت غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائرایک ہفتے میں 377 ملین ڈالرز مزید کم ہو گئے ہیں۔ پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز کے ریٹرن میں 145 بیسس پوائنٹس اضافہ ہوا ہے جو کہ شرح سود میں فوری اضافے کی طرف اشارہ ہے۔ اس کا براہ راست اثر مہنگائی پر پڑے گا اور خدشہ ہے کہ مہنگائی کی شرح پندرہ فیصد سے تجاوز کر سکتی ہے۔ کاروباری حضرات پر اس کے برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ موجودہ شرح سود کاروبار چلانے کے لیے موزوںدکھائی نہیں دیتی۔ منافع میں سے اگر 15 سے 20 فیصد بینکوں کا سود چلا جائے تو کاروبار کیسے جاری رکھا جا سکتا ہے؟ اس کے علاوہ اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف کے دباؤ پر حکومت ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کو دی گئی سبسڈی واپس لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اگر حکومت نے آئی ایم ایف کے یہ مطالبات من و عن تسلیم کر لیے تو یہ صورتحال ملکی شرح نمو کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ برآمدات میں کمی آسکتی ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے اور ملکی سرمایہ بیرون ملک منتقل ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ پاکستان کو سری لنکا جیسی صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ سرکار سے گزارش ہے کہ پچھلی حکومت کے جن منصوبوں سے کاروباری حضرات مطمئن ہیں اور ان کے ملک پر مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں انہیں جاری رکھنے کا معیشت کو فائدہ ہو سکتا ہے جبکہ معاشی پالیسی میں سیاسی اختلافات ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
مایوسی کے ان حالات میں ایک اچھی خبر بھی ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے جماعت اسلامی کی مختلف درخواستوں پر 19سال بعد فیصلہ سنا دیا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان اگلے پانچ سالوں میں ملکی معیشت کو سود سے پاک کرے۔ فیصلے میں وفاقی شرعی عدالت نے یکم جون 2022ء سے سود لینے سے متعلق تمام قانونی شقوں کو غیر شرعی قرار دے دیا ہے۔ فیصلے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہنا تھا کہ وفاقی شرعی عدالت نے 1991ء میں بھی اس پابندی کا فیصلہ دیا تھا لیکن اُس وقت کی وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ جا کر شرعی عدالت کے فیصلے پر سٹے آرڈر لے لیا تھا۔ اگرچہ فیصلے میں حکومت کو تمام قوانین کو بہتر بنانے کے لیے پانچ سال دیے گئے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں ایسا جلد سے جلد کیا جائے۔ وزیر خزانہ نے بھی اسے سراہا ہے۔ یہاںسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت پاکستان اس پر عمل درآمد کر پائے گی یا پھر اسے مزید قانونی پیچیدگیوں میں الجھا دیا جائے گا؟ اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر شکیل منیر کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ قابل ستائش ہے لیکن آئی ایم ایف پروگرام میں رہتے ہوئے اس پر عمل کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ کاروباری حلقے بھی اس کے قابلِ عمل ہونے پر سوالات اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ مستقبل میں اس حکم پر کس حد تک عمل درآمد ہو سکتا ہے ‘اس بارے کچھ کہنا قبل ازوقت ہے لیکن شاید اس موقع پر جماعت اسلامی کی کاوشوں کو سراہنا اور انہیں مبارکباد دینا وقت کی اہم ضرورت ہے تا کہ مستقبل میں بھی ایسے مثبت اقدامات اٹھائے جا تے رہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved