تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     01-05-2022

عوامی جذبات کی لہر

عوام کا سمندر‘ عوام کا سونامی یا عوام کا منہ زور سیلاب کہہ لیں‘ بس مینار پاکستان کے ارد گرد ہر جگہ اُس روز یہی مناظر تھے ۔ جو کچھ ڈرون کیمرہ دکھا رہا تھا‘ الفاظ بیان کرنے سے قاصر ہیں ۔ دور خلا کی بلندیوں سے مصنوعی سیارے کی لی گئی تصاویر ارد گرد کے خالی مقامات ‘ سڑکوں ‘ عمارتوں ‘ درختوں اور بجلی کے کھمبوں پر چھوٹے چھوٹے لامتناہی نقطے دکھاتی ہیں ۔ پاکستان میں ایسے مناظر نایاب ہیں۔کہا جاتا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے جلسے بہت بڑے ہوا کرتے تھے۔ ایسا ہی ہوگا۔ لیکن ماہ رمضان‘ نصف شب‘گرمی کے موسم میں یہ مناظر ناقابل ِیقین تھے۔ اور یہاں یہ بھی اضافہ کرلیجیے کہ یہ صرف کوئی مقامی تحریک نہیں بلکہ تاریخی اہمیت کی حامل عالمی تحریک بن چکی ہے۔ پاکستان کے تمام علاقوں سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ‘ اور ڈیزائنر جینز سے لے کر دھوتی اور شٹل کاک برقع میں ملبوس ‘دیگر شہروں سے آئے ہوئے لوگ ایک ہی نعرہ بلند کررہے تھے''امپورٹڈ حکومت ‘ نامنظور‘‘ ۔
پاکستانیوں پر الزام رہا ہے کہ وہ قدرے لاپروا قوم ہیں‘ بڑے بڑے مسائل سے لاتعلق رہتے ہیں‘ نیز ہمہ وقت کسی نہ کسی الجھن میں گرفتار رہتے ہیں۔ جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ احتجاجی مظاہرے ترقی یافتہ ممالک کا وصف ہیں جن کے تعلیم یافتہ عوام حقوق اورمسائل کا ادراک رکھتے ہیں‘ لیکن اپنی بقا کی جدوجہد میں الجھے ہوئے پاکستانیوں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے رہتے ہیں‘ وہ کیا سوچیں اور کس سوچ کا اظہار کریں؟ احتجاج اور وہ بھی مسلسل احتجاج جو حقیقت میں 1960ء کی دہائی میں ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کی امریکی شہری حقوق کی تحریک کی طرح تبدیلی برپا کردے‘ اس ملک کے خواب و خیال میں بھی نہیں۔ یہ تاثر مقبول ترین لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کے لیے عوامی حمایت کی کمی سے مزید گہرا ہوگیا۔ جب بھٹو کو پھانسی دی گئی تو توقع تھی کہ ملک میں قیامت برپا ہوجائے گی۔ ایسا کچھ نہ ہوا۔ اسی طرح جب نواز شریف پانامہ کیس میں نااہل ہوئے تو انہوں نے جی ٹی روڈ پر ایک بھرپور جلوس نکالا لیکن عوامی حمایت کے بغیر یہ جلوس جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ۔ لیکن سابق وزیر اعظم عمران خان کی برطرفی کے بعد ابھرنے والی موجودہ تحریک جوشیلی ‘ جذباتی‘ وسیع ‘ گونج دار اور بلندآہنگ ہے ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ تحریک کیوں منفرد اور دوسروں سے مختلف ہے:
1۔ رہنما کی ساکھ: قائد وہ جو اگلے قدموں پر آکر قیادت کا حق ادا کرے اور اپنی مثال سے رہنمائی کرے ۔یہ دو اصول با اثر لیڈروں کا وصف رہے ہیں ۔ ذرا موازنہ کریں کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کس طرح بحران میں رہنمائی کرتے ہیں اور نواز شریف‘ شہباز شریف‘ آصف زرداری جیسے دوسرے رہنما بحران کے وقت کہا ں کھڑے ہوتے ہیں۔ عمران خان ہمیشہ آگے رہتے ہیں۔ 2013ء کی انتخابی مہم میں انتخابات سے دو دن قبل سٹیج سے گر گئے لیکن ہسپتال سے عوام سے خطاب کر تے رہے۔ موجودہ بحران میں ان کے اپنے ہی لوگوں نے ساتھ چھوڑ دیا لیکن اپنی جان کو لاحق خطرات کے باوجود وہ تمام طاقتوں اور عالمی طاقتوں کے سامنے عوام کے ساتھ سینہ سپر ہیں ۔ دوسری طرف شریف خاندان اور زرداری خاندان کی ایک تاریخ ہے کہ جب بھی ان پر مشکل آتی ہے‘ وہ فرار ہو جاتے ہیں۔ نوازشریف نے اپنی جان کو خطرے کا بہانہ بنا کر اپنی پارٹی کو پھنسا دیا۔ شہباز بھی اس کی پیروی کر رہے تھے لیکن ائیرپورٹ پر روک لیے گئے۔ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کو پرویز مشرف نے دبئی فرار ہونے اور پھر ڈیل کے ذریعے پاکستان واپس آنے کے لیے این آر او دیا تھا۔ جیسا کہ اصول کہتا ہے کہ اگر آپ مثال سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں تو پیروکار آپ کی پیروی کرتے ہیں۔ عمران خان کو آخری گیند تک لڑنے کی وجہ سے لوگ جانتے ہیں ۔ دوسری طرف شریفوں اور زرداریوں کے معاملے میں ان کے پیروکار جانتے ہیں کہ ان کے لیڈر بھاگ جائیں گے ‘ اس لیے وہ کبھی بھی ان کی حمایت میں بڑی تعداد میں باہر نہیں نکلتے۔ پی پی پی اور پی ایم ایل ن کے احتجاج کا انحصار مولانا فضل الرحمن کے مدرسوں کے طلبا پر ہوتا ہے۔
2۔ عوام کو بلاوا: عوام اس وقت حرکت میں آتے ہیں جب بلاوے میں جان ہو۔ جب نواز شریف کو پاناما پیپرز کیس میں نااہل قرار دیا گیا تو ان کی کال ٹو ایکشن تھی ''مجھے کیوں نکالا‘‘۔ اس رونے دھونے کا لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ ان کے حامی سامنے آئے لیکن انہیں ان کی بے گناہی پر یقین نہیں تھاکیونکہ ان کا بدعنوانی کا ٹریک ریکارڈ رہا ہے۔ عوام ان کی مظلومیت کی دہائی سے متاثر نہ ہوئے۔ بے نظیر کے جاں بحق ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کو کرشماتی لیڈر کی تلاش رہی ۔ بلاول اور آصف زرداری دونوں خود کو ایسا ثابت نہ کرسکے کیونکہ سندھ میں ان کی 14 سالہ کارکردگی غیر تسلی بخش رہی ہے‘ لیکن جب پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان ''امپورٹڈ گورنمنٹ نامنظور‘‘ اور ''آزادی یا غلامی؟‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں تو یہ پاکستانی عوام کے دل کی دھڑکن بن جاتے ہیں ۔ یہ اُن پاکستانیوں کو جھنجھوڑ دیتا ہے جو ابھی تک نوآبادیاتی دور کے سایوں سے باہر نہیں نکلے ۔ اس کال نے واقعی عوام کو متحرک کر دیا ہے اور وہ حقیقی آزادی کی اس جدوجہدمیں تحریک انصاف کا ساتھ دینے کے لیے بے ساختہ نکل پڑے ہیں ۔
3۔ متبادل امکانات: اس بڑے پیمانے پر ردعمل کی ایک اور وجہ صرف چودہ پارٹیوں کے بارے میں سوچ ہے جنہیں پہلے ہی بار ہا آزمایا اور مسترد کیا جاچکا۔ لوگ جانتے ہیں کہ یہ ایک باری اور ملنے پر وہی کچھ کریں گے جو کرتے رہے ہیں۔ تقریباً تمام داغ دار چہرے حکومت میں دیکھ کر لوگ خوف زدہ ہیں۔ اعلان کردہ کابینہ کے تقریباً 70 فیصد لوگ ضمانت پر ہیں یا بدعنوانی کے الزامات کی زد میں۔ اپنے مستقبل اور اپنی اگلی نسلوں کے تاریک ہوجانے کے خطرے کے پیش نظر لوگ کمر باندھ کر میدان میں آگئے ہیں ۔
تحریکیں جو ش و جذبات سے شروع ہوجاتی ہیں لیکن ان میں وہ جوشیلے جذبات برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے ۔ کون سے عوامل ان کی کامیابی کا تعین کرتے ہیں:
1۔ بیانیے کوبرقرار رکھنا : جبکہ خود اعتمادی‘ خودمختاری اور آزادی کا بیانیہ عوام کے دل میں گھر کر چکا ‘ سب سے مشکل مرحلہ ان جذبات کی شد ت کو برقرار رکھنا ہوگا۔ حکومت تحریک کو تھکادینے کی کوشش میں انتخابات کو طول دینے کی کوشش کرے گی۔ اس لیے یہ اس پر منحصر ہے کہ عوامی غم و غصہ کب تک جاری رہ سکتا ہے۔ عمران خان کی ثابت قدمی کی تاریخ کے ساتھ امکان یہ ہے کہ یہ حکومت کو اس حد تک لے جاسکتے ہیں کہ جہاں انتخابات کا انعقاد ہی واحد حل دکھائی دے ۔
2۔ استقامت کی سکت : انتقام نہ لینے کے تمام تر دعووں کے باوجود شریف خاندان مخالفین کو کچلنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی شہرت رکھتا ہے۔ ماڈل ٹاؤن کا صرف ایک واقعہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ کس طرح ایک رکاوٹ ہٹانے جیسی معمولی مزاحمت پر 100 لوگوں کو دن دیہاڑے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔جب رانا ثنااللہ وزیر داخلہ ہوں تو مزاحمت کو برقرار رکھنے کی صلاحیت کا امتحان ہو گا۔ اگر پی ٹی آئی اس طوفان کا مقابلہ کرتی ہے تو وہ اس سے بھی زیادہ عوامی حمایت اور ووٹ حاصل کر لے گی۔
3۔ بلف کی بازی پلٹنا: شاید واحد سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ مقتدرہ اس تنازع میں کہاں کھڑی ہوتی ہے۔ اگر وہ اس بھان متی کے کنبے کی حکومت کی حمایت اور سرپرستی کرتے ہیں تو قبل از وقت انتخابات ممکن نہیں ۔ قبل از وقت انتخابات ہونے کی صورت میں بھی پی ٹی آئی کے لیے اس طے شدہ نمونے کا توڑ کرنا مشکل ہوگا جو مقتدرہ من پسند نتائج کے لیے وضع کرے گی۔ اگرچہ یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ عمران خان مقبول ہیں اور ان کے اکثریت حاصل کرنے کا امکان ہے‘ لیکن یہ بیان خود متعدد تشریحات لیے ہوئے ہے ۔بالآخر یہ اجتماعی عوامی مرضی ہے جو طے شدہ منصوبوں اور گھڑے ہوئے نتائج کے بت توڑ سکتی ہے ۔ تحریک انصاف کے لیے مشکلات بہت ہیں۔ سب سے بڑی سپر پاور اور مقامی شراکت دار پی ٹی آئی کے خلا ف ہیں ۔ اسے حالات کے مخالف دھارے میں آگے بڑھنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا۔ لیکن پھر یہ بھی ہے کہ اس ملک کی تاریخ میں کبھی بھی لوگ اس طرح امڈ کر باہر نہیں نکلے۔ لندن ‘ پیرس‘ کراچی اور لاہور کا فرق مٹ گیا۔ ان مناظر اور ان آوازوں نے سپرپاور او ر اس کے مقامی ٹولے کی شکست کا اعلان کردیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved