تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     14-08-2013

کائنات ’’تسخیر‘‘کرتا انسان

7ارب سال کا ایندھن موجود ہے ۔ اس کے بعد سورج کی موت کا آغاز ہوگا اور اس کے ساتھ ہی ابراہیمؑ کے اخذ کردہ نتیجے پر مہرِ تصدیق ثبت ہو جائے گی کہ زوال پذیر شے انسانوں کا رب نہیں ہو سکتی مگر کون سا انسان ؟ ساڑھے تین بلین سال بعدجب گرم سے گرم تر ہوتا ہمارا سورج کرّہ ارض کے سمندربھسم کر ڈالے گا تو حضرتِ انسان کیا زندہ سلامت موجود ہوں گے ؟ اورضروری تونہیں کہ ہمارے اس پیارے ستارے کو طبعی موت ہی نصیب ہو۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک عظیم تباہی کا نظارہ ہمیں اپنی آنکھوں سے کرنا ہوگا۔ ایک ستارہ اپنے خاتمے سے قبل تیزی سے بڑا ہونے لگتا ہے ۔ سورج جب پھیلے گا تو قریب کے اپنے دو تین سیارے با آسانی نگل لے گا۔ عطارد ، زہرہ اور ہمارا چاند ؟ قیامت برپا ہو گی اور خدا کا حکم نافذ ہو جائے گا\"و جمع الشمس و القمر\"اور سورج اور چاند ملا دئیے جائیں گے ! زندگی کی تلاش میں انسان اس وسیع کائنات میں مارا مارا پھر رہا ہے ۔اپنے ساتھیوں میں سے مریخ کو ہم نے سب سے زیادہ ٹٹولا ۔ سطح پر توایک چیونٹی بھی مل نہ سکی ، تہ میں شاید کوئی جرثومہ چھپا ہواور یوں ہماری تلاش \"کامیابی \"سے ہمکنار ہو۔ منصوبہ اب یہ ہے کہ کچھ انسان وہاں بسائے جائیں ۔ ایک ایسا سفر ، جس سے واپسی ممکن نہ ہوگی ۔ پاگلوں کا ایک ٹولہ اس ویران اور برباد سیارے پر ٹکریں مارتا پھرے گا۔ کچھ \"فائدے \"بھی انہیں ہوں گے ۔ دن 37منٹ طویل ہو جائے گا۔ چند مرلے زمین کے لیے خون بہانے والوں کے لیے وہاں کھربوں ایکڑ موجود ہوں گے ۔ کوہ پیمائوں کے لیے مائونٹ ایورسٹ سے تین گنا بڑا پہاڑ ۔اورقیمت؟ شدید سردی اورتابکاری ۔ طویل خلائی سفر اور سرخ سیارے کی کم کششِ ثقل والی زمین پران بد نصیبوں کے جسم سکڑ جائیں گے ۔ کینسر کا خطرہ اور کمزور قوّتِ مدافعت ۔ خود کو بچائے رکھنے کے لیے وہ کئی میٹر مٹی کی تہہ میں جا چھپیں گے۔ پھول ، جھیلیں ، بارش اور سبزہ ،کچھ بھی نہیں ۔ سب سے بڑھ کر وہ شمسی ہوائیں ، مقناطیسی میدان کی عدم موجودگی میں جو بقا کو شدید دشوار بنا ڈالیں گی۔کرّہ ٔارض پر یہ میدان زیرِ زمین پگھلے ہوئے لوہے نے جنم دیے ہیں ۔ سورج کی تابکاری سے وہ ہماری حفاظت کرتے ہیں ۔ برسبیلِ تذکرہ لوہا ایک ایسا بھاری عنصر ہے ، جو زمین تودور ، ہمارے سورج جیسے ستارے میں بھی پیدا ہو نہیں سکتا۔ کسی بڑے ستارے کی ہلاکت کے دوران فضا میں وہ منتقل ہوا ۔ زمین کی تخلیق کے دوران یہ باقیات ہمیں عطا ہوئیں۔ قرآنِ حکیم کہتاہے کہ لوہا زمین پر نازل کیا گیا۔ چار ارب سال قبل تک مریخ پر بھی مقناطیسی میدان اور سمند رموجود تھے ۔ ایک حدیث یاد آتی ہے ۔حساب کتاب ختم ہو نے کے بعد جنت میں بہت سی جگہ بچ رہے گی ۔ پھر او رلوگ پیدا کیے جائیں گے اور آزمائے جائیں گے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ مفہوم )۔ کیا یہ ویران سیارے ہمیشہ سے ایسے ہی ہیں ؟ نظامِ شمسی میں کرّہ ارض کے بعد زندگی کے لیے سب سے موزوں سیارے مریخ سے مایوس ہو کر ہم خود سے مماثلت رکھنے والا کوئی کرّہ ڈھونٹتے ہیں ۔ زحل کا چاند ٹائٹن ، بھاری فضا رکھنے والا واحد جسم ۔ وہ ماحول ، جو کرّہ ارض نے شاید چار ارب سال پہلے دیکھا تھا۔ ہوا، بدلتے موسم ،دریا ، سمندر اور بارش لیکن رک جائیے ۔ پانی نہیں، یہ مائع قدرتی گیس ہے ۔ کرّہ ارض کے تیل اور گیس کے مجموعی ذخائر سے سینکڑوں گنا زیادہ ۔کاش یہ ہمارا چاند ہوتا! تب شاید خون کے دریا بہا دئیے جاتے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ کائنات میں قیمتی عناصر اس قدر ہیں کہ ہماری سوچ اس کا احاطہ نہیں کر سکتی ؛حتیٰ کہ ہیرے سے بنا ہوا ایک سیارہ ۔ ہم یہاںٹکے ٹکے پہ جھگڑ تے پھر رہے ہیں۔ کبھی قدرت مہربان بھی ہو جاتی ہے ۔ 15فروری 2013ء کو روس میں ایک شہابِ ثاقب گرا تو اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہزاروں ڈالر میں بیچے گئے۔ جہاں تک زندگی کا سوال ہے تو ٹائٹن پر درجہ حرارت منفی 180ڈگری ہے ! تلاش و آرزو میں عمر گزری تجھے اے زندگی لائوں کہاں سے؟ مجبوراً اب ہم نظامِ شمسی سے باہر کا رخ کرتے ہیں ۔ سورج کے قریب ترین ہمسایے Alpha Centauri کا کوئی سیارہ ؟ تیز ترین خلائی جہاز میں ڈیڑھ لاکھ سال تک سفر۔ ادھرنسلِ انسانی کی عمرہی 40سے 90ہزار سال ہے ۔ ہماری گلیکسی ملکی وے میں کم از کم 100ارب ستارے ہیں۔ اگر سب سے دور والے ستارے کے گرد ذہین مخلوقا ت موجود ہوں تو کروڑوں برس میں بھی ہم ان تک پہنچ نہ پائیں گے ۔ ضروری نہیں کہ ہماری گلیکسی میں زندگی لازماً موجود ہو۔ کائنات میں کم از کم 100ارب گلیکسیز ہیں ۔کھرب ہا کھرب سال کا سفر؟ اس سے پہلے ہی ہمارے نظامِ شمسی کا خاتمہ ہو چکا ہوگا، جس کی عمر صرف 7ارب سال باقی ہے‘ اگر کوئی حادثہ نہ ہوا ۔ادھر قیامت کے آثار اور نشانیاں کچھ اس طرح واضح ہیں کہ ہزار ، پانچ سو سال سے زیادہ کی امید نہیں ۔ پھر یہ بھی تو ہو سکتاہے کہ آدم کی اولاد ہی ایک دوسرے کو نوچ کھائے ۔ اگر د وجنگوں میں آٹھ کروڑ انسا ن قتل ہو سکتے ہیں تو ایک ایٹمی جنگ میں سات ارب کیوں نہیں ؟ خدا سات آسمانوں اور سات زمینوں کا ذکر کرتاہے ، جہاں اس کا حکم اترتاہے ۔ یوں تو کھرب ہا کھرب سیارے موجود ہیں ، پھر سات ہی کیوں؟ کرّۂ ارض جیسے سات سیارے؟اے گروہِ جن و انس اگر تم اس قابل ہو کہ زمین و آسمان کی سرحدوں سے نکل سکو تو نکل جائو۔۔۔\"

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved