آج کل جو آپ وطنِ عزیز میں دیکھ رہے ہیں‘ اور جو کچھ آنے والے دنوں میں حالات کا نقشہ دوریش کے ذہن میں اکثر گردش کرتا ہے‘ الفاظ میں ڈھالنے سے بھی خوف آتا ہے۔ موجودہ نظام‘ اس کے آگے اور پیچھے حکمران اور اس کو نئے سہاروں کا مصنوعی بندوبست‘ سب اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔ بے چینی‘ اضطراب‘ افراتفری جیسے الفاظ اب بے معنی دکھائی دیتے ہیں۔ ملک کے کونے کونے میں اٹھتی آگ کے شعلے اب اتنے بلند ہیں کہ اندھے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ جو نہیں بھی دیکھنا چاہتے‘ اپنے ٹھنڈے گھروں میں‘ اپنے محفوظ ٹھکانوں میں اس کی گرمی کو محسوس کر رہے ہیں۔ یہ وہ جھاڑ پھونس میں لگی آگ نہیں کہ آپ دو چار بالٹی پانی انڈیلیں گے اور بجھ جائے گی۔ اب ''فائر بریگیڈ‘‘ کچھ ذومعنی نہیں لگتا۔ دلوں میں جب آگ لگے اور کئی دہائیوں سے سلگتی رہی ہو‘ تو ''فائر بریگیڈ‘‘ کے کوئی اور مقاصد نہیں نکالے جا سکتے۔ لگانے اور بجھانے والوں کے بارے میں لوگوں میں تمیز نہ رہے تو اعتبار کی یہی کیفیت بنتی ہے۔ دلوں میں بھڑکتی آگ کی تابکاری اوراس کے دیرپا اثرات ایٹمی ہتھیاروں سے کم نہیں۔ ظلم تو یہ ہے کہ جنہوں نے یہ آگ پچاس سال سے لگا رکھی ہے‘ جنگل اور ''فائر بریگیڈ‘‘ ان کے حوالے کر دیئے گئے ہیں۔ وقتی طور پر ادھر ادھر سے اور ٹھنڈے ملکوں سے ادھار کا پانی مانگ کر آگ بجھاتے دکھائی دیں گے کہ شعلے اتنے بلند نہ ہوں کہ کہیں وہ خود ان میں بھسم نہ ہو جائیں‘ مگر یہ بے سود تدبیریں وہ کئی مرتبہ اپنی اپنی سابقہ بادشاہتوں میں کر چکے ہیں۔
ملک کے اندر بڑھتی‘ پھیلتی باغیانہ سوچ اور بدامنی روکنے کے لیے اگر ہم نے واقعی کچھ کرنا ہے تو اس کے محرکات‘ اسباب اور سماجی و سیاسی پس منظر کو سمجھنا ہو گا۔ یہ معمولی معاملہ نہیں‘ قوم‘ عوام اور ملک کا مستقبل دائو پر لگا دیا گیا۔ کہنے کو تو ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں‘ مگر طاقت کا یہ حال ہے کہ چند لوگ بند کمروں میں فیصلے کر کے‘ جس کو چاہیں تخت اور تاج اور خلعتِ شاہی عنایت فرما دیں۔ قومی مفاد کا تعین کچھ مخصوص ہاتھوں میں ہو تو خوف غیر فطری نہیں ہو سکتا کہ ہم ایسے ادوار میں سقوطِ ڈھاکہ سے لے کر اعلیٰ عدلیہ کو گھروں میں بند رکھنے تک کے معاملات دیکھ چکے ہیں۔ نوآبادیاتی ممالک آزاد ہوئے تو تھوڑے ہی عرصے میں ''آزادی‘‘ سینکڑوں ہمارے جیسے ممالک میں ایک نئے نوآبادیاتی نظام میں تبدیل ہوتے دکھائی دینے لگی۔ بیرونی حکمرانوں نے بوریا بستر گول کر کے اپنے گھروں کی راہ لی مگر گماشتے‘ پکے تابعدار قسم کے‘ ہمارے اوپر مسلط کر گئے۔ دوسروں کی طرف بے شک نہ جائیں‘ آپ اپنے ملک کو ہی دیکھ لیں کہ چند سالوں کے اندر‘ بلکہ اس سے بھی پہلے‘ اصل طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں‘ ریاست کی نوکر شاہی ہو چکی تھی‘ باقی سب تاریخ ہے۔
اس زمانے میں کئی ممالک میں افراتفری پھیلی‘ لوگ احتجاج کرنے لگے‘ سیاسی تشدد کے واقعات بڑھتے چلے گئے‘ بغاوتیں عام ہونے لگیں اور ریاست کی جائزیت اور اس کی طاقت کے بارے میں سوال اٹھنے لگے۔ کئی ممالک میں فوجی اور اشتراکی انقلاب بغاوتوں کو کچلنے کے لیے لائے گئے۔ مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے سیاسی مفکروں کی طرف سے یہ لائن آئی: ہمارے جیسے ملک جمہوریت کے لائق نہیں‘ یہاں پہلے ریاست کو مضبوط کیا جائے‘ اقتصادی ترقی ہو اور آگ پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کئے جائیں۔ ایسا ہی ہونے لگا۔
ظاہر ہے کہ سب سیاست کے موضوع پر لکھنے اور تحقیق کرنے والے مقلدین نہیں تھے‘ بلکہ ہمارے ہاں ایسا ہونا علم کے دائرے سے خارج ہونے کے مترادف ہے۔ ہمارے فکری اکابرین میں سے ایک کا نام ٹیڈ رابرٹ گُر (Ted Robert Gurr) تھا۔ آج سے باون سال پہلے انہوں نے ''لوگ باغی کیوں ہوتے ہیں‘‘ لکھ کر علمی دنیا میں ہلچل مچا دی تھی۔ ہم اس زمانے میں جامعہ پنجاب میں قدم رکھ چکے تھے‘ اور سیاست ہی اپنا فکری اوڑھنا بچھونا تھا‘ جو ابھی تک آرام و استراحت فراہم کر رہا ہے۔ ہمارے نزدیک تو اب دنیا گول سے زیادہ سیاسی ہے‘ اور سیاسی اعتبار سے دیکھیں تو کبھی یہ گول نظر نہیں آتی‘ ہمیشہ ٹیڑھی‘ کھردری اور نوک دار معلوم ہوتی ہے۔ پروفیسر گُر کا اولین اور بنیادی تھیسز یہ تھا کہ جب لوگوں میں یہ احساس جَڑ پکڑ جائے کہ انہیں وہ نہیں مل رہا‘ جس کے وہ حق دار ہیں تو وہ بغاوت اور انقلاب کی باتیں ہی نہیں کرتے بلکہ ایسا کر بھی بیٹھتے ہیں۔ سیاسی تشدد‘ گھیرائو جلائو اور معاشرتی تقسیم ان کے ہتھیار ہوتے ہیں۔ بعد میں انہوں نے اس مفروضے کو تھوڑا سا تبدیل کیا اور کہا کہ شکایتیں نظام سے بڑھ جائیں‘ لوگ تنگ ہو جائیں تو جنگ کرنے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے تفصیل سے لکھا کہ لوگوں میں شکایتیں اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ انہیں انصاف نہیں ملتا۔ انصاف کے فلسفے اور اس کے گہرے فکری مباحثوں میں آپ کو الجھانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ یہ حق بھی ہے‘ برابری بھی‘ اور قانون سب کے لیے ایک‘ معیار ایک اور ریاست کی ایسی پالیسیاں کہ ارتکازِ زر نہ ہو‘ اور نہ ہی طاقت کچھ خاندانوں میں مرکوز ہو کر رہ جائے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے ملک میں تو ایسا کبھی نہیں ہوا‘ اور نہ آج انصاف کا خون بہایا جا رہا ہے‘ ہم تو دوسرے ممالک کی ہی بات کر سکتے ہیں۔
تیسری بات جو ہمارے گُرو گُر صاحب نے کی‘ یہ ہے کہ ہر ملک کے تاریخی‘ سیاسی‘ نسلی اورمذہبی پس منظر کو سمجھنا ہو گا کہ بغاوت کیوں ذہنوں میں جنم لیتی ہے۔ مذہب‘ لسانیت‘ قوم پرستی‘ طبقاتی تفریق اور حکمران ٹولوں کی جائزیت اور ان کے ''کارناموں‘‘ کو لوگ کیسے دیکھتے ہیں‘ ان کے مزاج کو متاثر کرتے ہیں۔ مطلب یہ کہ نا انصافی کو لوگ اپنے ہی فکری رنگ اور سیاسی تعصب کے لحاظ سے نظر میں رکھتے ہیں۔ ہم اپنے خطے اور ملک کے اندر اٹھتی باغیانہ سوچ کو دیکھیں تو اس کے مختلف زاویے ہیں‘ مگر ایک قدر مشترک بھی ہے۔ وہ یہ کہ نظام نہیں چل رہا اور جن کے ہاتھ میں ہے‘ وہ آزمائے ہوئے بھی ہیں اور ان کے ہاتھ اتنے رنگے ہوئے ہیں کہ سو من ولایتی درآمد کردہ اعلیٰ ترین صابن بھی داغ دھبے دھو نہ سکے۔ ان کو دھونے کی ماضی کی مشقیں جن جن ایوانوں‘ قوانین اور ترمیموں میں ہوئیں ان سے نظام کے بارے میں باغیانہ سوچ میں اضافہ ہوا‘ اور ہوتا چلا جا رہا ہے۔
گُر نے یہ بھی بتایا کہ حکومتیں خاموش نہیں بیٹھتیں‘ پالیسیوں‘ قوانین اور طاقت کے زور پر بغاوت کو کچلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جلتی آگ پر ریلیف کا پانی ڈال کر اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش بھی ہوتی ہے‘ مگر یہ وقتی ڈھکوسلے کام نہیں کرتے۔ امن‘ سلامتی اور معاشرتی ترقی کے لیے ان اسباب اور وجوہات کو ختم کرنا ہو گا۔ ان کے اثرات پر مٹی ڈالنے سے کام نہیں بنے گا۔ اب کیا کہیں کہ ہماری قسمت نے ہمیں کہاں لا کھڑا کیا ہے۔ جو رنگین ہاتھوں سے بار بار مزید رنگین ہوتے رہے ہیں‘ اب طاقت ان کے ہاتھوں میں ہے۔ ہمارا اور قوم کا مقدر بھی۔ کتنی غیر فطری صورت حال ہے کہ جو بغاوت کے اسباب میں سے ہیں‘ انہیں کو حل کے طور پر کرسی پر بٹھا دیا گیا ہے۔ پھر بغاوت تو ہو گی‘ جو تپتی دھوپ میں بھی سڑکوں پر ناچتی نظر آئے گی۔ کہتے ہیں کہ حرص اور نشہ بڑھ جائیں تو عقل گرمیوں کی تعطیلات کا اعلان کر دیتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved