جمہوریت میں لوگوں کو تولا نہیں گنا جاتا ہے لیکن پاکستان میں کچھ لوگوں کی حرکات و سکنات سے لگتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو تولنے پر اصرار کر رہے ہیں۔ اس طرزِ فکر اور طرزِ عمل نے خود جمہوریت کے وجود پر سوال اٹھا دیا ہے۔ ایک کامیاب اور مکمل جمہوریت کی شرطِ اولین یہ ہے کہ جمہوری طریقے سے ہونے والے فیصلوں کو ہر فریق تسلیم کرے۔ دوسری بڑی شرط یہ ہے کہ ملک کے آئین کو ایک سپریم دستاویز مانا جائے اور جمہوری عمل میں شمولیت کے خواہش مند فریق آئین کا مکمل احترام کریں۔ تیسری بڑی شرط یہ ہے کہ اگر جمہوری عمل میں شامل قوتوں کے درمیان کسی بات پر اختلاف رائے ہو اور اسے جمہوری عمل کے ذریعے حل نہ کیا جا سکتا ہو تو یہ معاملہ ملک کی عدالتوں کے سپرد کیا جائے اور فریقین عدالتی فیصلوں کو بلا کسی چون و چرا کے تسلیم کریں۔
لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر سیاسی عمل میں شریک قوتوں کا طرزِ عمل اس کے بر عکس رہا ہے۔ یہاں ایک ہی نظام اور الیکشن کمیشن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے انتخابات میں کسی سیٹ پر کوئی فریق جیت جائے تو وہ اسے دنیا کا شفاف ترین انتخاب قرار دیتا ہے اور اگر کوئی سیٹ ہار جائے تو دھاندلی قرار دے کر انتخابی نتائج ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔ اگر عدالتیں فیصلے کسی فریق کی مرضی و منشا کے مطابق کریں تو آزاد‘ خود مختار اور دیانت دار قرار دی جاتی ہیں‘ ان کی غیر جانب داری اور انصاف پسندی کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں‘ مگر کوئی فیصلہ ان کی مرضی اور مفادات کے بر عکس ہو جائے تو ماننے سے انکار کر دیا جاتا ہے اور عدالتوں کی دیانت پر ہی سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے نظام یا بندوبست کو جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔ کئی بار عرض کیا اور مکرر عرض ہے کہ جمہوریت محض ووٹ کی مشق کا نام نہیں ہے۔ یہ ایک کلچر اور طرزِ زندگی ہے۔ اگر کسی ملک میں ایک مقررہ مدت کے بعد عوام کو حقِ رائے دہی حاصل ہو اور اس پر با قاعدگی سے عمل بھی ہو رہا ہو لیکن اس ملک میں عدالتیں آزاد و خود مختار نہ ہوں‘ اور ان کے فیصلے تسلیم کر کے ان پر عمل نہ کیا جاتا ہو‘ میڈیا آزاد نہ ہو اور ہر شخص کو آزادیٔ رائے کا حق نہ ہو تو اس کو جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں جو صورت حال چل رہی ہے اس کی موجودگی میں ایسا لگتا ہے کہ یہاں محض انتخابی عمل کو جمہوریت سمجھا اور قرار دیا جا رہا ہے جبکہ جمہوریت کے دیگر بنیادی لوازمات کو فروغ دینے کے بجائے اس کے خلاف اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے دنیا میں جمہوریت کی درجہ بندی کے حوالے سے پاکستان کو اس وقت ''ہائبرڈ جمہوریت‘‘ میں شامل کیا جاتا ہے‘ جو آمریت سے صرف ایک درجہ اوپر ہے۔ یہ درجہ بندی اس تلخ حقیقت کا اظہار ہے کہ اگر اس طرح کے رجحا نات جاری رہے تو پاکستان بہت جلد اس درجے سے بھی نیچے گر کر آمریت یعنی ''آٹوکریٹک ریاست‘‘ کی رینکنگ میں شامل ہو جائے گا۔
گزشتہ سال دنیا میں جمہوریت کی درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 104 تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں 103 ممالک ایسے ہیں جن میں جمہوریت کی حالت پاکستان سے بہتر ہے۔ یہ درجہ بندی اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ نے کی ہے۔ اس درجہ بندی کے تحت پاکستان کو ''ہائبرڈ رجیم‘‘ میں شمار کیا گیا۔ ہائبرڈ رجیم کو سمجھنے کے لیے دنیا میں جمہوریت کی درجہ بندی کو سمجھنا ضروری ہے‘ اور ان اصولوں کو سمجھنا ضروری ہے جن کی روشنی میں دنیا کو ان درجات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس درجہ بندی کے اعتبار سے دنیا میں مختلف ممالک کو چار درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں پہلا درجہ ان ممالک کا ہے جہاں مکمل جمہوریت ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جن میں شہری آزادیوں اور بنیادی حقوق کا مکمل احترام کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں جمہوری اصولوں کے مطابق ایسا ماحول پیدا کیا جاتا ہے جس میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا صرف احترام ہی نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے فروغ کے لیے ریاستی سطح پر اقدامات بھی کیے جاتے ہیں۔ ان ممالک میں حکومتوں پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کا ایک منظم نظام موجود ہے۔ ان ممالک کی عدلیہ آزاد ہے‘ جس کے فیصلوں کو تسلیم کیا جاتا ہے اور ان پر عمل درآمد ہوتا ہے۔ ان میں میڈیا خود مختار ہوتا ہے اور اظہارِ رائے پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہوتی۔
اس درجہ بندی کے لحاظ سے دوسری قسم ان ممالک کی ہے جن میں جمہوریت تو موجود ہوتی ہے مگر اسے مکمل جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ایک ناقص جمہوریت ہوتی ہے جس کو کئی سنجیدہ مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ اس طرح کی جمہوریت میں انتخابات تو آزادانہ اور شفاف ہوتے ہیں‘ ان میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا احترام بھی ہوتا ہے‘ پریس بھی آزاد ہوتا ہے مگر اس طرح کی جمہوریت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں سیاست میں عوام کی دلچسپی اور شرکت بہت کم ہوتی ہے۔ اس طرح کے ممالک میں جمہوری کلچر اس طریقے سے مضبوط نہیں ہوتا اور حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔
اس درجہ بندی میں تیسری قسم وہ ہے جن کو ''ہائبرڈ رجیم‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس قسم کی حکومتوں میں انتخابی فراڈ کی شکایات عام ہوتی ہیں۔ ہر ہارنے والا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ انتخابی دھاندلی ہوئی ہے اور دھونس دھاندلی کے ذریعے ان کو ہرایا گیا ہے۔ ان ممالک میں حکومت مخالفین کو دبانے کے لیے ناجائز حربے استعمال کرتی ہے۔ یہاں پر عدلیہ آزاد نہیں ہوتی‘ کرپشن عام ہوتی ہے‘ میڈیا کو دبایا جاتا ہے‘ صحافیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے ملکوں میں ظاہر ہے جمہوری کلچر مضبوط نہیں ہوتا۔ حکومت کے خلاف شکایات عام ہوتی ہیں اور گورننس کے مسائل عام ہوتے ہیں۔ ایسی جمہوریت میں حکومت کے ناقدیں اور حزب اختلاف کے لیڈروں کو مختلف طریقوں سے تنگ کیا جاتا ہے۔ ان کی اظہارِ رائے کو سلب کیا جاتا ہے اور ان کو خاموش کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔
اس درجہ بندی میں چوتھا درجہ ان ممالک کا ہے جن میں ایک طرح کا آمرانہ نظام ہوتا ہے‘ مگر بظاہر کچھ جمہوری ادارے موجود ہوتے ہیں۔ ایسے ممالک میں انتخابات میں دھاندلی ہوتی ہے۔ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی پامالی عام ہوتی ہے۔ میڈیا یا تو حکومت کے کنٹرول میں ہوتا ہے یا پھر حکومت کے پسندیدہ لوگ اسے چلا رہے ہوتے ہیں۔ ان ممالک میں آزاد عدلیہ کا وجود نہیں ہوتا اور اظہارِ رائے پر مکمل پابندی ہوتی ہے۔ مکمل جمہوریت والے ممالک میں کینیڈا‘ آسٹریا‘ ڈنمارک‘ فن لینڈ‘ آئس لینڈ‘ جرمنی آئیرلینڈ‘ نیدر لینڈ‘ ناروے‘ سویڈن‘ سوئٹزر لینڈ اور برطانیہ جیسے ممالک شامل ہیں۔ اسی طرح ناقص یا نا مکمل جمہوریتوں میں امریکہ‘ بلجیم‘ فرانس‘ اٹلی‘ سپین جیسے ممالک ہیں جبکہ ہائبرڈ جمہوریتوں میں ترکی‘ بلغاریہ‘ ہنگری‘ پولینڈ برازیل‘ میکسیکو اور پاکستان جیسے ممالک شامل ہیں۔ اسی طرح آمریت پسندانہ ممالک میں الجیریا‘ ایران‘ عراق‘ کویت‘ سعودی عرب ‘شمالی کوریا‘ روس اور چین وغیرہ شامل ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے انتخابات اور جمہوری عمل سے گزرنے کے بعد پاکستان کی جمہوریت کے حوالے سے درجہ بندی میں بہتری کے بجائے اس رینکنگ میں مزید کمی اور زوال کا عمل جمہوریت دشمن آمرانہ رویے کا عکاس ہے‘ جو سیاسی عمل میں شریک سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved