قرآنِ کریم میں معاشی نظام کو بے شمار کدورتوں سے پاک رکھنے کے لیے واضح احکامات صادر کیے گئے ہیں کیونکہ غلط اور حرام طریقے سے حاصل کردہ سرمایے کی بنیاد پر انسان کبھی اپنے نفس کی زمین پر حق کی فصل نہیں بو سکتا۔ اللہ رب العزت انسان سے نیت اور فعل میں صرف صالح عمل پذیری چاہتے ہیں۔ اس لیے ضروری تھا کہ جبلت کی زمین پر کسی ایسی حرام کمائی کا بیج نہ بویا جائے جو نتائج کے لحاظ سے ''شجرہ خبیثہ‘‘ کی شکل اختیار کر جائے۔اسی لیے سب سے زیادہ سود کی حرمت پر زور دے کر مسلمانوں کو اس سے دور رہنے کی تلقین کی گئی کیونکہ معاشی نظام میں سود دجال کا اہم ترین ہتھیار ہے اور اسی کے ذریعے وہ عالم انسانیت کو معاشی جہنم میں دھکیلتا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرتی، اخلاقی، اجتماعی اور فکری تباہی خود بخود واقع ہونے لگتی ہے۔
سود کو عربی زبان میں ''رِبا‘‘کہتے ہیں،جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا‘ پروان چڑھنا او ر بلندی کی طرف جانا ہے۔ شرعی اصطلاح میں رِبا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ : '' کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا ‘‘۔سودخواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے‘ یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری، حرص وطمع، خود غرضی،سنگدلی، مفاد پرستی، زر پرستی اور بخل جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے دین اسلام اسے کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔قرآن پاک کی 12 آیات میں رِبا کے متعلق ذ کر آیا ہے۔ ''سورۃ الروم‘‘ میں اللہ رب العزت نے فرمایا : ''اور جو مال تم سود پر دیتے ہو تاکہ (تمہارا اثاثہ) لوگوں کے مال میں مل کر بڑھتا رہے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھے گا اور جو مال تم زکوٰۃ (و خیرات) میں دیتے ہو (فقط) اللہ کی رضا چاہتے ہوئے‘ تو وہی لوگ (اپنا مال عنداللہ) کثرت سے بڑھانے والے ہیں‘‘۔ (آیت: 39)
اللہ رب العزت نے سورۃالبقرۃ میں ارشاد فرمایا : ''جو لوگ سُود کھاتے ہیں وہ (روزِ قیامت) کھڑے نہیں ہو سکیں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان (آسیب) نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو، یہ اس لیے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خرید و فروخت) بھی تو سود کی مانند ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت (سودا گری) کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کیا ہے، پس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت آ پہنچی‘ سو وہ (سود سے) باز آ گیا تو جو پہلے گزر چکا ‘وہ اسی کا ہے اور اس کا معاملہ ا للہ کے سپرد ہے اور جس نے پھر بھی (سود) لیا‘ سو ایسے ہی لوگ جہنمی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ (آیت:275) شریعتِ اسلامیہ نے نہ صرف سود کو قطعی حرام قرار دیاہے بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیاہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں '' اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا (بے برکت و نابود کرتا) ہے اور خیرات (و صدقات) کی پرورش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے بندے کو پسند نہیں کرتا۔ (سورۃ البقرہ: 276)
تاریخ گواہ ہے کہ انبیائے کرام کی دعوتِ حق میں سب سے زیادہ رکاوٹ ہر دور کے سرمایہ داروں نے ڈالی۔ ابلیس سرمایے کی بنیاد پر ہی اس زعم باطل میں مبتلا کردیتا تھا کہ ان کی حاکمیت کو کبھی زوال نہیں آنے والا اور وہ ہر مشکل کا مقابلہ سرمایے کی بنیاد پر بہ آسانی کرلیں گے۔ اسی زعم باطل میں مبتلا ہوکر نمرود اور اس کے سرمایہ دار مشیروں نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے خلاف متحدہ محاذ قائم کیا تھا اور اسی کی بنیاد پر فرعون اور قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوتِ حق میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے رہے۔آخر میں رسول پاکﷺ کو قریشی سرمایہ داروں کے ساتھ اس نوع کی آخری اور فیصلہ کن جنگ لڑنا تھی۔اس کے بعد یہ ذمہ داری امت مسلمہ اور اس کے اکابرین کے کاندھوں پر آن پڑی لیکن حیرت کی بات ہے کہ تابعین اور تبع تابعین کے دور کے بعد اس اہم ترین موضوع پر انتہائی کم توجہ دی گئی اور بے خبرامت اپنے زوال اور اخلاقی گراوٹ کے اسباب دیگر غیر اہم وجوہات میں تلاش کرتی رہی۔
آخر کار وطن عزیز میںوفاقی شرعی عدالت نے لگ بھگ 19سال بعد سود کے خلاف تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے اس نظام کے مکمل خاتمے کیلئے 5 سال کی مہلت دی ہے۔عدالت نے برطانوی نو آبادیاتی دور کے انٹرسٹ ایکٹ 1839ء اور سود سے متعلق تمام شقوں کو یکم جون 2022ء سے غیر مؤثر کرتے ہوئے حکومت کو اندرونی و بیرونی قرض سود سے پاک نظام کے تحت لینے کی ہدایت کی ہے۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اسلامی بینکاری نظام رسک سے پاک اور استحصال کے خلاف ہے، ملک سے رِبا کا خاتمہ ہر صورت کرنا ہوگا، رِبا کا خاتمہ اسلام کے بنیادی احکامات میں سے ہے، بینکوں کی قرض کی رقم سے زیادہ وصولی رِبا کے زمرے میں آتی ہے، ہر قسم کا انٹرسٹ رِبا ہی کہلاتا ہے، قرض کسی بھی مد میں لیا گیا ہو‘ اس پر لاگو انٹرسٹ رِبا کہلائے گا،اصل رقم سے زائد رقم لینا سود کے زمرے میں آتا ہے۔ معزز عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ معاشی نظام سے سود کا خاتمہ شرعی اور قانونی ذمہ دری ہے۔وفاقی شرعی عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین سی پیک کیلئے اسلامی بینکاری نظام کا خواہاں ہے‘ رِبا سے پاک نظام ہی فائدہ مند ہو گا۔
درحقیقت تمام دنیا میں دجالی معاشی نظام بین الاقوامی سودی بینکوں کی شکل میں انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اسی نظام کے ذریعے تمام دنیا کو معاشرتی اور اخلاقی گرواٹ میں مبتلا کردیا گیا۔ حرام چونکہ فطرت سے بغاوت پر اکساتا ہے‘ اسی لیے سود کو اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے لیکن کیا آج کی مسلم امہ میں اتنی صلاحیت یاسکت ہے کہ وہ اللہ کے باغی اس دجالی معاشی نظام کے متبادل نظام پیش کرسکے؟ کسی نے مضاربہ کے نام سے موجودہ نظام کوجائزیت کا لبادہ اڑھانے کی کوشش کی ہے تو کوئی ''اسلامی‘‘ کے نام پر اپنے آپ کو دھوکا دینے پر تلا ہوا ہے اورکوئی بین الاقوامی مالیاتی نظام سے الگ ہونا تصور میں ہی نہیں لاسکتا۔کیا اس طرح کے ملک کو اسلامی کہا جاسکتا ہے جہاں پر دجالی سودی بینکاری کے ذریعے معاشی نظام چلایا جاتا ہو؟
اس وقت دنیا کا معاشی نظام دجال کے پیروکاروں کے ہاتھ میں ہے جس کی وجہ سے وہ عالمی سیاست، معاشرت اور اخلاقیات پر خود بخود قابض ہوچکے ہیں۔ فیڈرل ریزرو،ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف خطرناک شکل اختیار کر چکے ہیں۔ضروری ہے کہ حکومت غیر اسلامی مالیاتی نظام کو سود سے پاک کرنے کیلئے مؤثر اقدامات کرے۔ میرا یقین ہے کہ ہم عالمگیر سودی نظام کی گرفت سے آزاد ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی مدد بھی ہمیں حاصل ہو گی۔ یاد کریں کہ ہمارے پیغمبر‘ اللہ کے آخری رسولﷺ نے شعب ابی طالب میں محصور رہ کر قریش کے اقتصادی مقاطعے کا سامنا کیا تھا اوربعد ازاں غزوہ احزاب میں دشمنانِ اسلام کی متحدہ قوت کو پسپا کیا۔ چین پاکستان کے بعد وجود میں آیا تھا‘ وہ آج کہاں کھڑا ہے؟ قومی میڈیا کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے عوامی رائے کو منظم شکل میں ابھارنا چاہیے۔ لمحۂ فکریہ تو یہ ہے کہ استعماری طاقتوں نے نہ صرف ہماری آزادی پر کنٹرو ل قائم رکھا بلکہ اپنے ایجنٹ اور کرائے کے لوگ پاکستان پر مسلط رکھے جس کی و جہ سے قیامِ پاکستان کے مقاصد کو بھلا دیا گیا۔ اگر شروع سے ہی سود سے پاک اسلامی نظام کا قیام عمل میں لایا جاتا تو آج ہمارا ملک‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان صحیح معنوں میں دنیا کے رول ماڈل بن جاتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved