ہم نے جن شعبوں کو بُری طرح نظر انداز کیا ہے اُن میں تعلیم سرِ فہرست ہے۔ اس شعبے میں یعنی تعلیم کے نام پر خرچ تو بہت کیا گیا ہے مگر نتیجہ اب تک صفر رہا ہے۔ یہ تماشا طویل مدت سے جاری ہے۔ تعلیم کے حوالے سے بہت سے معاملات میں اچھی خاصی گڑبڑ ہے۔ پہلے کے کسی بھی زمانے کی طرح فی زمانہ بھی بے دھیانی کے عالم میں حاصل کی جانے والی تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں۔ اب ہر معاملہ ہم سے سنجیدہ منصوبہ سازی چاہتا ہے۔ تعلیم کے لیے سنجیدگی انتہائی لازم ہے کیونکہ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ اگر تعلیم و تربیت اہداف کے مطابق حاصل نہ کی جائے تو اچھی خاصی رقم مٹی میں مل جاتی ہے۔ فی زمانہ معیاری تعلیم و تربیت بہت مہنگی ہے۔ اگر والدین متوجہ نہ ہوں اور بچوں کو اُن کے رجحان اور مستقبل کی ضرورت کے مطابق تعلیم و تربیت سے آراستہ نہ کریں تو محض مالی نقصان نہیں ہوتا بلکہ بچوں کا کیریئر اور تمام معاشی امکانات بھی داؤ پر لگ جاتے ہیں۔ معیاری تعلیم و تربیت کے بغیر معیاری زندگی یقینی نہیں بنائی جاسکتی۔ والدین اس بات کو اب تک سمجھ نہیں پارہے کہ تعلیم و تربیت دیکھا دیکھی نہیں کی جاتی بلکہ بچوں کا رجحان دیکھ کر اس کا اہتمام کیا جاتا ہے اور یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ دس پندرہ برس بعد متعلقہ شعبے کی معاشی وقعت کتنی ہوگی۔ ہمارے ہاں جامعات تنزل کا شکار ہیں۔ کالج کی سطح پر بھی معیاری تعلیم اب تک یقینی نہیں بنائی جاسکی۔ سرکاری اداروں کا حال تو خیر پہلے ہی بُرا تھا، اب نجی ادارے بھی معقول تعلیم و تربیت سے قاصر ہیں۔ علم بھی سطحی ہے اور اُس کا اطلاق بھی سرسری سا ہے۔ نئی نسل جو کچھ دیکھتی ہے اُس کے حوالے سے عمل برائے نام اور محض خانہ پُری کی حد تک ہے۔
آج کی دنیا انتہائی معیاری تعلیم و تربیت کے حامل نوجوانوں کے لیے ہے۔ دنیا بھر میں تعلیم و تربیت کا جو اعلیٰ معیار اپنایا گیا ہے وہی ہمیں بھی اپنانا ہے۔ تحقیق کرنے والوں کو بھی اعلیٰ سطح پر یہ کام کرنا ہے۔ نئی نسل کو اب جو کچھ بھی سیکھنا ہے وہ اول و آخر معاشی ضرورت کے تحت سیکھنا ہے۔ آگے وہی بڑھتے ہیں جو اپنی صلاحیت اور مزاج کے مطابق سیکھتے اور اُسے بروئے کار بھی لاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس وقت مجموعی کیفیت یہ ہے کہ کالج اور جامعات میں نئی نسل جو کچھ سیکھتی ہے وہ اُسے آتا نہیں۔ جب معاملہ عمل کا آتا ہے تو نا اہلی اور ناکامی بہت تیزی سے بے نقاب ہوتی ہے۔ حال یہ ہے کہ گریجویشن کرنے والوں میں بھی اکثریت اُن کی ہے جو کوئی درخواست بھی ڈھنگ سے نہیں لکھ سکتے اور حساب کتاب بھی تیزی سے اور درست نہیں کرسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں کم و بیش 90 فیصد گریجویٹ اپنی تعلیم و تربیت کا حق ادا کرنے سے قاصر ہیں یعنی نا اہل ہیں اور اُنہیں کوئی بھی معیاری ملازمت دی نہیں جاسکتی۔ کوئی بہتر منصب تو چھوڑیے، بیشتر گریجویٹس سے کلرک کی سطح کا کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہو پاتا۔ تابناک مستقبل کے محض خواب دیکھتے رہنے سے کچھ نہیں ہوتا، عمل کی سطح پر آکر بہت کچھ کرنا بھی پڑتا ہے۔ آج ہمارے ہاں نصف سے زیادہ نوجوان کام اور مستقبل کے حوالے سے خاطر خواہ حد تک سنجیدہ نہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ خود کو کسی بہتر ملازمت کے لیے تیار کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے اور محض تعلقات کی بنیاد پر ملازمت حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر میں بھی بھیڑ چال ہے یعنی کچھ نیا کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ کام کے ماحول پر بے دِلی اور بے رغبتی چھائی ہوئی ہے۔ اگر کوئی نوجوان غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل ہو اور بھرپور لگن کے ذریعے کچھ کرنے اور آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہو تو اُس کی راہ میں دیواریں کھڑی کی جاتی ہیں۔ جو لوگ کام نہیں کرنا چاہتے وہ دوسروں کو بھی کام سے روکتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ باصلاحیت افراد ادارے بدلتے رہتے ہیں۔ وہ کسی بھی نا اہل سپر وائزر یا منیجر کے ساتھ کام نہیں کرسکتے۔
آج ہمارے ہاں بھی ہیومن ریسورس کا شعبہ تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ بڑے کاروباری ادارے ہیومن ریسورس مینجمنٹ کے اداروں کے ذریعے افرادی قوت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان اداروں کو بھی اب تک مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ بازار میں باصلاحیت اور محنتی نوجوان کم ہیں۔ اگر کوئی باصلاحیت ہو مگر محنت نہ کرنا چاہتا ہو تو کسی کام کا نہیں ہوتا۔ بہت سے نوجوان محنت تو بہت کرتے ہیں مگر اُن میں صلاحیت زیادہ نہیں پائی جاتی اور وہ اپنی صلاحیت کو پروان چڑھانے پر بھی متوجہ نہیں ہوتے۔ اِس کے نتیجے میں اُن کی پیداواری صلاحیت بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔ صنعتی و تجارتی اداروں اور دفاتر کو باصلاحیت نوجوانوں کی ضرورت رہتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل کام کے معاملے میں شدید لاپروا ہے۔ کسی شعبے کو منتخب کرکے اُسے زندگی بھر اپنانے کی سوچ مفقود ہے۔ لوگ کسی شعبے میں کام کرتے رہنے پر بھی کچھ نیا سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بھیڑ چال کا عالم ہے۔ نقّالی کا بول بالا ہے۔
نئی نسل سوشل میڈیا اور دوسری بہت سی علتوں کا شکار ہے۔ وقت کا ضیاع اب عمومی معاملہ ہے۔ فضول سرگرمیوں میں گم ہوکر نئی نسل اپنی صلاحیت اور توانائی‘ دونوں کو مٹی میں ملاتی رہتی ہے۔ کاروباری دنیا کہتی ہے کہ نئی نسل اپنے اندر جاب فٹنس پیدا کرے یعنی خود کو کسی بھی کام کے قابل بنانے پر توجہ دے۔ حکومت سے نوکریاں دینے کی فرمائش کی جاتی ہے مگر نئی نسل خود کو بہتر معاشی امکانات کے لیے تیار کرنے پر متوجہ نہیں ہوتی۔ یہ معاملہ فوری توجہ کا طالب ہے۔ آج پاکستان بھر میں لاکھوں نوجوان تاب ناک مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں مگر اِن خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے مطلوب قابلیت اپنے اندر پیدا کرنے پر متوجہ نہیں ہوتے۔ یہ نوجوان جب عملی زندگی شروع کرتے ہیں تب اِنہیں کچھ ہی دنوں میں آٹے دل کا بھاؤ معلوم ہو جاتا ہے۔ ملازمت کے تقاضے نبھانے کی کوشش میں اِن کے غبارے سے ہوا نکلتے دیر نہیں لگتی۔ یہ کیفیت اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں اب تک کیریئر کونسلنگ کا کلچر پروان نہیں چڑھایا جاسکا۔ کیریئر کاؤنسلرز نئی نسل کو بتاتے ہیں کہ وہ کیا کرسکتے ہیں اور بہتر معاشی امکانات کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ اس معاملے میں والدین کی توجہ بھی لازم ہے۔ اُنہیں دیکھنا چاہیے کہ اُن کی اولاد کیا کر رہی ہے اور کیا کرسکتی ہے۔
بے روزگاری کے حوالے سے حکومت پر تنقید کرنے سے معاملات درست نہیں ہوسکتے۔ نئی نسل خود کو بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنے کی راہ پر گامزن ہو تو بات بنے۔ کارپوریٹ سیکٹر میں غیر معمولی مسابقت پائی جاتی ہے۔ اس شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے اعلیٰ تعلیم و تربیت اور منصب سے موزونیت ناگزیر ہے۔ معاشرے پر ذرا دھیان سے نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ لوگ جب اپنا کام کرتے ہیں تو زیادہ متوجہ رہتے ہیں۔ کوئی بھی شخص کوئی کام اچھی طرح سیکھ کر جب اپنے کام یعنی سیلف ایمپلائمنٹ کی طرف جاتا ہے تب اُس کی لگن قابلِ دید ہوتی ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ کہیں ملازمت کر رہے ہوتے ہیں تو کام میں دلچسپی نہیں لیتے۔ اُنہیں صرف تنخواہ وصول کرنے سے غرض ہوتی ہے۔ یہی لوگ جب اپنا کام کرتے ہیں تو دن رات ایک کردیتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ یافت ممکن ہو۔ یہ تو دوغلا پن ہوا۔ انسان جب کسی کے لیے کام کر رہا ہو تب بھی کام پر بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ جو تنخواہ وصول کی جارہی ہے اُس کا حق تو ادا کیا ہی جانا چاہیے۔
آج کے پاکستان میں آجروں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جسے کام پر لگایا جاتا ہے اُس کی نگرانی بھی کسی کو سونپی جاتی ہے کہ وہ کام کر بھی رہا ہے یا نہیں! اِس طور آجروں کے اخراجات دُگنے ہو جاتے ہیں۔ آجروں کی شکایت دور ہونی چاہیے۔ والدین، اساتذہ اور خاندان کے بزرگوں کا فرض ہے کہ نئی نسل کو بہتر مستقبل کے لیے تیار کرتے وقت اُنہیں کام میں بھرپور دلچسپی لینے کی تحریک بھی دیں۔ نوجوانوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرانا ہوگی کہ ذاتی کام کی طرح اُس کام پر بھی پوری توجہ دی جانی چاہیے جو کسی کے لیے کیا جارہا ہو۔ یہ بھی جاب فٹنس کا لازمی جُز ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved