جنزسٹولٹنبرگ ناروے کے وزیراعظم ہیں۔ ایک دوپہر جنزسٹولٹنبرگ نے ایک عجیب وغریب حرکت کی کہ ایک ایسے دور میں جب وزیراعظم کو ایجنسیوں‘ مشیروں اور میڈیا کی صورت میں سینکڑوں ایسے کان اور آنکھیں دستیاب ہوتے ہیں جن کے ذریعے کوئی بھی حکمران عوام کی ’’اصل اور حقیقی‘‘حالتِ زار سے آگاہ رہ سکتا ہے‘ جنزسٹولٹنبرگ نے ایک روز ٹیکسی ڈرائیور کا روپ دھارا اور اپنے عوام سے براہ راست رابطے کا فیصلہ کیا۔ سواریاں اٹھائیں اور اپنی پہچان کرائے بغیر ان سے گفتگو کی۔ جنزسٹولٹنبرگ نے اس موقع پر جو جملہ کہا وہ مسلمان صدیوں سے سنتے اور پڑھتے آرہے ہیں مگر شاید بھلا چکے ہیں۔ جنز نے کہا ’’میں جاننا چاہتا تھا کہ لوگ حقیقتاً کیا سوچتے ہیں‘‘ انہوں نے کہا ’’ وہ چاہتے ہیں کہ ناروے کے عوام جو اصل ووٹر ہیں‘ ان سے ان کی رائے معلوم کی جائے اور ٹیکسی میں زیادہ تر افراد اپنی رائے کا اظہار کھل کر کرتے ہیں ‘‘۔ خیال رہے کہ یہ تیرہ چودہ سو سال پرانا نہیں بلکہ 2013ء کا واقعہ ہے ۔ناروے ان ممالک میں سرفہرست تصور کیا جاتا ہے جو ویلفیئر سٹیٹس کہلاتی ہیں۔ ایسی ویلفیئر ریاست جس کا خواب مسلمانوںنے ہمیشہ دیکھا۔ ایسی ہی ویلفیئر سٹیٹ جس میں مسلمانوں کے ایک خلیفہ نے ایک بوڑھے یہودی کو بھیک مانگتے دیکھ کر بیت المال سے اس کے لیے وظیفہ مقرر کر وایا تھا کیونکہ ریاست کا ہر شہری مسلمانوں کے خلیفہ کے نزدیک ریاست کی ذمہ داری تھا‘ خواہ وہ کسی بھی عقیدے سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہو اور اس کی بیماری بے روزگاری کی صورت میں اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ریاست کا فرض تھا۔ جنزسٹولٹنبرگ کے اس واقعے سے کیسے ممکن ہے کہ صدیوں پہلے مسلمانوں کے خلیفہ کا ایک اور تاریخی واقعہ یاد نہ آئے جس میں خلیفۂ وقت رات کو گشت کر رہے تھے بغیر کسی کے علم میں لائے ہوئے کہ وہ خلیفہ ہیں۔ معلوم ہوا کہ ایک عورت روتے ہوئے بچے کو صرف اس لیے دودھ نہیں پلا رہی تھی کہ ریاستی قانون تھا کہ بچے کو وظیفہ تب سے دیا جائیگا جب وہ دودھ پینا بند کر دیگا۔ خلیفہ وقت پہ رقت طاری ہوگئی۔ خوف خدا اور خلقِ خدا کی محبت میں ڈوبا جملہ ارشاد فرمایا کہ ’’اے عمرؓ نہ معلوم تو نے کتنے بچوں کا خون کیا ہو گا‘‘ اور فوراً خلیفہ وقت حضرت عمرؓ نے منادی کرا دی کہ بچوں کی پیدائش کے ساتھ ہی ان کا وظیفہ مقرر کر دیا جائے۔ سو آج 14 اگست کوجنزسٹولٹنبرگ کی عام آدمی سے عام آدمی بن کر رابطے کی خبر نے کیا کچھ یاد کرا دیا۔ ہمارے حکمران وسیاسیہ جو وقت بدلنے کی اور زمانے کی تبدیلی کی تکرار کرتے ہوئے ماضی کے واقعات کا طنزاً ذکر کر کے تمسخر اُڑانے سے باز نہیں آتے ’’اپنوں‘‘ کو چھوڑ کر اگر جدید ترین اور کامیاب ترین ویلفیئر سٹیٹ ناروے کے وزیراعظم جنزسٹولٹنبرگ کے اس واقعہ سے ہی (بھلے یہ ان کی انتخابی مہم کا حصہ ہی سہی) چاہیں توبہت کچھ سیکھ سکتے ہیں کہ جس ملک کے حکمران اپنے عوام سے ’’کٹ‘‘ کر سینکڑوں ایکڑ کے محلوں میں کروڑوں کے تعمیر کردہ حفاظتی حصاروں میں رہتے ہوں ان کے دور میں عوام صرف اسی طرح کٹ مرا کرتے ہیں جیسے پاکستانی عوام روز گاجر مولیوں کی طرح کٹ مر رہے ہیں۔ عید اور آزادی کے تہواروں پہ خوشیاں منانے کے بجائے لاشے نہ دفنانے پڑتے اگر حکمرانوں کے ’’مِحلوں‘‘ اور عوام کے’’ مُحلّوں‘‘ میں زمین آسمان کا فرق نہ ہوتا۔سو انتہا پسندی ہو یا دہشت گردی‘ بدامنی وغربت ہو یا بھوک اور افلاس کا معاملہ‘ چاہے کیسی ہی پالیسی کیوں نہ بنا لیںجب تک حکمرانوں اور عوام کے درمیان فاصلے ختم نہیں ہوں گے کوئی فیصلہ کوئی پلان کوئی پالیسی کارگر نہ ہو گی۔مارنے والوں کے چہرے اور نام، عہدے اور مقام بدل جائیں گے مگر مرنے والے صرف وہی رہیں گے جو 66برسوں سے مرتے چلے آرہے ہیں یعنی عوام…!!! آخر میں اس افسوس اور دکھ کے ساتھ کہ آج اگست 2013ء میں فیض کی اگست 1947ء کے زیر عنوان لکھی نظم سے کہیں زیادہ مایوسی ماحول پہ طاری ہے فیض نے لکھا تھا… یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں یہ وہ سحر تو نہیں، جس کی آرزو لے کر چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل کہیں تو ہو گا شبِ سُست موج کا ساحل کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غم دل جواں لہو کی پُراَسرار شاہراہوں سے چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے دیارِ حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے پکارتی رہیں باہیں، بدن بلاتے رہے بہت عزیز تھی لیکن رخِ سحر کی لگن بہت قریں تھا حسینانِ نور کا دامن سبک سبک تھی تمنا، دبی دبی تھی تھکن ............................ سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراقِ ظلمت و نور سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصالِ منزل و گام بدل چکا ہے بہت اہلِ درد کا دستور نشاطِ وصل حلال وعذابِ ہجر حرام جگر کی آگ، نظر کی امنگ، دل کی جلن کسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں کہاں سے آئی نگارِ صبا، کدھر کو گئی ابھی چراغِ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں ابھی گرانیِ شب میں کمی نہیں آئی چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی کاش کوئی فیض کو بتلا سکے کہ فیض صاحب 2013ء میں تو اب ہم چلنے کے قابل بھی نہیں رہ گئے تو منزل پہ کیسے پہنچیں گے؟ کب پہنچیں گے؟ پہنچیں گے بھی یا یونہی رستوں میں…؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved