پاکستان کی سیاست پریشان کن خصوصیات کو ظاہر کرتی ہے۔ ہم وقتاً فوقتاً سیاست میں تبدیلیوں کا تجربہ کرتے ہیں‘ تاہم یہ تبدیلیاں اکثر ضرورت سے زیادہ ہوتی ہیں۔ تبدیلی سے زیادہ یہ سیاسی تسلسل ہے۔ ہمیشہ ہم سیاسی تبدیلیوں کے باوجود ماضی کے سیاسی عمل کو دہراتے ہیں۔ ایک عام معاملہ یہ ہے کہ حکومت کی تبدیلی کا مطلب یہ نہیں کہ سیاست بدل جائے گی۔ اسی طرح لوگ ایک پوزیشن سے دوسری پوزیشن پہ منتقل ہو جاتے ہیں لیکن سیاست بغیر کسی حقیقی تبدیلی کے چلتی ہے۔ ریاستی نظام میں اہم عہدوں پر فائز افراد کی تبدیلی کے باوجود معاملات اسی پرانے انداز میں چلتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) وفاقی سطح پر برسرِ اقتدار تھی۔ اسے پاکستان مسلم لیگ (ن)‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے ہر معاملے میں پی ٹی آئی حکومت کی مخالفت کی اور اس کے لیے سماجی، اقتصادی اور سیاسی مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کرنا مشکل بنا دیا۔ حکمرانی کے چیلنج سے نمٹنے میں نااہلی بھی پی ٹی آئی کی خراب کارکردگی کا سبب بنی تاہم پی ٹی آئی کو سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور اسے اپوزیشن کی تنقید کو بے اثر کرنے کے لیے کچھ انتظامی صلاحیتیں صرف کرنا پڑیں۔
اب 11 اپریل کو شہباز شریف کی جانب سے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پی ٹی آئی اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مساوات بدل چکی ہے۔ پی ٹی آئی نئی حکومت کو سخت اپوزیشن پیش کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی اب اسی طرح اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے جس طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی پی ٹی آئی حکومت کی مخالفت کر رہی تھی۔ اب پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت سماجی و اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی بات کر رہی ہے اور پی ٹی آئی اسی طرح تعاون نہیں کر رہی جس طرح ماضی میں ان جماعتوں نے پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کیا تھا۔
اب پی ٹی آئی نئی حکومت پر قبل از وقت انتخابات کے انعقاد کے لیے ماورائے پارلیمان دباؤ ڈال رہی ہے۔ نئی حکومت کی جانب سے بجلی اور پٹرولیم کی قیمتوں میں ممکنہ اضافے سے حکومت پر سیاسی دباؤ بڑھنے کی توقع ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) ضرورت پڑنے پر قیمتوں میں اضافے کا جواز پیش کرے گی‘ اور وہ اپوزیشن کے اس دعوے کو قبول نہیں کرے گی کہ یوٹیلٹیز کی قیمتوں میں اضافے سے روز مرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں مجموعی طور پر اضافہ ہو گا۔ جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی، تب گیس، بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کسی بھی قسم کے اضافے کو پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) ایشو بنا لیتی تھیں اور پی ٹی آئی کے ناقص معاشی انتظام کی مذمت کرتی تھیں۔ اب سیاسی جماعتوں کے کردار بدل چکے ہیں، لیکن ان کے دلائل نہیں۔ ماضی میں قیمتوں میں اضافے پر تنقید کرنے والے اب اس معاملے پر خاموش ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے کردار کی تبدیلی سے سیاست کا محاورہ نہیں بدلا۔ سیاسی گفتگو بدستور گستاخانہ‘ بدتمیزی اور بدتہذیبی پر مبنی ہے۔ جو تبدیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ اب پی ٹی آئی کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ نئی حکومت اور پی ٹی آئی کے رہنما‘ دونوں ہی الزامات اور جوابی الزامات کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں میں جو لوگ سیاسی حریفوں کے لیے توہین آمیز زبان استعمال کرنے کی اپنی شہرت بنا چکے ہیں‘ وہ بدستور اپنے کام پر لگے ہوئے ہیں۔ نئی حکومت آ جانے اور اہم سرکاری عہدوں پر فائز افراد کی تبدیلی کے باوجود سیاست کا دور نہیں بدلا۔
سیاست کی نوعیت اور سمت میں کوئی تبدیلی نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سیاسی بیان بازی اور حقیقت میں بڑا تضاد ہے۔ سیاسی رہنما جمہوریت، آئین پرستی اور قانون کے سامنے برابری کی بات کرتے ہیں‘ لیکن حقیقی سیاست میں ان اصولوں سے وابستگی ناقص ہے۔ جو چیز سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہ اعلیٰ سیاسی اصولوں کے بجائے جماعتی مفاد ہے۔ اگر سیاست کے اعلیٰ اصول رہنما اور پارٹی کے فوری مفاد میں کام کرتے ہیں تو وہ جمہوریت، قانون کے سامنے برابری اور آئین سازی کے اصولوں کی حمایت کرتے ہیں۔ جب یہ اصول کام نہیں کرتے تو سیاسی رہنما اور جماعتیں‘ دونوں ان پر بات نہیں کرتے۔ زیادہ تر سیاسی رہنماؤں نے جمہوری سیاسی کلچر کو اپنایا نہیں ہے اور وہ اس کے تقاضوں کے برعکس کام کرنے سے نہیں ہچکچاتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کا فقدان ہے۔ سب سے اہم چیز اس لیڈر کے ساتھ وفاداری ہے جو پارٹی کو اپنی ذاتی سلطنت کی طرح کنٹرول کرتا ہے۔ کسی پارٹی میں سیاسی رہنمائوں کا عروج و زوال‘ لیڈر اور اس کے قریبی ساتھیوں کی خیر سگالی جیتنے پر منحصر ہوتا ہے۔ اس سے چاپلوسی کے کلچر کو فروغ ملتا ہے جبکہ یہ کلچر لیڈر کی حکمت کی ہر طرح سے تعریف اور سیاسی حریفوں پر کڑی تنقید کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ بعض اوقات، ایک پارٹی میں مختلف سیاسی رہنما سیاسی مسائل پر دیانتدارانہ اور پیشہ ورانہ رائے دینے کے بجائے پارٹی لیڈر کی تعریف کرنے میں ایک دوسرے پرسبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
سیاست میں پیسے کے بڑھتے ہوئے کردار نے سیاست میں پیشہ ورانہ مہارت اور مقصد کی دیانت کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ جن لوگوں نے دولت اکٹھی کر رکھی ہے وہ پارٹی میں غیر متناسب اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ پارٹی کے مختلف اخراجات کا خیال رکھتے ہیں۔ ''پیسے‘‘ اور ''سیاست‘‘ کے اس گٹھ جوڑ نے سیاست کو ایک طرح کی تجارتی سرگرمی میں بدل دیا ہے۔ لوگ ریاستی سرپرستی اور پیسہ کمانے کے دیگر سرکاری ذرائع سے فائدہ اٹھا کر یا آزادانہ طور پر تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کے لیے سرکاری روابط استعمال کر کے پیسہ کماتے ہیں۔ اس دولت کو پھر پارٹی کے انفراسٹرکچر میں سیاسی اثرورسوخ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پنجاب میں سیاسی رہنماؤں کی ایک اچھی خاصی تعداد نے پچھلے تیس سالوں میں بے پناہ مالی فوائد اٹھائے ہیں۔ انہیں نعرے بازی سے آگے جمہوری کلچر، جمہوریت کے اصولوں اور آئین پرستی کی کوئی فکر نہیں۔
یہ حیرت کی بات نہیں کہ اہم ریاستی شعبوں میں چہروں کی تبدیلی سے آپریشنل سطح پر سیاست میں کوئی معنی خیز تبدیلی نہیں آئی‘ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں محاذ آرائی، بے یقینی اور زوال پذیر معیشت کی سیاست برقرار رہے گی۔ شہباز شریف کی قیادت میں نئی حکومت کو متنوع سیاسی جماعتوں کے سیاسی اتحاد کو اکٹھا رکھنے کے مشکل چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں سے اکثر زیادہ سے زیادہ فوائد سمیٹنے کی خواہاں ہیں۔ نئی حکومت کو درپیش دیگر چیلنجز میں احتساب عدالتوں میں مقدمات سے کیسے نمٹا جائے، مخدوش سماجی و اقتصادی صورتحال کو کیسے بہتر بنایا جائے اور موجودہ اپوزیشن سے کیسے نمٹا جائے‘ جیسے معاملات شامل ہیں۔ اگر نئی حکومت نے پی ٹی آئی کی اپوزیشن کو بے اثر کرنے کے لیے انتظامی اور قانونی آلات پر بہت زیادہ انحصار کیا تو سیاسی صورتحال مزید تصادم اور انتشار کی طرف بڑھے گی۔ اگر موجودہ محاذ آرائی کو ختم نہ کیا گیا تو موجودہ حکومت کا خاتمہ اپریل میں پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے سے کم ابتر صورت حال میں نہیں ہو گا۔ اگر نئی حکومت نے محاذ آرائی اور انتقام کی روایتی سیاست سے توجہ نہ ہٹائی تو گرتی ہوئی معیشت کے چیلنج سے نمٹنے کے امکانات کم سے کم ہو جائیں گے اور سیاسی بے یقینی بڑھتی رہے گی۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ پرانی سیاست جاری رہے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved