ذکر چل رہا ہے سازش کا جو ابھی تک چل رہی ہے، پھر بات ہوگی مداخلت پر جو ابھی تک جاری ہے۔ ساتھ ساتھ وہی سازش اور یہی مداخلت کوچہ و بازار میں بچے جَن رہی ہے۔ اِن دونوں کے beneficiary کسی نہ کسی طرح سے عزم، ہمت اور قومی غیرت کو بھوک کے خوف کی ٹیکنالوجی کے زور پر زیرِ نگیں لانے کے جتن کررہے ہیں‘ لیکن قومی مزاحمت ہے کہ ہر روز قیامت خیز ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں جو بھولے بھالے پاکستانی یا انتہائی مکار، اِمپورٹڈ Ultimate Crook یہ سمجھتے ہیں کہ سازش اور مداخلت شِیر و شکر جیسے نہیں، بلکہ اِن میں آگ اور پانی جتنا فرق ہے‘ اُن کے لیے امریکن رائٹر، Daniel Markey کی کتاب No Exit From Pakistan پڑھنا لازم ہے۔ اُردوئے محلّہ میں، اِس کتاب کے ٹائٹل میں یو ایس ایڈمنسٹریشن صاف صاف کہہ رہی ہے، ''میں پاکستان سے نہیں جائوں گی‘‘۔
مسٹر ڈینیل، امریکہ کا پالیسی ریسرچر ہے۔ اِس لیے یہ کتاب لازماً یو ایس ایڈمنسٹریشن کا ''پالیسی پیپر‘‘ ہی کہلائے گی‘ جس کی پہلی اشاعت ستمبر 2013 میں Cambridge University Press سے ہوئی‘ جس کا سب ٹائٹل ہے: America's tortured relationship with Islamabad۔ مسٹر ڈینیل مارکی محض ایک مصنف نہیں ہیں، بلکہ Johns Hopkins School of Advanced International Studies (SAIS)، کے سینئر ریسرچ پروفیسر بھی ہیں۔ ڈینیل نے یوایس ایڈمنسٹریشن کی وہ پالیسی بیان کی، جس میں امریکن کہتے ہیں کہ ہم پاکستان میں مداخلت سے کبھی بھی باز نہیں آئیں گے۔ ڈینیل کی بیان کردہ امریکی مداخلت کی تین بڑی وجوہات یہ ہیں:
پاکستان میں امریکی مداخلت کی پہلی بڑی وجہ: ڈینیل مارکی کے مطابق یو ایس ایڈمنسٹریشن یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان کا نیوکلیئر اور میزائل پروگرام‘ دونوں اِس قدر بڑے اور اتنے وسیع پیمانے (so big and extensible) پر ہیں کہ جن کی وجہ سے ہمیں پاکستان کے ساتھ constantly engaged رہنا ہے تاکہ اِن دونوں پاکستانی دفاعی پروجیکٹس پر قریبی نظر رکھی جائے۔
پاکستان میں امریکی مداخلت کی دوسری بڑی وجہ: امریکہ کے خیال میں پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جس کا عوامی جمہوریہ چین کی سوِل ملٹری لیڈرشپ کے ساتھ سب سے deep ریلیشن شِپ موجود ہے۔ ظاہر ہے، امریکہ ایشیا میں چین کو چیلنج کرنے کیلئے بھارت کے ساتھ پچھلے 2 سالوں میں سٹریٹیجک دفاعی، وہ بھی 3 عدد‘ ایسے معاہدے کرچکا ہے، جن کا مقصد بھارت کو چین کے مقابلے میں ایشین سُپر پاور کے طور پر کھڑا کرنا ہے۔
پاکستان میں امریکی مداخلت کی تیسری بڑی وجہ: امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس اتنی بڑی فوج موجود ہے، جس کے ذریعے سے نہ صرف اِس ریجن کو بلکہ ساری دنیا کو destabilize کیا جا سکتا ہے۔ اِس لیے امریکہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنی engagement جاری رکھے‘ جس کا واحد مقصد ڈینیل مارکی نے اِن لفظوں میں بیان کیا، ''to keep an eye on the Pakistan Army‘‘۔
اب آئیے No Exit from Pakistan کی یو ایس پالیسی کے اُس بنیادی فیصلے کی طرف، جس کے نتیجے میں پاکستان خود مختاری سے بھکاری تک والے دائرے کے مسلسل سفر میں چل رہا ہے۔ اِسی تناظر میں پاکستان کی حالیہ اِمپورٹڈ رجیم کے mouthpiece کی طرف سے بار بار یہ کہنا آسانی سے سمجھ آتا ہے کہ ہم بھکاری ہیں‘ امریکہ ہمارا اَن داتا ہے، ہماری لائف لائن ہے‘ اگر امریکی امداد کا وینٹی لیٹر اُتر جائے تو 22 کروڑ لوگوں کا یہ ملک اپنی موت آپ مر جائے گا۔ اِس امپورٹڈ پالیسی کا climax امپورٹڈ لیڈرشپ بار بار اِس طرح دُہرا رہی ہے‘ "We are beggars and beggars are not choosers"۔
امریکی پالیسی سازوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم نے 72 سال پہلے ہی یہ فیصلہ کرلیا تھاکہ پاکستان کوکسی بھی قیمت پرترقی (develop) کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ساتھ ہی ہم نے یہ بھی فیصلہ کیا تھاکہ پاکستان کو اسلامک ورلڈ کی قیادت کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے۔ اِس یو ایس پالیسی کا اگلا حصہ، پچھلے سے بھی زیادہ چونکا دینے والا ہے‘ جس کا انگریزی سے لفظ بہ لفظ اردو ترجمہ یہ ہے، ''ہم نے کچھ ایسے راستے دریافت کرلیے ہیں، جس کے ذریعے سے پاکستان کو de-stabilize رکھا جارہا ہے، جس کی وجہ اِس بات کا بندوبست کرنا ہے کہ اِس de-stabilize کرنے والی پالیسی کے نتیجے میں "We buy Pakistani leaders."۔ یہاں لیڈرز سے مراد استعمار کے ہاتھوں ڈالروں کے عوض استعمال ہونے والے میر جعفر اور میر صادق جیسے سیاست کار ہیں۔
یہاں اہم سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی پاکستان میں رجیم چینج کیلئے امریکی سازش کو ثابت کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا Benefit of doubt صرف طاقتور مداخلت کار اور اندرونی سہولت کار کرداروں کیلئے ہی رہ گیا ہے؟ اِن سوالوں کو سمجھنے کیلئے آپ کی توجہ پاکستان میں سازشوں کی تاریخ کی طرف دلائی ہے۔
پنڈی سازش کے 27 سال بعد جبکہ فرنگی استعمار سے آزادی کے 41 سال گزرے تھے کہ Midnight Jackals کا مقدمہ (1988تا1989) سامنے آگیا۔ میڈیا اور عوام میں اِس مقدمے کو بریگیڈیئر بِلّا سازش کیس کے نام سے شہرت ملی‘ جس کی بنیاد پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کی ایک رپورٹ تھی۔ اِس رپورٹ کو بنیاد بنا کر لاہور کے صحافی منیر احمد نے کتاب لکھ ڈالی عنوان تھا، ''پاکستان میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کا سیاسی کردار‘‘۔ اس پیچیدہ مقدمے میں فوجداری قانون کے ماہر باری سلیمی سینئر ایڈووکیٹ، اکرم شیخ ایڈووکیٹ، دفاعی وکیل بنے۔ 3 ملزموں کا مقدمہ میری لاء فرم میں آیا، جن میں صحافی منیر احمد، نواز گورنمنٹ کے پہلے فیڈرل کامرس منسٹر ملک نعیم اعوان (خوشاب) اور شہرت یافتہ سپائی ماسٹر افغان امور کے ماہر میجر عامر، اِن تینوں نے مجھے وکیل کیا۔
وقت بدلتا رہا، مگر ہماری چال کبھی نہ بدلی۔ وہی بے ڈھنگی، وقت کے ساتھ بدلنے سے انکاری، اور زمینی حالات کے مطابق پالیسی سازی سے عاری‘ جس کا ایک بڑا ثبوت متحدہ پاکستان کے دور سے ملتا ہے۔ یہ تھا اگرتلہ Conspiracy Case، جس کا مقدمہ ایک فوجی حکومت نے ایوب دور میں سال 1968 میں ایسٹ پاکستان کے 34 لوگوں کے خلاف درج کروایا۔ بڑے ملزم شیخ مجیب الرحمان، محی الدین احمد، کمانڈر معظم حسین، فلائٹ سارجنٹ محافظ اللہ، کارپورل عبدالصمد، کیپٹن شوکت علی، کیپٹن خُندکر، کیپٹن محمد عبدالمطلب،21 بلوچ رجمنٹ کے افسران، کیپٹن اے این ایم نذرالزمان تھے۔ اگرتلہ سازش کیس اور حالیہ امپورٹڈ رجیم چینج سازش کیس میں مماثلت ہو سکتی ہے، مگر کوئی ایک جگہ نہیں، بہت سارے پوائنٹس پر۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ذمہ داری کا الزام روس پر لگایا گیا لیکن اِس مقدمے کے archives بڑی مختلف کہانی سناتے ہیں۔ سازش کے کرداروں اور اُن کے پاکستانی سہولت کاروں کے بارے میں۔ قوم سقوطِ ڈھاکہ کے سانحہ پر مسلسل رو رہی ہے لیکن جسٹس حمودالرحمان One-Man Commission کی رپورٹ، اقتدار کی غلام گردشوں میں کہیں کھو گئی ہے۔
وزارتِ پارلیمانی امور Establishment Division کا انتظام دیکھتی ہے۔ اِس لیے جو میں دیکھ سکا، چلئے آپ کو بھی تھوڑا سادکھاتا ہوں۔ جہاں میں 3 دفعہ اِنچارج وفاقی وزیر رہا۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved