تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     06-05-2022

عمران خان کے خلاف امریکی سازش کیسے ہوئی؟

راز ہو یا سازش، محبت ہو یا نفرت، حسد ہویا کینہ‘ ایک نہ ایک دن عیاں ہوکر رہتا ہے کیونکہ کوئی بھی راز ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا۔ وقت کا پہیہ چلتا ہے تو سازش کی گرہیں کھلنا شروع ہو جاتی ہیں اور دھیرے دھیرے سب نظر آنے لگتاہے۔ عمران خان حکومت کے ساتھ کیا ہوا‘ یہ راز اب راز نہیں رہا۔ امریکا کا کیا کردار تھا او ر اس وقت کی اپوزیشن جماعتیں کس طرح استعمال ہوئیں، ہوئیں یا نہیں ہوئیں‘ ساری کہانی کھل کر سامنے آچکی ہے مگر اس کے کچھ پوشیدہ پہلو بھی ہیں‘ جو اب وکی لیکس کے ذریعے منظر عا م پر آئے ہیں۔ وکی لیکس کے مطابق: عمران خان حکومت گرانے کی سازش صرف امریکا نے تیار نہیں کی بلکہ اس کے پیچھے برطانیہ، فرانس، جرمنی، اسرائیل اور بھارت کا بھی ہاتھ تھا۔ اس کہانی کا آغاز جولائی 2019ء میں ہوا تھا جب عمران خان نے بطورِ وزیراعظم امریکا کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف عمران خان کا پرتپاک استقبال کیا بلکہ وائٹ ہاؤس میںخوب تصویریں بھی بنوائیں۔ یہ تصویریں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے اقوام عالم تک پہنچیں تو سب ششدر رہ گئے۔ برطانیہ حسد کی آگ میں جلنے لگا جبکہ فرانس، جرمنی، اسرائیل اور بھارت میں تو غیر اعلانیہ طور پرتین روزہ سوگ منایاگیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی عمران خان کے ساتھ قربت جو بائیڈن سمیت ڈیموکریٹ رہنماؤں کو بھی ایک آنکھ نہ بھائی اور وہ عمران خان کواپنے لیے خطرہ سمجھنے لگے۔ چلیں ! ڈیموکریٹس تو ڈونلڈ ٹرمپ کے حریف ہیںان کے خدشات سمجھ میں آتے ہیں مگر نجانے کیوں امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی عمران خان کی مقبولیت سے ڈر گئی۔ پینٹاگون اور سی آئی اے ہیڈکوارٹر میں الگ الگ اجلاس بلائے گئے اور صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا۔ سی آئی اے نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اگر ٹرمپ اور عمران خان کی دوستی کار استہ نہ روکا گیا تو امریکا کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے‘ یورپی یونین سے تعلقات خراب ہوںگے اور برطانیہ بھی ہمارا روایتی حلیف نہیں رہے گا‘ بھارت جنوبی ایشیا میں ہمارے مفادات کا تحفظ نہیں کرے گا اور ہم کسی طور بھی چین کو کنٹرول نہیںکر پائیں گے۔ یہ رپورٹ واشنگٹن میں اعلیٰ حکام تک پہنچی تو ہر طرف سکتہ طاری ہوگیا۔ اس رپورٹ کی روشنی میں امریکی اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا کہ ہمیں ہر صورت عمران خان کو پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ سے الگ کرناہے۔ سی آئی اے کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ ایم آئی سکس، موساد اور را کے ساتھ مل کر منصوبے کو تکمیل تک پہنچائیں۔
اس فیصلے کے دو ماہ بعد اکتوبر 2019ء میں سی آئی اے نے اپنی اتحادی خفیہ ایجنسیوں کا اجلاس امریکی ریاست ورجینیا میں بلایا۔ اس خفیہ اجلاس کا مقصد پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ کرنا اور انہیں تحریک عدم اعتماد کے لیے مدد فراہم کرنا تھا۔ اس اجلاس کی اطلاع کسی نہ کسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کو ہوگئی اور اس نے سی آئی اے کو ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ پینٹا گون اور واشنگٹن میں امریکی صدر کے حکم کو ناپسند کیا گیا مگر وہ خاموش رہے۔ اب امریکی اسٹیبلشمنٹ اس انتظار میں تھی کہ کب عمران خان پر پلٹ کر وار کرے مگر کوئی مناسب موقع اس کے ہاتھ نہیں آرہاتھا۔ خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ مارچ 2020ء میں کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ لاک ڈاؤن اور دیگر پاپندیوں کے حامی نہیں تھے اسی لیے انہوں نے عمران خان کو کہا کہ وہ پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن مت لگائیں۔ عمران خان نے امریکی صدرکی بات مان لی مگر وہ صوبوں کو قائل نہ کرسکے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارا پاکستان بند ہوگیا اور عمران خان تقریریں ہی کرتے رہے۔ لاک ڈاؤن رکوانے میں ناکامی پر ڈونلڈ ٹرمپ بھی عمران خان سے خفا ہوگئے اور یوں امریکی اسٹیبلشمنٹ کو ایک بار پھر عمران خان کے خلاف کام کرنے کا موقع مل گیا۔ سی آئی اے اہلکاروں کو دوبارہ ذمہ داریاں دی گئیں اور وہ پھر سے اپنے کام میں جت گئے۔ پاکستان میں کوروناوائرس کی پہلی لہر دم توڑ رہی تھی کہ سی آئی اے کے ایک ڈائریکٹر نے کراچی میں آصف زرداری سے ملاقات کی، دوسراڈائریکٹر لندن میں میاں نواز شریف سے ملا اور تیسرا اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کو قائل کرنے پہنچا۔ تینوں ہی عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے خوشی خوشی مان گئے اور یوں پی ڈی ایم کو دوبارہ فعال کیا گیا اور پھر جو ہوا‘ وہ تاریخ کا حصہ ہے سو اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ کس طرح پی ڈی ایم نے تحریک چلائی، کیسے حکمران جماعت کو توڑا گیا، کیسے اتحادیوں کو عمران خان سے دور کیاگیا، کیسے تحریک عدم اعتماد آئی اور کیسے شہباز شریف وزیراعظم ہاؤس کے نئے مکین بن گئے۔ میں جیسے جیسے یہ خفیہ دستاویزات پڑھ رہا تھا ویسے ویسے حیرتوں کے نئے جہان مجھ پر وا ہورہے تھے۔ میں سوچ بھی نہیںسکتا تھا کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی ایف ایسی حرکت بھی کرسکتی ہیں مگر میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ رپورٹ کا ہر ہر لفظ عمران خان کو سچا ثابت کر رہا تھا۔ ان دستاویزات کی ورق گردانی کرتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ بھارت اس مکروہ کھیل کا حصہ کیوں بنا؟ دو چار صفحے پلٹنے کے بعد مجھے اس کا جواب بھی مل گیا۔ بھارت کا مسئلہ امریکا سے ذرا مختلف تھا۔ بھارت عمران خان دور کی معاشی پالیسیوں سے خائف تھا۔ اسے خطرہ محسوس ہورہا تھا کہ اگر پاکستان ایسے ہی معاشی طور پر مضبوط ہوتارہا تو انڈیا کو بہت پیچھے چھوڑ جائے گا۔ مودی سرکار نہیں چاہتی تھی کہ عمران خان حکومت مہنگائی اور بیروزگاری کو کنٹرول میں رکھے، بدانتظامی، کرپشن اور نااہلی کو ہمیشہ کے ختم کردے، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے، صوبوں کے درمیان مثالی ہم آہنگی ہو، اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملے، پاکستان قرضوں کے بغیر چلنا سیکھ جائے اور سب سے بڑھ کر سی پیک جیسی مزید سرمایہ کاری پاکستان میں آئے۔
یہاں مجھے یہ اعتراف کرنا ہے کہ مذکورہ بالا ساری کہانی جھوٹ پر مبنی ہے اور سراسر میرے اپنے ذہن کی اختراع ہے۔ یہ من گھڑت کہانی مجھے اس لیے بیان کرنا پڑی کیونکہ آج کل اس کے خریدار بہت ہیں۔ میرا ایک دوست آسٹریلیا میں رہتا ہے‘ وہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے مجھے لگ بھگ روزانہ فون کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ امریکا نے سازش کرکے عمران خان کو اقتدارسے کیوں نکالا۔ میراجواب ہمیشہ ایک ہی ہوتا تھا کہ یہ سب سیاست ہے۔ تم اس پر دھیان مت دو‘مگر مجال ہے کہ میرے دوست کو یقین آتا ہو۔ ایک دن تنگ آکر میں نے اس کو مذکورہ بالا کہانی سنا دی۔ وہ بہت خوش ہوا اور مجھے بڑا صحافی ماننے لگا۔ اس کی خوشی دیکھ کر ایک لمحے کیلئے مجھے یوں لگا کہ وہ مجھ سے سچ سننے کا طلبگار نہیں تھا بلکہ جو مفروضہ وہ پہلے سے قائم کر چکا ہے‘ اس کی تائید چاہتا ہے۔ اس کے بعد اس نے ساری کہانی اپنے فیس بک اکاؤنٹ پرلکھ دی اور دیکھتے دیکھتے سینکڑوں لوگوں نے اسے اپنی وال پر شیئر کر دیا جبکہ سینکڑوں کمنٹس بھی آئے۔ ان کمنٹس پر میری نظر پڑی تو میں مکمل طورپر ہل گیا۔ میں نے اپنے دوست کو فون کیا، اس سے معافی مانگی اور زبردستی یہ خود ساختہ کہانی ڈیلیٹ کروائی۔ اس نے کہانی تو ڈیلیٹ کردی مگر مجھے برابھلا کہا اور فیس بک پر بلاک کردیا۔
اس واقعے کو تین دن گزر چکے ہیں مگر میں ذہنی طورپر وہیں اٹکا ہواہوں۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں خود پر زیادہ نادم ہوں یا عوام پر۔ نجانے ہم کیسے لوگ ہیں جو جھوٹ کو سچ پر ترجیح دے کر خوش ہوتے ہیں۔ ہم کسی بھی سازشی تھیوری کو مان لیتے ہیںاور اپنے ذہن سے سوچنے کی تکلیف نہیں کرتے۔ ہمیں کوئی بھی جھوٹ بول کر گمراہ کرسکتاہے اور ہم کسی کے خلاف بھی زہر اگلنے کیلئے ہمہ وقت تیاررہتے ہیں۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ایسا ممکن ہے بھی یانہیں۔ مجھے گمان ہوتا ہے کہ بطور قوم ہمیں دلیل اور منطق سے چڑ ہوچکی ہے۔ جو بھی استدلال سے بات کرنے لگتا ہے ہمیں اس پر غصہ آتا ہے۔ اب صرف سازشی تھیوریاں اور من گھڑت قصے ہمیں بھاتے ہیں ۔آپ خود فیصلہ کریں‘ میری سازشی تھیوری پر چند گھنٹوں میں سینکڑوں لوگ یقین کر سکتے ہیں تو سیاسی اکابرین کی پھیلائی ہوئی کہانیوں پر کتنے لوگ تکیہ کرتے ہوں گے۔ مجھ سے تو ایک دوست خفا ہوا ہے مگر ان کی لگائی ہوئی آگ میں کتنے خاندان جلتے ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved